بھارتی وزیراعظم کا دورہ امریکہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
نومنتخب امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کے فوراً بعد ’’کوارڈ‘‘ کے اجلاس میں ان سے بھارت اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی سفارتی شخصیات نے ملاقات کی۔ یہ ملاقات یقینا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایما پر ہوئی۔ جس کے بعد عام تاثر تھا کہ اب ان ممالک کے سربراہوں سے امریکی صدر کی ملاقاتیں ہوں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود اپنی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ ان کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے 100دنوں میں چینی صدر شی پنگ سے ملاقات کریں۔ بھارت اور چین ایشیا کے دو بڑے ملک اور دو بڑی معیشتیں ہیں۔ ایک ملک کے دورے پر جانے اور دوسرے ملک کے وزیراعظم کو امریکہ کے دورے کی دعوت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جی سیون ممالک پر اگر انہیں اہمیت دی گئی ہے تو اس کے پیچھے کیا ہو سکتا ہے۔ کہنے کو تو بھارتی وزیراعظم کو امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے جو آنے والے ہفتے میں امریکہ کا دورہ کریں گے لیکن درحقیقت بھارتی وزیراعظم کی امریکہ میں طلبی اسی انداز میں ہوئی ہے جیسے علاقے کا نواب یا جاگیردار اپنے کسی کمی یا کمدار کو بھیج کر اس شخص کو طلب کرتا ہے جس کے بارے میں اسے اطلاعات موصول ہوں یا اسے شک گزرے کہ شہر میں چند ماہ و سال گزار کر گائوں واپس آنے والا کچھ زیادہ اکڑ کر چلنے لگا ہے اور ضرورت سے زیادہ زبان دراز بھی ہو گیا۔ ایسی ملاقات میں اس شخص کی ساری اکڑ نکال دی جاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی طلبی کیوں کی ہے اس کی وجوہات عام فہم ہیں۔ امریکی صدر، بھارتی وزیراعظم سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے الیکشن میں بھارتیوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی کو دعوت دی کہ وہ ان کی کمپین میں آ کر شمولیت اختیار کریں تاکہ تاثر ملے کہ مودی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل بھارتی نژاد کملا دیوی صدر کے عہدے کی امیدوار تھی۔ مودی حکومت کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔ ایک روایت کے مطابق بھارتی میڈیا تواتر سے کملا دیوی کی فتح کا پراپیگنڈا کرتا رہا۔ جب نتائج اس کے برعکس نکلے تو بھارت میں باقاعدہ اس کا سوگ منایا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم اور تھنک ٹینک سے وابستہ لوگ انہیں اس حوالے سے رپورٹ کرتے رہے، ٹرمپ بنیادی طور پر جارح مزاج واقع ہوئے ہیں۔ پس مزاج کی جارحیت اور مودی کی الیکشن کمپین میں عدم شرکت کا حساب پہلی ملاقات میں چکایا جائیگا۔ نریندر مودی کا رویہ ہندو نفسیات کے عین مطابق ہوگا۔ ہندو طاقتور کے سامنے لیٹ جاتا ہے اور کمزور پر ظلم کے پہاڑ توڑنے سے گریز نہیں کرتا۔ بھارت نے ہر معاملے پر چینی فوج سے جوتے کھائے اور اس کا برا نہیں منایا جبکہ نہتے معصوم کشمیریوں پر ہمیشہ ظلم روا رکھا۔ مودی، امریکی صدر کو بڑھ بڑھ کر جپھیاں ڈالتا نظر آئے گا، وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر امریکی صدر کو رام کرنے کی کوششیں کرے گا اور ٹرمپ بھی مان جائیگا۔ ٹرمپ نے مودی کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے اس کا سٹیج تیار کیا جا چکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے امریکہ پہنچنے سے قبل ہی حکم دے دیا گیا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت کا توازن ٹھیک کرنے کے لئے 32ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے۔ جس کے جواب میں مودی نے بڑھ چڑھ کر پیشکش کر دی ہے کہ بھارت امریکہ سے ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ اتنی بڑی رقم کا اسلحہ خریدتا ہے یا نہیں اور اگر خریدتا ہے تو کتنی قسطوں میں اور کتنے برسوں میں۔ یہ باتیں دورے کے اختتام پر سامنے آئیں گی۔ دونوں سربراہ حکومت اپنے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عوام کے مفاد میں بہترین ڈیل کی ہے، بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا جبکہ امریکہ کی پلاننگ یہ ہے کہ بھارت کو اس قدر نچوڑ لیا جائے کہ وہ چین کو کوئی بہت بڑا بزنس نہ دے سکے اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچے۔ امریکی صدر امریکہ کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اپنی جاری ٹرم میں اپنے دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا بوجھ ڈالیں گے اور ماضی کے برعکس ان سے بہت کچھ حاصل کرنا چاہیں گے۔ اس لوٹ کھسوٹ کے لئے وہ ہر ایک کو آنکھیں دکھاتے رہیں گے۔ اسی طرز عمل کے اظہار کے لئے مودی کے امریکہ لینڈ کرنے سے قبل قریباً سات سو غیر قانونی طور پر امریکہ میں گھسنے والے بھارتیوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر ایک فوجی طیارہ بھارت لینڈ کر چکا ہے جس پر کوئی ردعمل دینے کی بجائے خوشدلی سے کہا گیا ہے کہ امریکہ اگر غیرقانونی طور پر امریکہ میں آنے والوں کو بھارت واپس بھیجتا ہے تو بھارتی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً دس لاکھ بھارتی مرد اور خواتین امریکہ میں موجود ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسی نوجوانوں کی ہے جو مختلف اوقات میں پڑھنے کے بہانے امریکہ گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ بیشتر کے عزیز و اقارب وہاں پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے ان غیرقانونی بھارتیوں کو پناہ دی، ان کے لئے نوکریوں کا بندوبست بھی کیا۔ بھارتی کمیونٹی دنیا کے جس ملک میں بھی ہو وہ قانونی یا غیرقانونی طور پر آنے والے بھارتیوں کے لئے دیدہ و دل وا رکھتی ہے۔ کچھ ایسے ہی معاملات یورپین ممالک اور خلیجی ممالک میں ہیں جہاں بھارتیوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
