Daily Ausaf:
2025-08-01@16:56:06 GMT

اَب جج فیصلے نہیں، خط لکھتے ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدلیہ 142 ممالک میں 130 ویں اور خطے کے چھے ممالک میں پانچویں نمبر پر تھی۔ اِس مقامِ بلند پر فائز ہونے کا واحد محر ک عزت مآب جج صاحبان کی اپنی کارکردگی تھی کیوں کہ اُس وقت نہ چھبیسویں ترمیم آئی تھی، نہ’ اُمید سے‘ بیٹھے کسی جج کی ’’حق تلفی‘‘ ہوئی تھی، نہ کوئی آئینی بینچ تشکیل پایا تھا، نہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین جج صاحبان کا تبادلہ ہوا تھا، نہ کوئی نئی انتظامی کمیٹی بنی تھی اور نہ کسی کی سنیارٹی تہ وبالا ہوئی تھی۔ قوی اُمید ہے کہ ’’مکتوب نویسی‘‘ کے تازہ اُبھار کے بعد، وہ کئی درجے اُوپر چلی جائے گی۔
روایتی طورپر جج عظمتِ کردار، آئین وقانون پر مضبوط گرفت اور عمدہ فیصلہ نویسی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے چند نام درخشاں ستاروں کی طرح دمک رہے ہیں۔ اگر صرف شعری وادبی چاشنی کے حامل فیصلوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو جسٹس اے۔آر۔کارنیلئیس، جسٹس حمودالرحمن، جسٹس بدیع الزماں کیکائوس، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس محمد حلیم، جسٹس ایم۔آر۔کیانی اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لکھے ہوئے فیصلے اُن صاحبانِ ذوق کو بھی آسودگی بخشتے ہیں جو آئین وقانون کی موشگافیوں کے بجائے، صرف تحریر کی لطافت کا لطف لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ بالعموم، عدلیہ نے اپنی آئینی ترجیحِ اوّل، عدل کی کارفرمائی کو ’’ریٹائرنگ روم‘‘ میں پھینک دیا اور فیصلے ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہوکر بے توقیر ہوتے چلے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، ایوانِ عدل میں قدم رکھنے سے پہلے اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہے کہ ’’۔۔میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری کام یا اپنے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ اور یہ کہ میں ہر حال میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف ورعایت اور بلارغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔‘‘ لیکن نہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ ’’خوف، رعایت، رغبت اور عناد‘‘ کے چھینٹے کم وبیش ہر عدالتی فیصلے پر نظرآتے ہیں۔ ابھی ابھی تمام ہونے والی دہائی میں عدلیہ کی کوکھ سے، دو دو تین تین سَروں والے ایسے ایسے عجیب الخلقت بچھڑوں نے جنم لیا کہ زمین وآسمان ششدر رہ گئے۔ ستم یہ کہ زبان وبیان اور اسلوبِ تحریر کے حوالے سے بھی فیصلوں کا لب ولہجہ، کوچہ وبازار کی تُوتکار جیسا ہوچلا ہے۔ سو نہ انصاف رہا نہ ذوقِ لطیف کو تسکین بخشنے والی تحریریں۔ خشک سالی کی ماری ہوئی کِشتِ عدل میں اب بے آب ورنگ جھاڑ جھنکار اُگ رہا ہے۔ اس کا کچھ تعلق واسطہ آئینی تشریح وتعبیر سے ہے نہ قانونی نکات کی توضیح وتفسیر سے۔ مفاد اور عناد کی پیلی بیل میں لپٹی ایک مشقِ بے آب ورنگ ہے کہ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔
اُردو زبان کے آغازِ سفر میں خطوط نویسی یا مکتوب نگاری، روایتی اصنافِ ادب کا حصہ نہیں تھی لیکن مرزا غالب اور ابوالکلام آزاد تک آتے آتے اِس کے عارض ورُخسار پر کچھ ایسا نکھار آیا کہ کئی حسینانِ اصنافِ ادب منہ چھپاتی پھریں۔ ’عود ہندی‘ ’اُردوئے معلّیٰ‘ اور ’غُبارِ خاطر،‘ ادب کے عظیم شہ پارے خیال کئے جانے لگے۔ ابھی کچھ دِنوں سے یکایک علمی وادبی اداروں کے بانجھ پن کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری ہماری خوش ذوق عدلیہ کے کچھ علم دوست اور ادب شناس جج صاحبان نے سنبھال لی ہے۔
