اسرائیل نے مشہور محاورہ ۔مرتے کیا نہ کرتے۔ کے تحت فلسطینی جانبازوں کے ساتھ امن معاہدہ کرتولیا مگر اس کے پیٹ میں دوبارہ وحشیانہ جنگ مسلط کرنے کے لیے مسلسل مروڑ اٹھ رہے ہیں اور اب کی بار نکے کی بجائے اس کا ابا یعنی ٹرمپ زیادہ متحرک دکھائی دے رہا ہے ،ٹرمپ کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات کی لاحق ہے کہ اس کی مبینہ دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کو کوئی بھی ملک اور حکمران سیریس نہیں لے رہا بلکہ الٹا ٹرمپ کی پریشانی اور ہذیانی کو دیکھ کر سب لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ خود اپنے ماضی کو پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھ پا رہا یہی وہ ٹرمپ تھا جس نے بھڑکیں مارتے مارتے بالآخر افغان طالبان کے سامنے امن معاہدے کی صورت میں گھٹنے ٹیک دئیے تھے ۔پھر فلسطین کو جہنم بنانے کی بار بار دھمکیاں دینے کے باوجود اسرائیل کو ذلت آمیز امن معاہدے کی دلدل سے بھی نہیں بچا سکا اور اب یہ چلا ہوا کارتوس 80 سالہ بیکار بڈھا فلسطینیوں کو دوبارہ جنگ چھیڑنے اور فلسطین سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں دینے لگا اس پر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کھسیانی بلی کھمبا نوچے ۔
دنیا بھر کے حکمرانوں نے ٹرمپ کے ان اشتعال انگیز بیانات کو دو ٹوک انداز سے مسترد کر دیا ہے۔ سعودی بادشاہ محمد بن سلمان نے تو جوش خطابت میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہم جنگ لڑنے والے لوگ ہیں اور ہم نے ہی تمہیں جنگ تبوک میں بھی شکست دی تھی ہم آزاد فلسطینی ریاست کے حق سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہوں گے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہوگا ۔سعودیہ کے ایک رکن شوریٰ نے بھی نہلے پر دہلا مارتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ اگر ٹرمپ امن کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو فلسطینیوں کو سعودی عرب میں بسانے کی بجائے اسرائیل کے یہودیوں کو الاسکا میں آباد کر لے ۔ترکی کے طیب اردگان نے بھی حسب روایت جاندار موقف اپنایا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو سعودی عرب میں آباد کرنے کی بجائے غزہ کی آباد کاری کے لیے سو ملین ڈالر کا فوری بندوبست کرے ۔اس کے علاوہ مصر اردن اور پاکستان کی حکومتوں نے بھی ٹرمپ کے حالیہ مضحکہ خیز اور ناقابل عمل بیانات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے لیکن ایسے مواقع پر مذمت کافی نہیں ہوتی۔ بقول شاعر ۔
مرمت والے کاموں میں مذمت کا دخل کیا ہے؟
مریضان مذمت کو یہی کھل کر بتانا ہے
اور تواور اسرائیلی عربوں نے بھی ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کردی اسرائیل میں رہنے والے فلسطینی عرب بھی غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ ہفتے کے روز اسرائیل میں عربوں کی سب سے بڑی آبادی ام الفحم کے ہزاروں عربوں نے ٹرمپ منصوبے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں عرب نمائندوں نے شرکت کی اور بیانات کئے۔ اس مظاہرے کا انتظام سپریم فالو اپ کمیٹی نے کیا تھا۔ خیال رہے کہ اسرائیل کے رہنے والے عربوں کو عرب اڑتالیس یا عرب الخط الاخضر کہا جاتا ہے یہ وہ عرب ہیں جن کے آبائو واجداد نے 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے دوران النکبہ میں نقل مکانی نہیں کی اور ثابت قدم رہ کر مظالم برداشت کرکے اپنی زمین نہیں چھوڑی ۔ اس وقت عرب کی تعداد 2.
