Jasarat News:
2025-09-19@01:11:21 GMT

بالائی سندھ کے اضلاع اغوا انڈسٹری بن گے ہیں،کاشف شیخ

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

بالائی سندھ کے اضلاع اغوا انڈسٹری بن گے ہیں،کاشف شیخ

شکار پور: امیر جماعت اسلامی سندھ کا شف سعید شیخ ڈسٹرکٹ بار سے خطاب اور پریس کانفرنس کررہے ہیں

شکارپور(نمائندہ جسارت)جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک ترقی اور سندھ میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، حکومت امن قائم اور شہریوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوچکی ہے، شکارپور سمیت بالائی سندھ کے اضلاع اغوا انڈسٹری بن گئے ہیں، کچے کے ڈاکو پکے والوں کی سرپرستی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ 16 فروری کو کندن ہوٹل چوک انڈس
ہائی وے پر ڈاکو راج کی سرکاری سرپرستی کے خلاف عظیم الشان عوامی دھرنا دیا جائے گا۔ وکلا برادری سندھ میں امن کی بحالی اور ڈاکو راج کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شکارپور ڈسٹرکٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ بار کے صدر گدا حسین بلوچ، سابق صدر عبدالقادر ابڑو، جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل امداد اللہ بجارانی، ضلعی امیر عبدالسمیع شمس بھٹی، مفتی عبدالغفور سہندڑو،مولانا صدرالدین مہر، اصغرعلی پھوڑ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے تعلیم، کاروبار سمیت عام زندگی مفلوج ہوچکی ہے جبکہ اقلیتوں سمیت کئی ہزار خاندان خوف سے اپنے آبا و اجداد کی زمینیں اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرگئے ہیں، سندھ حکومت عوام کے دکھوں کا علاج کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے وکلا برادری سے اپیل کی کہ وہ 16 فروری بروز اتوار کو کندن بائے پاس پر منعقدہ عوامی دھرنے میں بھرپور شرکت کریں۔ دریں اثنا صوبائی امیر نے شکارپور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ بھر میں بڑھتی ہوئی بدامنی لاقانونیت اور ڈاکو راج کے خلاف جماعت اسلامی سندھ بھرمیں احتجاجی مظاہروں کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے،سندھ بھر میں امن و امان کی تکلیف دہ صورتحال ہے،اپر سندھ کے اضلاع،جیکب آباد،شکارپور،گھوٹکی،کندھکوٹ میں انتظامیہ کا کوئی رٹ نہیں ہے۔ ان اضلاع میں 72لاکھ کی آبادی ڈاکوئوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، سال 2024کے دوران سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 470افراد لاڑکانہ رینج میں قتل ہوئے۔ کندھکوٹ کے علاقے میں ایک دیوان ڈاکٹر کو لانچر کے بم میں لپیٹ کر بھتے کی پرچی دی گئی ہے۔ دیوان کو کہا گیا کہ اپنے ذاتی مل ہمارے نام کردیں ۔گزشتہ سال 80 سے زاید اہلکاروں کو ڈاکوئوں کے ساتھ تعلقات کے الزام میں ضلع بدر کیاجاتاہے لیکن ان کی نوکری ختم نہیں کی جاتی۔پوری سندھ میں وڈیروں اور جاگیرداروں نے پولیس کو یرغمال بنارکھاہے۔ صحافی جان محمد مہر کے قتل کو 18ماہ گزرچکے ،صحافی نصراللہ گڈانی کے قاتل آزاد کیوں ہیں؟۔ ٹھل کی بیٹی فضیلہ سرکی اور سکھر کی پریا کماری کو اغوا ہوئے کئی سال گزر ے لیکن انتظامیہ انہیں بازیاب نہ کراسکی۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 17سال سے صاحب اقتدار ہیں،لیکن انکی اپنے قیادت کے قاتل اب تک آزاد ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دال پوری کالی ہے۔ ہم عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں، سندھ کے عوام بیدارہوچکے ہیں، سرکاری سرپرستی میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے خلاف عوام باہر نکل ر ہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم 16فروری کو شکارپور کے کندن چورنگی پر تاریخی دھرنادیںگے۔سندھ کے حکمران اور انتظامیہ سن لے اگر دوبارہ جماعت اسلامی کے خلاف انتقامی کارروائی کی کوشش کی گئی تو احتجاج کا دائرہ وسیع کریںگے،کچھ عرصہ قبل ایس ایس پی آفس شکارپور کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنے کے جرم میں جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔ سندھ بھر میں ڈاکو راج کے خلاف امن و امان کی بحالی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے،عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری حکومت وقت پر عاید ہوتی ہے۔ہمارے بچے ہمارے سامنے مررہے ہیں،تعلیم اور کاروبار تباہ ہے ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں،بحالی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے اگلا لائحہ عمل دیں ۔کچے کے ڈاکوئوںکے خلاف جاری آپریشن کی ہم حمایت کرتے ہیں،پولیس باصلاحیت ہے لیکن سیاسی مداخلت سے پولیس کو پاک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی سندھ ڈاکو راج انہوں نے کے خلاف سندھ کے ہے ہیں

پڑھیں:

عوامی کالم کے 24 سال

1990 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحاق نے برطرف کی تو اس کی وجوہات میں 1988میں اقتدار میں آنے والی حکومت پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں ایک الزام سندھ میں لسانی فسادات کا بھی تھا۔ بے نظیر دور میں قائم علی شاہ کے بعد میرے آبائی شہر شکارپور سے تعلق رکھنے والے آفتاب شعبان میرانی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا اور ان سے قبل ہی سندھ لسانی فسادات کا شکار تھا جس کی وجہ سے مجھے بھی نہ چاہتے ہوئے اپنا شہر مجبوراً چھوڑنا پڑا تھا۔ اندرون سندھ یہ فسادات کراچی میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعات کا نتیجہ تھے۔

