میرپورخاص،شہر بھر میں بے امنی کا راج ،شہری عدم تحفظ کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
میرپورخاص (نمائندہ جسارت) ضلع بھر میں بے امنی عروج پر چوری ڈکیتی لوٹ مار موٹر سائیکل چوری واردتوں میں اضافہ متعدد تھانوں میں مسلسل تعینات ایس ایچ آوز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان۔ تفصیلات کے مطابق میرپورخاص ضلع میں بے امنی عروج پر ہونے سے تمام تھانوں کی حدود میں چوری ڈکیتی موٹر سائیکل چوری لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافے کے سبب شہری تشویش میں مبتلا ہیں شہریوں کا کہنا تھا کہ آئے روز کھلے عام لوٹ مار کرنے والے ملزمان سے شہری غیر محفوظ ہوچکے ہیں دکانوں کے تالے توڑنے اسلحہ کے زور پر تاجروں کے ساتھ اور شہریوں سے لوٹ مار موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے ضلع کا کوئی بھی تھانہ بے امنی کی لپیٹ سے محفوظ نہیں رہا ہے ضلع بھر میں تعینات ایس ایچ اوز میں متعدد ایس ایچ مستقل بنیادوں میں تعینات رہنے پر ان کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کی جانب سے متعدد ایس ایچ آوز کو شوکاز نوٹس اور انکریمنٹ سمیت محکمہ جاتی کارروائی کے باوجود ایس ایچ اوز اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے بجائے من پسند تھانوں پر تعینات رہنے کے لیے کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ضلع بھر میں چوری ڈکیتی لوٹ مار چوری کی وارداتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ضلع بھر میں ہیروئن کرسٹل آئس چرس کچی شراب سمیت دیگر منشیات کا کاروبار عروج پر ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے ہر ماہ کارکردگی رپورٹ میں سب اچھے کا راگ الاپا جاتا ہے۔ شہریوں نے آئی جی سندھ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی میرپورخاص سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے ایس ایچ آوز جو عرصہ دراز سے ایک ہی تھانے پر تعینات ہے ان کی جگہ دوسرے فرض شناس افسر کو تعینات کیا جائے اور ہر تین ماہ کی کارکردگی رپورٹ کی روشنی میں ایس ایچ آوز کے تبادلے دیگر تھانوں میں کیے جائیں تاکہ کچھ حد تک ضلع میں بے امنی کی بڑھتی ہوئی لہر کو کم کیا جاسکے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ایس ایچ ا وز لوٹ مار
پڑھیں:
لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی
LOS ANGELES:لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکین کے چھاپوں کے خلاف جاری احتجاج کے دوران صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر تعینات نیشنل گارڈ کے دستے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔
گزشتہ روز ایک وفاقی حراستی مرکز کے باہر سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے بہت سخت قانون و انصاف نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دیگر شہروں میں بھی فوج تعینات کرنے کا عندیہ دیا۔
امریکی فوج کے مطابق 79ویں انفنٹری بریگیڈ کامبیٹ ٹیم کے 300 فوجی اہلکار گریٹر لاس اینجلس کے تین مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں۔ ان کا مشن وفاقی املاک اور عملے کی حفاظت فراہم کرنا ہے۔
ان فوجی اہلکاروں کو مکمل جنگی لباس اور اسلحے کے ساتھ شہر کے مرکزی وفاقی حراستی مرکز پر تعینات کیا گیا، جہاں وہ محکمہ داخلہ (ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی) کے اہلکاروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے آنسو گیس اور پیپر اسپرے کا استعمال کیا، جس سے صحافیوں سمیت کئی افراد متاثر ہوئے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ایک سرکاری گاڑیوں کا قافلہ حراستی مرکز میں داخل ہو رہا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مظاہروں میں مبینہ پرتشدد عناصر کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے پرتشدد لوگ ہیں ہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا وہ انسریکشن ایکٹ (Insurrection Act) نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو فوج کو داخلی طور پر پولیس فورس کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے تو صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ہم ہر جگہ فوج تعینات کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ سب کچھ اپنے ملک کے ساتھ نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے اس اقدام کو جان بوجھ کر اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریاستی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ جب تک ٹرمپ نے مداخلت نہیں کی تھی، ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، یہ ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے، حکم واپس لیا جائے اور کیلیفورنیا کا کنٹرول ریاست کو لوٹایا جائے۔
متعدد ڈیموکریٹ گورنرز نے ایک مشترکہ بیان میں گورنر نیوزوم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کا استعمال اقتدار کا خطرناک غلط استعمال ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل گارڈ امریکا کی ایک ریزرو فوجی فورس ہے، جو عموماً قدرتی آفات یا شدید ہنگامی حالات میں مقامی حکام کی درخواست پر تعینات کی جاتی ہے۔
اس بار یہ تعیناتی ریاستی منظوری کے بغیر کی گئی ہے، جو ماہرین کے مطابق 1960ء کی شہری حقوق کی تحریک کے بعد پہلا واقعہ ہے۔