-1شمالی غزہ سے بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی میں تاخیر-2فلسطینی عوام پر گولہ باری اور فائرنگ کرکے متعدد افراد کو قتل کرنا-3 پناہ گاہوں کے لئے ضروری سامان(خیمے، پریفابریکیٹڈ گھر) ایندھن، اور ملبے کو ہٹانے والی مشینری کی رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا تاکہ لاشوں کو نکالا جا سکے۔ -4 دوائیوں اور ہسپتالوں اور صحت کے شعبے کی بحالی کے لئے ضروری سامان کی ترسیل میں تاخیر۔ حماس نے قابضین کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی ہے اور انہیں فوری طور پر ثالثوں تک پہنچایا ہے۔ لیکن، صیہونی اب بھی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔قیدیوں کی رہائی میں تاخیر عہد شکن قابضین کے لئے ایک انتباہ ہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کو مکمل طور پر پورا کرنے پر مجبور کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ قیدیوں کی منتقلی کے شیڈول سے پانچ دن پہلے یہ بیان جاری کرکے، حماس کا مقصد ثالثوں کو وقت دینا ہے تاکہ وہ قابضوں پر ان کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے دبائو ڈال سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اگر قابض اسرائیل معاہدے کی شرائط پر عمل کرتا ہے تو تبادلے کے عمل کو شیڈول کے مطابق جاری رکھنے کا دروازہ بھی کھلا رکھا گیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے آخری اور حتمی بات یہ ہے کہ غزہ امریکہ اور اسرائیل کے گلے میں اٹکا ہوا وہ کانٹا بن چکا ہے جسے نہ نگلا جا رہا ہے نہ اگلا جا رہا ہے شدید تکلیف اور بدحواسی کے عالم میں عالمی شیطانی دجالی بچونگڑوں کی جانب سے اوپر نیچے سے نت نئے بیانات داغے جا رہے ہیں مگر یہ سب ڈرامے بازیاں آخر کب تک ؟ صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کی بدحواسی اور بے وقوفی پر یہ شعر بھی مکمل طور پر صادق آتا ہے۔
ہر حاکم وقت سمجھتا ہے محکم ہے مری تدبیر بہت
پھر وقت اسے بتلاتا ہے تھی کند تیری شمشیر بہت
دنیا بھر کی سپر طاقتوں کو حیران پریشان سرگردان اور بے بس کر دینے والے حماس کے فدائی جا نبازوں کو دل کی گہرائی سے 786 توپوں کا سرخ سلام۔ سلام۔ اور سلام ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: معاہدے کی شرائط اسرائیل کے قیدیوں کی رہے ہیں ٹرمپ کے نے بھی کے لئے
پڑھیں:
’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟
آنجہانی پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بعض پالیسیوں کے شدید ناقد رہے ہیں۔ وہ ٹرمپ اس پالیسی کے سخت مخالف تھے جس میں وہ امریکا میں مقیم لوگوں سے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے اور میکسیکو اور امریکا کے درمیان دیوار تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
اس تناظر میں فروری 2016 میں پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی عیسائیت پر سوال اٹھایا تھا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ ان دنوں ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے امریکی صدارتی امیدوار تھے اور زور شور سے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔
دراصل ان دنوں پوپ فرانسس میکسیکو کے دورہ پر تھے، وہاں سے روم واپسی کے دوران پرواز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، پوپ نے کہا کہ ایک شخص جو صرف دیواریں بنانے کے بارے میں سوچتا ہو، چاہے وہ دیواریں جہاں بھی کھڑی کرے، وہ پل بنانے کا نہ سوچتا ہو، وہ عیسائی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ یسوع مسیح کی تعلیمات نہیں ہیں۔
’ وہ شخص عیسائی نہیں ہوسکتا، جو ایسے کام کرے۔‘
پوپ فرانسس کے بیان کا پس منظر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ بیانات تھے جن میں وہ گیارہ ملین لوگوں کو امریکا سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔ ان دنوں ٹرمپ میکسیکو اور امریکا کے درمیان دیوار کھڑی کرنے اعلانات کر رہے تھے۔
تاہم پوپ کے اس بیان کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انھیں اپنے عیسائی ہونے پر فخر ہے۔ ٹرمپ نے پوپ کے بیان کو شرمناک قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں