صحافی کا اصل کام حقائق کی تلاش، تحقیق اور ان کی غیرجانبدارانہ اور درست رپورٹنگ کرنا ہے تاکہ عوام کو باخبر رکھا جا سکے۔ صحافت جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے، اور صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سچائی کو سامنے لائے اور عوامی مفادات کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے۔ تازہ ترین، معتبر اور تصدیق شدہ معلومات عوام تک پہنچائے، اہم مسائل پر تحقیقاتی رپورٹس تیار کرے اور حقائق کا تجزیہ کرے، معاشرتی مسائل پر عوامی شعور بیدار کرے اور رائے عامہ کو بہتر انداز میں تشکیل دے، حکومتی اور طاقتور اداروں کی نگرانی کرے اور ان کی پالیسیوں اور اقدامات کا جائزہ لے اور اگر کوئی غلط رویہ یا پالیسی ہو تو اس کی نشاندہی کرے نہ کہ حکومت کا ٹائوٹ بنے اور عوامی مفاد کی ترجمانی کے بجائے ان کی آواز بنے جو طاقتور ہیں یا مالدار ہیں،صحافی کو بغیر کسی ذاتی، سیاسی یا معاشی دبا ئوکے بغیر حقائق کی رپورٹنگ کرنا ہوتی ہے جس کا مقصدکمزور اور مظلوم طبقے کی آواز کو اجاگر کرنا ہو ۔
صحافی اگر دلیر نہ ہو حق اور سچ کی بات نہ کرسکتا ہو مسلسل پڑھنے لکھنے اور سننے سے عاری ہو تو اسے صحافت کے پیشے کو چھوڑ دینا چاہئے،کسی بھی صحافی یا رپورٹر کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی کمیونٹی کی تقریب میں جانے سے پہلے انتظامیہ سے پوچھ لے کہ وہ اس تقریب کی کوریج چاہتے ہیں یا نہیں تقریب یا پریس کانفرنس میں جانے سے پہلے اپنے ادارے کے نوٹس میں لایا جائے کہ وہ اس کی کوریج کے لئے جا رہا ہے یا جا رہی ہے تقریب یا پریس کانفرنس میں اگر سوال کرنے کا موقع ملے تو سب سے پہلے اپنا اور ادارے کا نام بتائیں گرچہ وہاں سب لوگ آپ کو جانتے ہی کیوں نہ ہوں سوالات مختصر اور عام فہم ہوں اگر سوال کرنے کا تجربہ نہ ہو تو سوال لکھ لیا جائے انٹرنیشنل میڈیا کے بڑے بڑے صحافی اور رپورٹر بھی ایسے ہی کرتے ہیں کسی بھی صحافی کے لئے ضروری ہے کہ وہ سوال ضرور کرے سوال کا تعلق عوام کے مسائل ملک و قوم کے مفاد میں ہونا چاہئے کراس سوالات سے گریز کرنا چاہیئے اس سے بدمزگی پیدا ہوتی ہے سوال کرنے کے بعد پورے جواب کا انتظار کرنا چاہیئے کسی بھی صحافی کو اس احساس برتری یا کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ جس ادارے کے لئے کام کررہا ہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا آپ اپنا کام پیشہ ورانہ طریقے سے کریں کام کے وقت کام اور گپ شپ کے وقت گپ شپ کریں کسی کی تقریب میں جاکر آگے والی کرسی کا مطالبہ کرنا درست عمل نہیں جہاں جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جانا چاہئے اور ہلڑ بازی نہیں کرنی چاہیے اگر آپ اپنا کام اچھے طریقے سے کریں گے تو آپ خود ہی نمایاں ہوتے جائیں گے اور بعض لوگ خود ہی آپ کی عزت کریں گے کام کے دوران کسی ساتھی سے نوک چونک ہوجائے تو اسے کام کا حصہ سمجھنا چاہیے رپورٹ بناتے وقت دیانت داری سے رپورٹ تیار کرنی چاہیے بھلے وہ کسی ایسے لیڈر یا شخص کی رپورٹ ہو جس کو زاتی طور پر آپ ناپسند کرتے ہوں کمیونٹی میں تقسیم، فساد، انتشار، ملک اور قوم کے خلاف رپورٹس سے اجتناب کرنا چاہئے جھوٹ پر مبنی رپورٹ کا تعلق نہ صرف آپ کے لئے رسوائی ہے بلکہ آپ کے پیشے سے بھی بددیانتی ہے جھوٹ بولنے اور پھیلانے کا آپ کو ایک دن جواب دینا ہوگا رپورٹس حقائق پر مبنی ہوں ہاں البتہ کالم میں آپ کی اپنی رائے اور تجزیہ شامل ہوتا ہے اس میں آپ جو مرضی شامل کریں اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی آپ جو چاہئیں لکھ سکتے ہیں لیکن اب سوشل میڈیا ہی میڈیا ہے لہٰذا جو بھی لکھیں یا شیئر کریں وہ بھی اپ کی کریڈیبلٹی کے لئے ریکارڈ اور شخصیت کا حصہ ہے۔ کمیونٹی کے افراد میں سے اجتماعی یا انفرادی طور پر کسی ایک صحافی ساتھی سے کوئی زیادتی کرے بدسلوکی سے پیش آئے تو دیگر صحافیوں کو آپس میں اختلاف بھی ہوں بول چال بھی نہ ہو تو اس کا ساتھ دینا چاہئے جب تک معاملات طے نہ پا جائیں۔
