Daily Ausaf:
2025-11-05@01:34:03 GMT

اَب جج فیصلے نہیں، خط لکھتے ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدلیہ 142 ممالک میں 130 ویں اور خطے کے چھے ممالک میں پانچویں نمبر پر تھی۔ اِس مقامِ بلند پر فائز ہونے کا واحد محر ک عزت مآب جج صاحبان کی اپنی کارکردگی تھی کیوں کہ اُس وقت نہ چھبیسویں ترمیم آئی تھی، نہ’ اُمید سے‘ بیٹھے کسی جج کی ’’حق تلفی‘‘ ہوئی تھی، نہ کوئی آئینی بینچ تشکیل پایا تھا، نہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین جج صاحبان کا تبادلہ ہوا تھا، نہ کوئی نئی انتظامی کمیٹی بنی تھی اور نہ کسی کی سنیارٹی تہ وبالا ہوئی تھی۔ قوی اُمید ہے کہ ’’مکتوب نویسی‘‘ کے تازہ اُبھار کے بعد، وہ کئی درجے اُوپر چلی جائے گی۔
روایتی طورپر جج عظمتِ کردار، آئین وقانون پر مضبوط گرفت اور عمدہ فیصلہ نویسی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے چند نام درخشاں ستاروں کی طرح دمک رہے ہیں۔ اگر صرف شعری وادبی چاشنی کے حامل فیصلوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو جسٹس اے۔آر۔کارنیلئیس، جسٹس حمودالرحمن، جسٹس بدیع الزماں کیکائوس، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس محمد حلیم، جسٹس ایم۔آر۔کیانی اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لکھے ہوئے فیصلے اُن صاحبانِ ذوق کو بھی آسودگی بخشتے ہیں جو آئین وقانون کی موشگافیوں کے بجائے، صرف تحریر کی لطافت کا لطف لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ بالعموم، عدلیہ نے اپنی آئینی ترجیحِ اوّل، عدل کی کارفرمائی کو ’’ریٹائرنگ روم‘‘ میں پھینک دیا اور فیصلے ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہوکر بے توقیر ہوتے چلے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، ایوانِ عدل میں قدم رکھنے سے پہلے اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہے کہ ’’۔۔میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری کام یا اپنے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ اور یہ کہ میں ہر حال میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف ورعایت اور بلارغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔‘‘ لیکن نہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ ’’خوف، رعایت، رغبت اور عناد‘‘ کے چھینٹے کم وبیش ہر عدالتی فیصلے پر نظرآتے ہیں۔ ابھی ابھی تمام ہونے والی دہائی میں عدلیہ کی کوکھ سے، دو دو تین تین سَروں والے ایسے ایسے عجیب الخلقت بچھڑوں نے جنم لیا کہ زمین وآسمان ششدر رہ گئے۔ ستم یہ کہ زبان وبیان اور اسلوبِ تحریر کے حوالے سے بھی فیصلوں کا لب ولہجہ، کوچہ وبازار کی تُوتکار جیسا ہوچلا ہے۔ سو نہ انصاف رہا نہ ذوقِ لطیف کو تسکین بخشنے والی تحریریں۔ خشک سالی کی ماری ہوئی کِشتِ عدل میں اب بے آب ورنگ جھاڑ جھنکار اُگ رہا ہے۔ اس کا کچھ تعلق واسطہ آئینی تشریح وتعبیر سے ہے نہ قانونی نکات کی توضیح وتفسیر سے۔ مفاد اور عناد کی پیلی بیل میں لپٹی ایک مشقِ بے آب ورنگ ہے کہ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔
اُردو زبان کے آغازِ سفر میں خطوط نویسی یا مکتوب نگاری، روایتی اصنافِ ادب کا حصہ نہیں تھی لیکن مرزا غالب اور ابوالکلام آزاد تک آتے آتے اِس کے عارض ورُخسار پر کچھ ایسا نکھار آیا کہ کئی حسینانِ اصنافِ ادب منہ چھپاتی پھریں۔ ’عود ہندی‘ ’اُردوئے معلّیٰ‘ اور ’غُبارِ خاطر،‘ ادب کے عظیم شہ پارے خیال کئے جانے لگے۔ ابھی کچھ دِنوں سے یکایک علمی وادبی اداروں کے بانجھ پن کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری ہماری خوش ذوق عدلیہ کے کچھ علم دوست اور ادب شناس جج صاحبان نے سنبھال لی ہے۔
