روس کے یوکرین پر سینکڑوں نئے ڈرون حملے
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین پر گزشتہ رات 139 ڈرون حملے کیے ہیں۔ ان میں سے 67 ڈرونز کو تباہ کر دیا گیا جبکہ 71 ڈرون ملک کے کئی دیگر مقامات پر گرے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سیومی کے ایک علاقے میں رہائشی عمارت میں آگ بھڑک اٹھی تاہم اب تک کسی جانی نقصان کا اطلاعات نہیں ہیں۔
دوسری جانب روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس نے وولگوگراڈ، روستوو، بیلگوروڈ اور کراسنوڈار کے علاقوں میں 36 یوکرینی ڈرونز مار گرائے ہیں۔
حکام کے مطابق ڈرونز کا ملبہ گرنے سے کراسنودار علاقے کے شہر سلوویانسکنا کوبانی میں متعدد مکانات اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بیلگوروڈ میں بجلی کی ایک لائن تباہ ہونے سے متعدد دیہات کو بجلی کی فراہمی منقطع ہوچکی ہے۔
(جاری ہے)
یوکرین تقریباً تین سالوں سے مغربی حمایت پر تکیہ کیے ہوئے روس کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔ اپنی فوجی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے کیف نے روسی حدود میں اہداف پر بارہا حملے بھی کیے ہیں۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے فرنٹ لائن کی صورتحال پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا کہ شمالی کوریا کے فوجی محاذ پر واپس آگئے ہیں اور روسی افواج کے ساتھ مل کر مغربی روسی علاقے کُرسک میں دوبارہ لڑائی شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کے فوجی، جنہیں نامعلوم وجوہات کی بناء پر واپس بلا لیا گیا تھا، اب نئے حملوں میں دوبارہ روسی افواج کا ساتھ دے رہے ہیں۔
زیلنسکی کے مطابق روسی اور شمالی کوریائی افواج کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔ یوکرین صدر کی جانب سے فراہم کردہ ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
تاہم پیونگ یانگ کی جانب سے مبینہ طور پر یوکرین کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی روس کی حمایت کے لیے تقریباً 12,000 فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
مغربی تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ کرسک کی لڑائیوں میں شمالی کوریا کی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جس کی وجہ سے انہیں محاذ سے عارضی انخلاء کی ضرورت پڑی۔ پارلیمانی اسپیکر رسلان اسٹیفانچک نے کہا کہ جنگ کے خاتمے تک یوکرین میں نئے انتخابات نہیں ہوں گے جب تک کہ ملک روس کے حملوں کی زد میں ہے یوکرین پارلیمانی یا صدارتی انتخابات منعقد نہیں کرائے گا۔
زیلنسکی مارشل لاء کی شرائط کے تحت اپنے عہدے پر برقرار ہیں، جس کی وجہ سے وہ عام انتخابات کے انعقاد تک اپنی صدارت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ اسٹیفانچوک نے زور دیا کہ یوکرین کے آئین کے تحت مارشل لاء کے دوران انتخابات نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ فرنٹ لائن فوجیوں کو انتخابات کے منصفانہ ہونے کے لیے ووٹ دینے کا حق ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بیرون ملک یا روس کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے لاکھوں یوکرینی بھی حصہ لینے کے موقع کے مستحق ہیں۔
مزید برآں، انہوں نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی انتخابی مبصرین جنگ کے وقت یوکرین میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ جب مارشل لاء ختم ہوگا تو نئے انتخابات ہوں گے۔
ر ب/ ع ت (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ انہوں نے روس کے
پڑھیں:
روس سے اتحاد کے باعث سے بھارت کیساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، یورپی یونین
برسلز(انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری اور ماسکو کے ساتھ فوجی مشقوں میں شمولیت، نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی یورپی یونین کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی بلاک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے اور دفاع جیسے شعبوں میں تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
We just adopted a new EU-India strategy.
It offers stronger cooperation on trade, technology, climate, security and defence.
But there are areas where we disagree. Ultimately our partnership is about defending the rules-based international order.
My press remarks ↓ pic.twitter.com/sJT1iAFdt3
— Kaja Kallas (@kajakallas) September 17, 2025
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس نے ایک نئی حکمتِ عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہماری شراکت داری صرف تجارت کے بارے میں نہیں بلکہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے دفاع کے بارے میں بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی مشقوں میں حصہ لینا، تیل کی خریداری، یہ سب ہمارے تعاون کو گہرا کرنے میں رکاوٹیں ہیں، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپی یونین کو یہ توقع نہیں ہے کہ بھارت، روس سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گا اور دونوں فریق اپنے مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
ایران اور ماسکو کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ، بھارت نے اس ماہ روس کی مشترکہ فوجی مشقوں ’زاپاد‘ (مغرب) میں شرکت کی، جن کا کچھ حصہ نیٹو کی سرحدوں کے قریب ہوا۔
بھارت، روسی تیل کا بڑا خریدار بن گیا ہے جس سے اس نے اربوں ڈالر بچائے اور ماسکو کو ایک اہم برآمدی منڈی فراہم کی، کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے روایتی خریداروں نے روس سے خریداری بند کر دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت اور چین پر بھاری محصولات عائد کرے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
لیکن یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک برسلز نئی دہلی کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پیچھے ہے، یہ امکان کم ہے، اگرچہ یورپی یونین بھارت میں روسی اداروں کے خلاف اقدامات کر سکتی ہے جیسا اس سے قبل ماسکو پر عائد پابندیوں کے پیکج میں کیا گیا ہے۔
روس پر مؤقف میں ہم آہنگی کی کمی کے باوجود، یورپی یونین اور بھارت بھی 2025 کے آخر تک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کرنے کے خواہاں ہیں، ایسے وقت میں جب نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
امریکا-بھارت تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں، جب ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی برآمدات پر محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، جس کے باوجود بھارت نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی۔
کاجا کلاس کے ساتھ برسلز میں سیفکووچ نے کہا کہ یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تجارت گزشتہ دہائی میں 90 فیصد بڑھ چکی ہے۔
بھارت اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار امید کرتے ہیں کہ اگلے سال کے اوائل میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہو گا۔
پیوٹن اور مودی کی دوستی
اسی دوران، بدھ کو پیوٹن اور مودی نے اپنی دوستی اور گرمجوش تعلقات کو سراہا اور ایک فون کال کی، حالانکہ واشنگٹن کی جانب سے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات پر دباؤ موجود ہے۔
روسی اور بھارتی رہنماؤں نے فون پر بات چیت کی، اس سے ایک روز قبل مودی نے یوکرین تنازع اور محصولات پر ٹرمپ سے بھی بات کی تھی۔
روسی صدر نے فون کال کے بعد ایک سرکاری اجلاس میں کہا کہ بھارت اور روس کے تعلقات انتہائی پُراعتماد اور دوستانہ رہے ہیں۔
نریندر مودی نے ’ایکس‘ پر کہا کہ وہ اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور بھارت یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ اور یوکرین کوشش کر رہے ہیں کہ روس کے اہم توانائی کے ذرائع آمدنی کو ختم کیا جائے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ماسکو کی فوج کو فنڈز فراہم کرتے ہیں اور اسے اپنے حملے جاری رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
Post Views: 3