ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT
یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔
آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔
یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔
انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔
یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔
گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔
بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔
امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔
ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔
مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔
گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔
یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔
اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔
آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تلاش مغربی ممالک اور مغربی انھوں نے ہیں اور میں بھی سخت گیر کے لیے
پڑھیں:
لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔
اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔
اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