جب تک حماس موجود ہے اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں، صیہونی رجیم
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے نے حماس کے خاتمے سے متعلق غاصب صیہونی رجیم اور امریکہ کی دلی خواہش کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا ہے اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ میں غاصب صیہونی رجیم کے نمائندے ڈینی ڈینون نے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے خاتمے سے متعلق اپنی دلی خواہش کا ایک مرتبہ پھر اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جب تک حماس موجود ہے، اسرائیل کا مستقبل خطرے سے خالی نہ ہو گا۔ امریکی میڈیا کے ساتھ گفتگو میں ڈینی ڈینون کا کہنا تھا کہ حماس کے ساتھ غاصب صیہونی رجیم کے مذاکرات دوحہ میں ایک مرتبہ پھر شروع ہونے جا رہے ہیں تاہم اسرائیلی رجیم کے اہداف مکمل طور واضح ہیں۔ فاکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک حماس طاقت میں ہے جعلی اسرائیلی رجیم کے عوام کا کوئی مستقبل نہیں۔ اس حوالے اپنی گفتگو کے اخر میں غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کے اپنے ارادے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈینی ڈینون نے مزید کہا کہ ہمیں کچھ ہفتے مزید انتظار کرنا ہو گا کہ دیکھیں کہ کیا ہم جنگ کی طرف دوبارہ پلٹتے ہیں یا مذاکرات کی جانب قدم بڑھائیں گے!
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی رجیم رجیم کے
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