بھارتی وزیراعظم اپنے اہل و عیال کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر نہیں آ رہے بلکہ ان کے ساتھ منجھے ہوئے بیوروکریٹ مختلف اداروں کے سربراہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی کمپنیوں کے سربراہ اور نامور بزنس مین ہوں گے جو بھارت کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین ڈیل حاصل کرنے کی کوششیں کریں گے۔ دوسری طرف امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ خارجہ امور، سکیورٹی ایڈوائزر اور ٹرمپ ٹیم کا حصہ بننے والی کچھ کاروباری شخصیات ہوں گی۔ سب کے سامنے اپنے ملک کا مفاد ہوگا۔ ان تمام ملاقاتوں میں اگر کوئی سوچتا ہے کہ پاکستان زیر بحث نہیں آگے گا تو ایک غلط فہمی ہوگی۔ بھارتی سربراہ مملکت کے ہر دورہ امریکہ پر پاکستان زیر بحث آتا ہے لیکن بھارتی حکومت ہمیشہ یہ تاثر دیتی ہے کہ پاکستان کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پاکستان کی خطے میں اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس کی اقتصادی حالت ہے جبکہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد سے تو اب پاکستان کسی قطار شمار میں نہیں رہا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا ہے۔ ہم فقط ہاتھوں کی زنجیر بناتے رہ گئے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر امریکہ کے کے ساتھ کے لئے نہیں ا
پڑھیں:
ٹرمپ، شہباز شریف متوقع ملاقات میں تیسرا شریک کون ہوگا؟ بھارت میں کھلبلی مچ گئی
جب سے وزیراعظم محمد شہباز شریف اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اگلے ہفتے متوقع ملاقات کی بھنک بھارت کو پڑی ہے، انڈیا میں ایک کھلبلی سے مچ گئی ہے۔ مسلسل 2 سوالات کے جوابات کی کھوج لگائی جارہی ہے کہ اس ملاقات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور ملاقات میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کے ساتھ کون کون شریک ہوگا۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر آئندہ ہفتے نیویارک میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ ملاقات کی تاریخ متوقع طور پر 25 ستمبر 2025 ہے۔
شہباز شریف ٹرمپ ملاقات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ ملاقات میں پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کا معاملہ زیربحث آنے کا امکان ہے جبکہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد خطے میں آنے والی تبدیلی پر بھی بات ہوگی۔ علاوہ ازیں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور سفارتی صورتحال پر بھی گفتگو ہوگی۔
اب تک پاک فوج برائے تعلقات عامہ (Inter-Services Public Relations) یا واشنگٹن میں پاکستان کے سفارتخانے کی جانب سے اس ملاقات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 25 ستمبر کو ملاقات کی تیاریاں
بھارتی میڈیا رپورٹس جن حالات میں یہ ملاقات ہو رہی ہے، ان کا بھی تجزیہ کیا ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملاقات اس پسِ منظر میں ہو رہی ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات اس وقت سازگار انداز میں بہتر ہوئے ہیں، خاص طور پر تجارتی معاہدے اور توانائی و معدنیات کے شعبے میں تعاون کے امکانات کی بنا پر۔
وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 25 ستمبر کو ملاقات کی تیاریاںبطور میزبان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے23 ستمبرکواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سربراہانِ مملکت سمیت اعلٰی عہدیداران کے اعزاز میں عشائیہ دیا جائے گا۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر کے درمیان سرسری ملاقات بھی متوقع ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفارتی عملہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان باضابطہ ملاقات کے لیے بھی کوشاں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا پاکستان کے لیے بہت سے دروازے کھولنے والا ہے، محمد عاطف
سفارتی ذرائع کے مطابق امریکا میں پاکستانی سفارتخانے نے اس ضمن میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے اس مجوزہ ملاقات کے ضِمن میں درخواست بھی کی ہے لیکن ابھی اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
پاکستانی دفترِخارجہ نے فی الحال اِس بات کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم اتنا ضرور کہا ہے کہ ملاقات کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جلد کنفرم کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
لیکن اس سے ہٹ کر کئی ذرائع بتا رہے ہیں 25 ستمبر 2025 کو متحدہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز پر نیویارک یا واشنگٹن میں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات متوقع ہے۔
روزنامہ دی نیوز کی خبر کے مطابق اس دورے میں وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ہوں گے اور یہ ملاقات پاکستان کی قطراورسعودی عرب کے ساتھ مشاورت کے بعد عمل میں آئے گی۔
مزید پڑھیں: پاکستان امریکا تعلقات کو پاک چین دوستی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان، سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوحہ پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں طویل مشاورت ہوئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف 21 سے 27 ستمبر تک امریکا کا دورہ کریں گے، جہاں وہ 26 ستمبر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے، اس موقع پر وہ عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔
اپنے اس دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس سے ملاقات بھی کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
شہباز ٹرمپ ملاقات فیلڈ مارشل سید عاصم منیر