خط کو کُلّی طورپر شخصی، ذاتی اور انفرادی عمل تصور کیاجاتا ہے جو کسی فردِ واحد کے جذبہ واحساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی خط، ایک سے زیادہ افراد نے تخلیق کیا ہو۔ متعدد شخصیات کی ترجمانی کرنے والی تحریر، معروف معنوں میں ہرگز ’’خط‘‘ نہیں کہلا سکتی۔ اُسے عرضی، درخواست، پٹیشن، فریاد یا کوئی بھی ایسا نام دیا جاسکتا ہے۔ ماضی قریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط نویسی کی طرح ڈالی لیکن یہ اُن کی انفرادی سوچ کی حامل تحریریں تھیں ،اِس لئے خط ہی کے زمرے میں شمار ہوئیں لیکن گذشتہ برس، مارچ 2024ء میں یکایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کا مشترکہ خط اِس دھماکے کے ساتھ سامنے آیا کہ آج تک اُس کی گونج تھمنے میں نہیں آ رہی۔ ’’خط‘‘ کا مرکزی موضوع یہ شکایت تھی کہ ’’ایک طاقت وَر ایجنسی ہمیں چھیڑتی اور ڈراتی ہے۔‘‘ کوئی پوچھے کہ جب آپ نے اللہ کو حاضرناظر جان کر، کسی سے خوف زدہ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے تو یہ شکایت کیسی؟ لیکن ’خط‘ کا یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھا کہ ’’ایک ایجنسی پر لگائے گئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔‘‘ جسٹس صدیقی نے یہ آواز، اپنا سب کچھ دائو پر لگاکر، وکلاء کے ایک بڑے اجتماع میں،ستمبر 2018ء میں اٹھائی تھی جب کوئی ڈیڑھ ماہ بعد اُسے چیف جسٹس بننا تھا۔ 11 اکتوبر2018ء کو صدر عارف علوی کی طرف سے ایجنسی گزیدہ شوکت صدیقی کی معزولی کا فرمان جاری ہوا۔تب کم ازکم چیف جسٹس انور خان کاسی، جسٹس اطہر من اللہ اور مکتوب نویسِ اعلیٰ جسٹس محسن اختر کیانی، اسلام آباد ہائی کوٹ کا حصّہ تھے۔ کسی نے سِسکِی تک نہ لی۔ نہ کوئی ردّعمل، نہ رسمی بیان، نہ احتجاج، نہ کوئی ریمارکس، نہ مذمت، نہ ایجنسی کے ضمن میں کوئی مطالبہ ، نہ کوئی خط۔ دیکھتے دیکھتے اِن کے سب سے سینئر رفیق کار کو ریاستی غیظ وغضب کے کولہو میں پیس کر، گنے کے پھوگ کی طرح کسی ’کچرا کُنڈی‘ میں پھینک دیا گیا ۔ کوئی اُسے پُرسا تک دینے نہ گیا۔ اُس نے بیٹی کی شادی پر سب کو دعوت دی۔ کوئی ایک بھی شریک نہ ہوا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ فون پر بھی مبارک نہ دی۔ چمن کا کاروبار پہلے سے کہیں زیادہ خوش خرامی سے چلتا رہا۔
ٹھیک ایک ماہ سترہ دِن بعد عزت مآب جسٹس اطہرمن اللہ نے بطور چیف جسٹس حلف اٹھالیا۔ 2021ء اور 2022ء میں، پی۔ٹی۔آئی کے عہدِ انصاف پرور میں، باقی پانچ مکتوب نگار جج، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حصہ بنے۔ اِن سب کو جسٹس شوکت عزیز کی دُہائی اور ایجنسی کے بارے میں تحقیقات کا خیال اُس وقت آیا جب جسٹس صدیقی کو عہدِ ستم گر کا لُقمۂِ تَر ہوئے پانچ سال، پانچ ماہ ، پندرہ دِن گذر چکے تھے۔
26 مارچ2024ء کو چھے جج صاحبان کے شہرۂِ آفاق خط کے بعد سے، مکتوباتِ عدل کا سلسلہ ساون بھادوں کی برکھا کی طرح جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زوروں کا مقابلہ چل رہا ہے۔ شاہراہِ دستور پر رنگارنگ کبوتر، سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لئے، لوٹنیاں کھاتے، اِدھر سے اُدھر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ گئے دنوں میں جج صاحبان، چائے کی میز پر مل بیٹھتے تو کسی مقدمے کے اسرارورموز پر بات ہوتی، آئین وقانون کی گتھیاں سلجھائی جاتیں، زیربحث مسئلے پر ماضی کے نظائر دیکھے جاتے، فیصلوں کی نوک پلک سنواری جاتی، لیکن اَب یہ وقت زیادہ تعمیری، مثبت اور ادب افروز مشق کے لئے مخصوص ہوچکا ہے۔ اَب عالی مقام جج صاحبان کے مل بیٹھنے کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ اَگلا خط کس کے نام لکھنا ہے؟ نفس مضمون کیا ہوگا؟ بیٹی کو کوسنے دیتے ہوئے دراصل روئے سخن کس بہو کی طرف رکھنا ہے؟ بنیادی اُمور طے ہوجانے کے بعد خط لکھنے کی ذمہ داری انگریزی پر دستر س رکھنے والے انشا پرداز کے سپرد کر دی جاتی ہے۔
جج صاحبان کے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے عین مطابق، عدل کی کارفرمائی کا مقدس مشن جاری ہے۔ کچھ عرصہ بعد مرتب ہونے والی ’پی۔ایل۔ڈی‘ (PLD ) فیصلوں نہیں، خطوط پر مشتمل ہوگی۔ کوئی ادب شناس وکیل اِن خطوط کو ’’غُبارِ خاطر‘‘ کے انداز میں ’’گردوغبارِعدل‘‘ کے نام سے مرتب بھی کرسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ نہ کوئی نے والی کوئی ا کی طرح

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • بانی پی ٹی آئی کا متبادل کوئی نہیں، بات ختم، عمران اسماعیل
  • فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان
  • کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پراپرٹی ٹیکسوں کے نفاذ اور بلدیاتی انتخابات سےمتعلق تحریری حکمنامہ جاری