Islam Times:
2025-04-26@08:38:53 GMT

ٹرمپ! ہوش کے ناخن لو

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

ٹرمپ! ہوش کے ناخن لو

اسلام ٹائمز: بیرون ملک مخالف گروپوں کے دعوؤں کے باوجود، ایرانی آبادی بیرونی خطرات کا سامنا کرنے اور اپنی خود مختاری کے دفاع کیلئے مسلسل متحد رہی ہے۔ یہ اجتماعی ہم آہنگی، فخر اور لچک کے مشترکہ احساس کیساتھ ایران کیخلاف جارحیت کو روکنے اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو مستحکم کرتی ہے۔ انقلاب مخالف گروہ، قوم اور ریاست کے درمیان تقسیم پر زور دیتے ہیں۔ وہ حقیقت میں کشیدگی بڑھانے کیلئے اکثر جھوٹے بیانیے پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ان خرافات سے پرہیز اور ایران میں حکومت کی تبدیلی جیسی خواہش کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیئے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو بلاشبہ حقیقت پسندی، احتیاط اور پرامن حل کیلئے حقیقی عزم پر مبنی پالیسی کو اپنانا چاہیئے، وگرنہ نتیجہ اسکے مکمل برعکس سامنے آئے گا، جو ٹرمپ کو دکھایا جاتا ہے۔ تحریر: علی واحدی

امریکی کانگریس کے سرکاری ترجمان دی ہل نے لکھا ہے کہ یہ خیال سرے سے غلط ہے کہ ایران کمزور ہوگیا ہے اور حالیہ علاقائی پیش رفت کی وجہ سے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بعض دعووں کے برعکس، ایران آج بھی مضبوط دفاعی صلاحیتوں اور اہم جیو پولیٹیکل لیوریج کے ساتھ اس خطے کا ایک طاقتور کھلاڑی ہے۔ ایک علاقائی طاقت اور ایک آزاد قوم کے طور پر ایران کی پوزیشن کسی بھی تنازع کو ایک بڑے خطرے میں تبدیل کرسکتی ہے۔ بیرون ملک اپوزیشن کے دعووں کے برعکس ایرانی عوام بیرونی خطرات کے پیش نظر اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے پہلے بھی متحد تھے اور اب بھی ہیں۔ دی ہل میگزین نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایرانی حکومت کے خاتمے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایران کے بارے میں امریکی بیانیے میں تین غلط فہمیاں حاوی ہیں: پہلی غلط فہمی یہ کہ ایران مشرق وسطیٰ کی حالیہ پیشرفت اور جنگ میں کمزور ہوگیا ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اس قدر بے اختیار ہوگیا ہے کہ آخری حربے کے طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو آگے بڑھا سکتا ہے اور تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ ایران کےنظام کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔۔۔۔ اکثر اسرائیلی ذرائع حقیقت کو مسخ کرتے ہیں اور نئی امریکی انتظامیہ کو خطرناک غلطیوں کی طرف لے جانے کا خطرہ بڑھا رہے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پالیسی سازوں کو جنگ کے حقیقی اخراجات کو کم کرنے، ایران کے خلاف پیشگی کارروائی کے لیے فوری عجلت کا غلط احساس پیدا کرنے، ایران کی داخلی سلامتی اور سیاسی استحکام کے بارے میں غلط اندازہ لگانے اور بالآخر ایران میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے پالیسیاں بنانے کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں۔