شکارپور میں بھی ردعمل کے طور پر قوم پرستوں کے ہاتھوں سات افراد قتل کیے گئے تھے اور نقل مکانی شروع ہو چکی تھی اور مجھے بھی دباؤ کے باعث 18 مئی 1990 کو شکارپور چھوڑنا پڑ گیا تھا اور 12 روز بعد یکم جون کو لسانی بنیاد پر دکانیں لوٹی گئی تھیں۔

خیال تھا کہ نقل مکانی عارضی ہوگی اور بے شمار خاندان واپس بھی آگئے تھے مگر گمراہ کن پروپیگنڈے کے باعث میری واپسی ممکن نہ ہو سکی اور کراچی کو اپنانا پڑا تھا۔ اپنا آبائی شہر کبھی بھولا نہیں جا سکتا اور یہ پیدائشی حق ہوتا ہے کہ اس سے وفاداری ہر حال میں نبھائی جائے اور اس کا مفاد مقدم رکھا جائے۔

شکارپور میں22 سالہ اخباری رپورٹنگ میں ہمیشہ شہر کے مسائل کو اجاگر کرکے حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور میونسپل کونسلر اور صحافی کی حیثیت سے اپنے شہرکی خدمت کا جو موقعہ ملا اس سے کبھی پس و پیش نہیں کیا اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ آبائی شہر کبھی بھلایا جا ہی نہیں سکتا۔ کراچی آ کر عملی صحافت سے تعلق ختم ہو گیا تھا مگر پھر بھی کراچی اور شکارپور سے اپنے پانچ اخبارات نکال کر صحافت سے تعلق برقرار رکھا تھا۔

 2001 میں اپنے ہی پرانے بڑے اخبار سے کالم نگاری شروع کی مگر بعض وجوہات کے باعث بڑے اخبار کا تسلط توڑ کر جب روزنامہ ایکسپریس نے مقبولیت حاصل کی تو اپنا تعلق بطور رپورٹر شکارپور بعد میں کالم نگار کے طور پر ایکسپریس سے جو تعلق جوڑا تھا وہ بفضل خدا 24 سال سے قائم ہے اور ایکسپریس سے منسلک چلا آ رہا ہوں۔

ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی نے 2002 میں الیکشن دور میں کالموں کی مسلسل اشاعت کے بعد یاد کیا تھا اور سابقہ صحافتی تجربے کے بعد مناسب رہنمائی کی تھی اور باقاعدگی سے لکھنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ گائیڈ بھی کرتے رہے اور کالم کا عنوان منتخب کرنے کو کہا اور اس طرح ’’ عوامی کالم‘‘ کے نام سے لکھتے لکھتے اب 24 سال ہو گئے اور ایکسپریس بھی کراچی کے بعد لاہور پھر مزید 9 شہروں سے شایع ہونے والا ملک کا پہلا اخبار ہے جو کئی لحاظ سے منفرد ہے۔

ملک کے ممتاز صحافی عبدالقادر حسن کا ایکسپریس میں جو غیر سیاسی کالم شایع ہوتا تھا وہ اکثر سیاسی ہی ہوتا تھا اور راقم نے اپنے عوامی کالم میں سیاست سے زیادہ عوامی مسائل کو اہمیت دی۔ میونسپل کونسلر شکارپور کی حیثیت سے متعدد بلدیاتی معاملات سے تعلق رہا اور ویسے بھی عوام کا زیادہ تعلق اپنے بنیادی مسائل سے ہوتا ہے جو بلدیاتی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بعد بدامنی و دیگر مجبوریوں کے باعث عوام کا پولیس سے واسطہ پڑتا ہے جو کہنے کی حد تک کبھی عوام کی خدمت کی دعویدار تھی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ راقم کا شکارپور میں رپورٹنگ کے سلسلے میں پولیس سے قریبی تعلق رہا اور اعلیٰ پولیس افسران سے بھی رہنمائی ملتی رہی، اس لیے عوامی کالم میں پہلی ترجیح عوامی اور بنیادی مسائل کو اور دوسری ترجیح پولیس سے متعلق حقائق کو دی جس کے لیے سابق آئی جی سندھ رانا مقبول سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا جو خود سینیٹر منتخب ہو کر سینیٹ میں عوامی ترجمانی کرتے رہے۔ سیاست تو صحافت کے بہت قریب ہے اور 57 سالہ صحافت نے سیاست سے قریب رکھا جو عوام کی خدمت کے نام پر مفادات کے حصول کا اہم ذریعہ ہے اور اسی لیے راقم نے عوامی کالم میں عوام سے تعلق رکھنے والے ان ہی تینوں اہم معاملات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عوامی کالم کے 24 سال
  • ن لیگ نے کبھی صوبائیت یا ڈیم کارڈ نہیں کھیلا، ہم قومی سوچ کی جماعت ہیں، عظمیٰ بخاری
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • 5 ویں جماعت کے لاپتا طالبعلم پر چرس کا مقدمہ قائم
  • اسلامی ملکوں کے حکمران وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑیں: حافظ نعیم 
  • کمیٹیاں بلدیاتی اداروں پر عوام کا دباؤ بڑھائیں گی‘ وجیہہ حسن
  • قازقستان؛ زبردستی اور جبری شادیوں پر پابندی عائد؛ خلاف ورزی پر سنگین سزا
  • دہشتگرد گروپس میں جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کے شواہد مل رہے ہیں: آئی جی پولیس
  • بحیرہ عرب سے درمیانی شدت کی مرطوب ہوائیں ملک کے بالائی علاقوں میں داخل
  • خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع میں چند سو سے زیادہ دہشتگرد موجود نہیں، آئی جی