خط کو کُلّی طورپر شخصی، ذاتی اور انفرادی عمل تصور کیاجاتا ہے جو کسی فردِ واحد کے جذبہ واحساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی خط، ایک سے زیادہ افراد نے تخلیق کیا ہو۔ متعدد شخصیات کی ترجمانی کرنے والی تحریر، معروف معنوں میں ہرگز ’’خط‘‘ نہیں کہلا سکتی۔ اُسے عرضی، درخواست، پٹیشن، فریاد یا کوئی بھی ایسا نام دیا جاسکتا ہے۔ ماضی قریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط نویسی کی طرح ڈالی لیکن یہ اُن کی انفرادی سوچ کی حامل تحریریں تھیں ،اِس لئے خط ہی کے زمرے میں شمار ہوئیں لیکن گذشتہ برس، مارچ 2024ء میں یکایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کا مشترکہ خط اِس دھماکے کے ساتھ سامنے آیا کہ آج تک اُس کی گونج تھمنے میں نہیں آ رہی۔ ’’خط‘‘ کا مرکزی موضوع یہ شکایت تھی کہ ’’ایک طاقت وَر ایجنسی ہمیں چھیڑتی اور ڈراتی ہے۔‘‘ کوئی پوچھے کہ جب آپ نے اللہ کو حاضرناظر جان کر، کسی سے خوف زدہ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے تو یہ شکایت کیسی؟ لیکن ’خط‘ کا یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھا کہ ’’ایک ایجنسی پر لگائے گئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔‘‘ جسٹس صدیقی نے یہ آواز، اپنا سب کچھ دائو پر لگاکر، وکلاء کے ایک بڑے اجتماع میں،ستمبر 2018ء میں اٹھائی تھی جب کوئی ڈیڑھ ماہ بعد اُسے چیف جسٹس بننا تھا۔ 11 اکتوبر2018ء کو صدر عارف علوی کی طرف سے ایجنسی گزیدہ شوکت صدیقی کی معزولی کا فرمان جاری ہوا۔تب کم ازکم چیف جسٹس انور خان کاسی، جسٹس اطہر من اللہ اور مکتوب نویسِ اعلیٰ جسٹس محسن اختر کیانی، اسلام آباد ہائی کوٹ کا حصّہ تھے۔ کسی نے سِسکِی تک نہ لی۔ نہ کوئی ردّعمل، نہ رسمی بیان، نہ احتجاج، نہ کوئی ریمارکس، نہ مذمت، نہ ایجنسی کے ضمن میں کوئی مطالبہ ، نہ کوئی خط۔ دیکھتے دیکھتے اِن کے سب سے سینئر رفیق کار کو ریاستی غیظ وغضب کے کولہو میں پیس کر، گنے کے پھوگ کی طرح کسی ’کچرا کُنڈی‘ میں پھینک دیا گیا ۔ کوئی اُسے پُرسا تک دینے نہ گیا۔ اُس نے بیٹی کی شادی پر سب کو دعوت دی۔ کوئی ایک بھی شریک نہ ہوا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ فون پر بھی مبارک نہ دی۔ چمن کا کاروبار پہلے سے کہیں زیادہ خوش خرامی سے چلتا رہا۔
ٹھیک ایک ماہ سترہ دِن بعد عزت مآب جسٹس اطہرمن اللہ نے بطور چیف جسٹس حلف اٹھالیا۔ 2021ء اور 2022ء میں، پی۔ٹی۔آئی کے عہدِ انصاف پرور میں، باقی پانچ مکتوب نگار جج، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حصہ بنے۔ اِن سب کو جسٹس شوکت عزیز کی دُہائی اور ایجنسی کے بارے میں تحقیقات کا خیال اُس وقت آیا جب جسٹس صدیقی کو عہدِ ستم گر کا لُقمۂِ تَر ہوئے پانچ سال، پانچ ماہ ، پندرہ دِن گذر چکے تھے۔
26 مارچ2024ء کو چھے جج صاحبان کے شہرۂِ آفاق خط کے بعد سے، مکتوباتِ عدل کا سلسلہ ساون بھادوں کی برکھا کی طرح جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زوروں کا مقابلہ چل رہا ہے۔ شاہراہِ دستور پر رنگارنگ کبوتر، سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لئے، لوٹنیاں کھاتے، اِدھر سے اُدھر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ گئے دنوں میں جج صاحبان، چائے کی میز پر مل بیٹھتے تو کسی مقدمے کے اسرارورموز پر بات ہوتی، آئین وقانون کی گتھیاں سلجھائی جاتیں، زیربحث مسئلے پر ماضی کے نظائر دیکھے جاتے، فیصلوں کی نوک پلک سنواری جاتی، لیکن اَب یہ وقت زیادہ تعمیری، مثبت اور ادب افروز مشق کے لئے مخصوص ہوچکا ہے۔ اَب عالی مقام جج صاحبان کے مل بیٹھنے کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ اَگلا خط کس کے نام لکھنا ہے؟ نفس مضمون کیا ہوگا؟ بیٹی کو کوسنے دیتے ہوئے دراصل روئے سخن کس بہو کی طرف رکھنا ہے؟ بنیادی اُمور طے ہوجانے کے بعد خط لکھنے کی ذمہ داری انگریزی پر دستر س رکھنے والے انشا پرداز کے سپرد کر دی جاتی ہے۔
جج صاحبان کے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے عین مطابق، عدل کی کارفرمائی کا مقدس مشن جاری ہے۔ کچھ عرصہ بعد مرتب ہونے والی ’پی۔ایل۔ڈی‘ (PLD ) فیصلوں نہیں، خطوط پر مشتمل ہوگی۔ کوئی ادب شناس وکیل اِن خطوط کو ’’غُبارِ خاطر‘‘ کے انداز میں ’’گردوغبارِعدل‘‘ کے نام سے مرتب بھی کرسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ نہ کوئی نے والی کوئی ا کی طرح

پڑھیں:

بٹگرام: گدھے کا گوشت فروخت کرنیوالے 2 افراد گرفتار

—فائل فوٹوز

بٹگرام کے علاقے کوزہ بانڈہ میں محکمۂ خوراک نے کارروائی کرتے ہوئے گدھے کو ذبح کرکے گوشت فروخت کرنے والے 2 افراد کو گرفتار کر لیا۔

بٹگرام پولیس کے مطابق برآمد کیے گئے گوشت کے نمونے تجزیے کے لیے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں۔

اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کا چھاپہ، 25 من گدھے کا گوشت برآمد

اسلام آباد فوڈ اتھارٹی نے چھاپہ مار کر 25 من گدھے کا گوشت برآمد کر لیا۔

ملزمان کا مؤقف ہے کہ گدھے کا گوشت غیر ملکیوں کے کیمپ بھجوایا جانا تھا۔

ڈی ایف سی شاد محمد خان کے مطابق ملزمان کے پاس کوئی اجازت نامہ نہیں ملا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی طور پر گدھے کا گوشت فروخت کرنے کا ابھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی کوئی ویزا درخواست زیر غور نہیں ،وزارت داخلہ
  • ہم 9 مئی کی مذمت کرتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، چیئر مین پی ٹی آئی
  • عمر ایوب کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے فون آیا تھا، بیرسٹر گوہر علی خان
  • سانحہ 9 مئی میں ملوث افراد کو سزائیں ‘ عدالتی فیصلہ خوش آئند : عظمیٰ بخاری
  • جج صاحب 25 کروڑ عوام پر جو دہشت گردی کر کے قبضہ کیا گیا، انہیں کیا سزا دیں گے؟
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، چینی برآمد و درآمد پر غلط تاثر پیدا کیا جاتا ہے: رانا تنویر
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9مئی کے مقدمات میں سزائیں،سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب کا اہم بیان
  • چینی کی قیمت عام آدمی کی دسترس میں ہے اور اسکے بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا، رانا تنویر
  • پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت
  • بٹگرام: گدھے کا گوشت فروخت کرنیوالے 2 افراد گرفتار