ٹرمپ کے غزہ قبضے کی دھمکی سے مشرق وسطی میں جنگ کا میدان گرم ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
کراچی (رپوررٹ: قاضی جاوید) ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کی دھمکی سے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا میدان گرم ہو گا‘ بیان طویل امریکی منصوبے کا حصہ ہے،جلدبازی میں نہیں دیاگیا‘ دو ریاستی حل کا راستہ بند ہوگیا‘امریکی پول میں47فیصدعوام نے بیان کو مسترد کیا،صرف13فیصد نے حمایت کی‘ٹرمپ نے شاہ عبداللہ سوئم، مصری صدر واشنگٹن بلالیا‘ سعودیہ، پاکستان، ایران اور یواے ای کا کر دار اہم ہوگا۔ان خیالات کا اظہار سینیٹر مشاہد حسین سید، صحافی جیسمین منظور اورصحافی حامد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ٹرمپ کی غزہ پر قبضے کی دھمکی سے خطے پر کیا اثرات ہو ں گے؟‘‘سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ٹرمپ کی دھمکی آمیز بیان سے مشرقِ وسطیٰ میں نہیں بلکہ پورے ایشیا میں جنگ کا میدان گرام ہو گا‘ اس سلسلے یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ امریکی میڈیا کے پول کے مطابق 47 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو برا قرار دے دیا ہے‘ پول میں13فیصد نے ٹرمپ کے بیان کی حمایت کی ہے‘ اس پتا چلاتا ہے کہ خود امریکی بھی ٹرمپ کے بیان کو یکسر مسترد کر تے ہیں‘ اس سلسلے میں حماس نے دو ٹوک الفاظ میں بیان
جاری کرکے غزہ پر امریکی قبضے کو مسترد کردیا ہے اور عرب ممالک بھی ٹرمپ کے اس اعلان کو کسی طور تسلم کر نے کو تیار نہیں ہیں‘ پاکستان کے وزیر اعظم بھی امارات پہنچ گئے اور امید ہے کہ پاکستان، امارات سعودی عرب ،مصر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کو شش کر رہے ہیں۔ جیسمین منظور نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان سے مشرقِ وسطیٰ میں حالات خراب اور دو ریاستی حل کا راستہ مکمل طور سے بند نظر آتا ہے‘ ٹرمپ کے بیان سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیںکیا جاسکتا کہ یہ بیان انہوں نے جلد بازی میں تیا ر کیا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے‘ ان کا یہ ایک طویل منصوبے کا حصہ ہے ‘ اسرائیل نواز امریکی پالیسی تسلسل سے جاری ہے‘ شام پر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے‘ روس کو قابو کرنے اور شام کی جنگ سے دور رکھنے کے امریکا کی حکومت نے لانگ رینج میزائل کا استعمال کیا تھا‘ یہ بات درست ہے کہ بشار الاسد اسرائیل کو نہیں روک رہے تھے لیکن ایران کے میزائل کا اسرائیل تک پہنچنے کا ایک راستہ ضرور تھے جو اب ختم ہو گیا ہے‘ امریکا چاہے گا تو موجودہ جنگ بندی کا فیز2 شروع ہوگا۔ صحافی حامد میر نے کہا کہ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان نے پورے خطے میں جنگ کی آگ پر تیل ڈال دیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے عالم عرب کہاں کھڑا ہے؟ اور وہ کرے گا‘ ٹرمپ نے اردن کے بادشاہ عبداللہ سوائم اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو امریکا بلایا ہے لیکن اس پوری صورتحال میں سعودی عرب، پاکستان، ایران اور متحدہ عربامارات کا کر دار اہمیت کا حامل ہوگا‘ حماس کو471 دن میں پیچھے ڈھکیلنا مشکل ہو گیا ہے تو آئندہ بھی حماس کی موجودگی میں غزہ پر قبضہ نا ممکن ہو گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹرمپ کے کی دھمکی کے غزہ
پڑھیں:
ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
واشنگٹن:امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان
ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