Jasarat News:
2025-04-25@03:26:36 GMT

غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ

غزہ کی جنگ کے آغاز سے چند ہی دن پہلے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا فلسطین پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ محمود عباس کے اس بیان کے چند ہی دن بعد حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا۔ جب محمود عباس یہ بات کر رہے تھے تو اس وقت یہ بات پوری طرح کھل نہ سکی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے امریکا کے پوشیدہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی منصوبوں کو عیاں کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو تک اس کے باشندوں کو اُردن اور مصرسمیت کئی دوسرے ممالک میں آباد کرنا چاہیے جہاں وہ زیادہ آرام سے پرسکون زندگی گزار سکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے عرب ملکوں پر دبائو بڑھانے کا ایک سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ اُردن کے فرماں رواں شاہ عبداللہ وائٹ ہائوس طلب کر لیے گئے ہیں۔ مصر کے حکمران عبدالفتح السیسی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیل کے ٹی وی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے وہ بھی فلسطینیوں کا اپنے ہاں آباد کر سکتا ہے۔ جس کے جواب میں سعودی عرب کی بااثر شوریٰ کونسل کے رکن یوسف بن طراد السعدون نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو چاہیے وہ اسرائیلیوں کو الاسکا میں آباد کریں۔ اور پھر گرین لینڈ پر قبضہ کرکے انہیں وہاں منتقل کریں۔ انہوں نے ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا امریکا کی خارجہ پالیسی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور نسل کشی کو جائز ٹھیرا رہی ہے لیکن یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ غزہ کو خالی کرانے کا منصوبہ صہیونیوں نے بنایا ہے اور منظور کیا ہے جس کے بعد اسے وائٹ ہائوس کے حوالے کیا گیا ہے۔ سعودی شوریٰ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی نامزدگی بادشاہ کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے ریمارکس اس وقت سامنے آئے تھے جب سعودی عرب کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات اس وقت بحال ہوں گے جب فلسطینی ریاست کے لیے واضح راستہ اپنایا جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کی وزرات خارجہ کی طرف سے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور امن دشمنی قرار دیا گیا ہے۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے نیتن یاہو کے ریمارکس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی ریاست فلسطین کی سرزمین پر بنے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد مشرق وسطیٰ میں عارضی جنگ بندی سے پیدا ہونے والی دائمی امن کی موہوم امید ایک بار پھر ٹوٹنے لگی ہے۔ حماس نے اسرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد قیدیوں کی رہائی روک دی ہے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو کھلی دھمکیاں دینے کا انداز اپنالیا ہے۔ ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور مستقبل کے غزہ میں حماس کاکوئی کردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ حماس نے اس الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادی بادشاہوں اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا پہلا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور سلامتی رہا ہے۔

امریکا نے عرب دنیا کو ہمیشہ اسرائیل کی عینک سے دیکھا۔ یہ ایک ایسا فریضہ تھا جو ڈوبتی ہوئی عالمی طاقت برطانیہ نے امریکا کو سونپا تھا اور امریکا نے برطانیہ کے جانشین کے طور پر یہ ذمے داری پوری دیانت داری سے ادا کی۔ عرب دنیا میں جمہوریت کا راستہ روکنا، آمریتوں کو مضبوط کرنا کبھی کسی تھکے ہارے حکمران کا تختہ اُلٹنا اور تازہ دم شخص کو آگے لانا جہاں اسرائیل کی مخالفت کا چراغ جلتا ہوا محسوس ہوا اسے حیلوں بہانوں سے بجھا دینا غرض یہ کہ امریکا نے عرب دنیا کی اتھل پتھل کا ہر قدم اسی زاویے کے تحت اُٹھایا۔ عرب رائے عامہ میں اس پالیسی کا ردعمل بھی ہوتا رہا مگر نائن الیون نے امریکا کو عرب دنیا پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور عرب رائے عامہ کے جذبات کو کچلنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا۔ اب امریکا از خود مشرق وسطیٰ میں آنا چاہتا ہے تو یہ بھی اسرائیل کے گرد قبروں کا ایک حصار بنانے کی پالیسی ہے۔ اسرائیل کی طاقت اور توسیع پسندی کا الائو جلتا رہے اور اس کے گرد کمزور ناتواں اور نحیف عرب ممالک اس الائو سے ہاتھ تاپتے رہیں۔ حماس حزب اللہ اور حوثی سب اس حصار کی ناکامی اور شکست وریخت کا نام تھا اسی لیے امریکا اور اسرائیل نے اس رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں براہ راست آتا ہے تو یہ اس کے لیے افغانستان میں داخلے کی طرح کا فیصلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران، چین اور روس بہرطور اس خطے میں امریکا کی موجودگی نہیں چاہتے۔ تینوں ملکوں کے حکمرانوں کی ایک معنی خیز تصویر ڈیڑھ سال قبل سامنے آئی تھی جس میں مشرق وسطیٰ کے ہی ایک دورے میں تینوں حکمران دوربین سے خلا میں دیکھتے ہوئے نظرآرہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ انہیں کسی کے خلا سے زمین پر اُترنے کا انتظار اور تلاش ہو۔ اس تصویر میں امریکا کے لیے کوئی پیغام ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی عرب دنیا کے بعد کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ

فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.

ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔

اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔

چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔

جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔

صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔

ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔

چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔

اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے وسطی علاقوں میں جنگلاتی آگ بھڑک اٹھی، یروشلم اور تل ابیب ہائی الرٹ
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر غور
  • 26 اپریل کی ہڑتال امریکا، اسرائیل، بھارت کیخلاف ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر سنجیدہ غور
  • امریکا میں ہاؤسنگ اسکیم مع مسجد کا منصوبہ، حکومت نے نفاذ شریعت کے خوف سے مسترد کردیا
  • سیکورٹی مسائل اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر قطری و امریکی وزرائے خارجہ کی گفتگو
  • صیہونی وزیراعظم اور ڈونلڈ ٹرامپ کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو
  • میں نے نتین یاہو کیساتھ ایران سے متعلق بات کی، امریکی صدر
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