ہم کمیونٹی سے ہیں ہمارا مرنا جینا اسی کمیونٹی اور اپنے لوگوں میں ہے دلوں میں نرمی پیدا کرنی چاہیے رکھ رکھائو اور معاملات افہام وتفہیم سے طے کرنے چاہیے کیمونٹی کے افراد جب آپ سے کسی دوسرے صحافی دوست کی برائی پیش کررہے ہوتے ہیں تو خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوا کریں دوسرے فنکشن میں وہ آپ کے خلاف بات کررہے ہوںگے میں خود ہر روز ابھی تک سیکھ رہا ہوں آج کل کے جھوٹ فراڈ، بے ایمانی اور افراتفری کے دور میں صحافت لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے لمحہ لمحہ کی بریکنگ نیوز لوگوں کوذہنی مریض بنا رہی ہے کبھی کالے منجن کو سفید اور کبھی سفید منجن کو کالا پیش کیا جارہا ہے افسوس تو یہ ہے کہ ملک وقوم کے مفادات کو بھی ذاتی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے کسی مثبت خبر کی بریکنگ نیوز نہیں ہوتی مثال کے طور پر خبر یہ نہیں ہے کہ کتا انسان کو کاٹ گیا خبر یہ ہے کہ انسان نے کتے کو کاٹ لیا آپ کا تعلق ریاست کے چوتھے ستون میڈیا سے ہے ہمارا میڈیا ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے آپ بھی اس کا حصہ ہیں میڈیا ہائوسزز کے مالکان کی اکثریت تجارتی اور کاروباری ہے ان کا تعلق صحافت سے نہیں ہے صحافی کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس بات کا ضرور پتہ لگانا چاہئے کہ وہ کس کے لئے کام کررہا ہے۔ آج کل پیکا آرڈیننس کے پاکستان میں قانون پاس ہونے کے بعد فیک نیوز کی آڑ میں حکومت اور مقتدرہ صحافیوں کی آزادی کو سلب کرنے کے درپے ہے صد حیف ،حکومت جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت نہ کرنے پر صحافیوں کو مجبور کررہی ہے یہ دور پہلی بار نہیں آیا ہر دور میں اقتدار کے مزے لینے والی حکومت اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر ایسا ہی کرتی ہے اور جب دھکا لگتا ہے تو پھر صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے منافقت کی حد ہوتی ہے لیکن یہ دور بھی گزر جائے گا یکجہتی اور استقامت ضروری ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: صحافی کو ہوتی ہے کسی بھی کا تعلق کے لئے
پڑھیں:
چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
10 دن سے دہشتگردی کی کارروائیوں اور اس کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے بڑھ چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہورہے ہیں۔ 3 دہشتگردوں کو مارتے ہوئے ایک سیکیورٹی اہلکار اپنی جان دے رہا ہے۔ اس سے آپ کارروائیوں کی نوعیت اور شدت کا اندازہ لگا لیں۔
پاکستان دنیا کی 5ویں بڑی آبادی ہے۔ گلوبل فائر پاور نامی ویب سائٹ کے مطابق فوجی طاقت کے حساب سے ہمارا رینک 12واں بنتا ہے۔ فوجیوں کی تعداد کے حساب سے ہمارا 7واں نمبر ہے۔ ایئر فورس چھٹے نمبر پر آتی ہے۔ ٹینکوں کے حساب سے 7ویں، ہیلی کاپٹر اور آرٹلری کے حساب سے ہم 10ویں نمبر پر ہیں۔
ہماری معیشت کا سائز 2.08 کھرب ہے اور ہم 40ویں بڑی معیشت ہیں۔ قوت خرید کے حساب سے ہم 26ویں نمبر پر آتے ہیں۔ قوت خرید میں سنگاپور، سویٹزرلینڈ ، اسرائیل اور ڈنمارک جیسے ملک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ کریٹکل منرل کے ذخائر میں پاکستان کی رینکنگ ابھی طے نہیں کی جاسکی ہے۔ کریٹکل منرل کی مارکیٹ اور سپلائی پر چین کی اجارہ داری ہے۔
امریکا کریٹکل منرل انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اے آئی کو اپنے سیکیورٹی ڈومین میں لاتا جارہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان کا پوٹینشل اسے امریکا کا قریبی اتحادی بنا رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت 4 روزہ جنگ میں پاکستان نے دنیا کا وہم دور کردیا ہے کہ یہ کوئی فیل ہوتی ریاست ہے۔ یہ اب ثابت ہوچکا کہ پاکستان کو فوجی حساب سے کوئی شکست دینا ممکن نہیں۔
اس نو دریافت اعتماد نے پاکستان کی عالمی لینڈ اسکیپ پر سفارتی، سیاسی اور علاقائی پوزیشن بالکل تبدیل کردی ہے۔ اب معیشت بہتر کرنا واحد فوکس رہ جاتا ہے۔ معاشی بہتری کے لیے امن و امان کی صورتحال، سیاسی عدم استحکام، دہشتگردی اور افغانستان کے ساتھ مسائل بڑی رکاوٹ ہیں۔ اب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس تناسب پر غور کریں جس کے مطابق ہر 3 دہشتگردوں کے مقابل ایک سیکیورٹی اہلکار اپنی جان دے رہا ہے۔ پھر یہ دھیان میں لائیں کہ یہ نقصان جس فوج کو اٹھانا پڑ رہا اس کی طاقت اور رینکنگ کیا ہے۔
یہیں رک کر کپتان کے جیل سے دیے گئے حالیہ بیان پر غور کریں، جس میں اس نے اپنی پارٹی سے کہا ہے کہ ملک میں 71 جیسی صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ پارٹی کے منتخب ممبران دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی مخالفت کریں۔ پاکستان اور افغانستان کے اندر ڈرون حملوں کی مخالفت کریں اور اس آپریشن کو رکوائیں۔ پھر ان معززین کی بات پر ایمان لے آئیں جو بتاتے رہتے ہیں کہ کپتان جیل میں بیٹھا بڑی گیم لگا رہا ہے۔ یہ بڑی گیم بھائی اپنے ہی خلاف لگا کر بیٹھا ہے۔
آپ دہشتگردی کو مانیٹر کرنے والی کسی بھی سائٹ کو کھولیں۔ اس پر صرف یہ سرچ کریں کہ پاک بھارت جنگ بندی سے پہلے اور بعد میں دہشتگردی کی کارروائیوں اور نوعیت میں کیا فرق آیا ہے؟ دہشتگردی کی کارروائیوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہشتگردوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال 10 گنا بڑھا دیا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے ڈرون اور کواڈ کاپٹر کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کو اب حوالدار بشیر کی آنکھ سے دیکھیں، دوسری آنکھ سے کپتان کا بیان پڑھیں اور توبہ استغفار کرتے ہوئے اس پارٹی کی خیر مانگیں۔
بیجنگ میں 17 سے 19 جنوری تک شیانگ شانگ سیکیورٹی فورم کا اجلاس ہورہا ہے۔ اس میں روس، امریکا اور ایران سمیت 10 ملکوں کے وفود شریک ہورہے ہیں۔ اس بار اجلاس کی تھیم ہے کہ عالمی آرڈر برقرار رکھتے ہوئے ترقی کا فروغ۔ سیکیورٹی فورم کا ایجنڈا بھی امن اور ترقی ہو جس کے لیے بظاہر متحارب ملک بھی سر جوڑ کر بیٹھیں۔ تو ایسے میں دہشتگردی، عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
افغانستان کی موجودہ حکومت کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ یو این سے لے کر ہر اہم فورم پر افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کی بات ہوتی ہے۔ ان گروپوں سے خطے کے سارے ملک خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ یہ خطرہ حقیقی ہے۔ اس کے خلاف مکمل اتفاق رائے بنتا جارہا ہے۔ افغان طالبان کو لگتا ہے کہ پاکستان ہر عالمی فورم پر ان کی مخالفت کررہا ہے جبکہ افغانستان میں موجود مسلح گروپوں کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان لاکھوں افغانوں کا دوسرا گھر بنا رہا ہے۔ پاکستان میں وہ پاکستانیوں کی طرح کاروبار، روزگار اور جائیدادیں بناتے ترقی کرگئے اور تعلیم حاصل کی۔ اب اسی افغانستان سے پاکستان کے اندر مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں جن میں افغان باشندے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہورہا ہے وہ کم از کم ریاست پاکستان نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان مسلح تنظیموں کو ہر جگہ نشانہ بنائے گا۔
چھوٹی عینک لگا کر مقامی، سیاسی اور معاشی صورتحال دیکھیں یا بڑی عینک لگا کر خطے اور عالمی سیاست، معیشت اور سفارت کو دیکھ لیں۔ پاکستان اپنی نو دریافت طاقت کے مطابق ہی پوزیشن لیتا اور معاملات کو حل کرتا ہی دکھائی دے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