یہ نامکمل اور غلط بیانیہ صرف امریکی خارجہ پالیسی بنانے والے سخت گیر لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ رچرڈ ہاس نے "ایران کے مواقع" کے عنوان سے اپنے حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ "ایران کئی دہائیوں کے مقابلے میں کمزور بلکہ زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔" اسی طرح ڈینس راس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نے اکتوبر کے آخر میں اپنے حملوں سے ایران کی 90 فیصد میزائل کی پیداواری صلاحیت کو تباہ کر دیا تھا۔ یہ دونوں اس طرح کے بیانات دیکر ایران کے خلاف فوجی کارروائی کو ایک قابل عمل آپشن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ امریکہ کے نئے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سینیٹ میں اس طرح کے بیانئے کو دہرایا ہے۔ روبیو نے توانائی کے عدم توازن کو ایران کے کمزور ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے، حالانکہ ایران میں توانائی کی سبسڈی  کے بارے میں اصلاحات کی بات چیت گذشتہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ یہ کمزوری کی بجائے طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی کی عکاسی کرتی ہے۔

کمزور ہونے کے دعووں کے برعکس، ایران مضبوط دفاعی صلاحیتوں اور اہم جیو پولیٹیکل لیوریج کے ساتھ آج بھی ایک طاقتور کھلاڑی ہے۔ تقریباً 90 ملین کی آبادی، جدید فوجی ٹیکنالوجی، اہم اسٹریٹجک نکات پر کنٹرول، تزویراتی جغرافیہ اور خود انحصاری پر استوار دفاعی ڈھانچہ ایران کی ایسی صلاحیتیں ہیں، جس کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ دوسری طرف ایران کی دفاعی صلاحیتوں کا انحصار کبھی بھی حزب اللہ جیسے غیر ریاستی عناصر کے ساتھ علاقائی اتحاد پر نہیں رہا ہے۔ ایک علاقائی طاقت کے طور پر ایران کی پوزیشن، جو ایک آزاد قوم کے لیے دستیاب وسائل کی مکمل رینج سے لیس ہے، کسی بھی تنازعے کو ایک بڑا خطرہ بناسکتی ہے۔ ایران کے خلاف کسی طرح کی جنگ علاقائی استحکام کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے اور اس کے یقیناً عالمی معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔ ایران، 1.

6 ملین مربع کلومیٹر کے رقبے کا مالک ہے، جو 13 ممالک کا پڑوسی ہے اور آبنائے ہرمز جیسے اہم درہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ آبنائے ہرمز جس سے دنیا کی تیل کی سپلائی کا تقریباً 20% گزرتا ہے۔

تہران نے اس اہم آبی گزرگاہ کو محفوظ بنانے کے لیے بحری، میزائل اور فضائی دفاعی نظام کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک تیار کر رکھا ہے۔ بیرون ملک مخالف گروپوں کے دعوؤں کے باوجود، ایرانی آبادی بیرونی خطرات کا سامنا کرنے اور اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے مسلسل متحد رہی ہے۔ یہ اجتماعی ہم آہنگی، فخر اور لچک کے مشترکہ احساس کے ساتھ ایران کے خلاف جارحیت کو روکنے اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو مستحکم کرتی ہے۔ انقلاب مخالف گروہ، قوم اور ریاست کے درمیان تقسیم پر زور دیتے ہیں۔ وہ حقیقت میں کشیدگی بڑھانے کے لیے اکثر جھوٹے بیانیے پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ان خرافات  سے پرہیزاور ایران میں حکومت کی تبدیلی جیسی خواہش کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیئے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو بلاشبہ حقیقت پسندی، احتیاط اور پرامن حل کے لیے حقیقی عزم پر مبنی پالیسی کو اپنانا چاہیئے، وگرنہ نتیجہ اس کے مکمل برعکس سامنے آئے گا، جو ٹرمپ کو دکھایا جاتا ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کے خلاف ایران میں کے طور پر کہ ایران ایران کی کے ساتھ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ

ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔

ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔

یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔

اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔

ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔

ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔

ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔

حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔

ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔

آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔

لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا چین کے ساتھ محصولات کے معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، ٹرمپ
  • ٹرمپ کی سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کی پیشکش کا امکان
  • امریکا سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر کا اسلحہ دینے کو تیار
  • کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
  • ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
  • بھارتی قیادت ہوش کے ناخن لے: خواجہ سعد رفیق
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان