بیرونی امداد و قرضے … قومی انا و غیرت
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف افراطِ زر، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور لوگوں کی کم ہوتی ہوئی قوتِ خرید کا سنجیدہ اور تشویشناک معاملہ سامنے ہے تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار مسلسل گر رہا ہے اور قرضوں اور سود کی صورت میں قومی خزانے پر بوجھ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ملک اربوں ڈالر کا مقروض ہو گیا ہے اور یہ سارا بوجھ غریب پر پڑ گیا، اس کی قسمت اور بگڑ گئی۔ بڑے لوگ پہلے سے زیادہ بڑے ہو گئے۔ ادھر غریب کے دکھ بڑھتے ہیں، ادھر ان کی دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ہر فرد 312000 روپے تک کا مقروض ہے، جب کہ 2011ء میں ہر پاکستانی 46000، 2013ء میں 61000، اور 2016ء میں 100000روپے، 2018ء میں 140000،2022ء میں 280000، کا مقروض تھا۔ پاکستان کے ذمہ بیرونی قرضوں کا حجم جولائی 2013ء تک 61ارب 90کروڑ ڈالر تھا، جولائی 2014ء میں 65ارب ڈالر اور جو لائی 2015ء میں 66ارب ڈالر تھا، 2017ء میں72 ارب 98 کروڑ ڈالر تھا، جون 2018ء میں بیرونی قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر تھا، 31 دسمبر 2019ء کو 110 ارب 71 کروڑ ڈالر ڈالر، 31 دسمبر 2020ء تک ملک کا مجموعی قرض 115.
دنیا بھر کی قومیں اپنے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرضے حاصل کرتی ہیں پھر ان قرضوں کو ترقیاتی سکیموں میں لگایا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنے ملکوں میں مہنگائی کو اس قدر کنٹرول کرتی ہیں کہ کسی طور پر ان منصوبوں کی لاگت میں مزید اضافہ نہ ہو لہٰذا بروقت مکمل کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ منصوبہ بنا لینے کے بعد اسے شروع کرنے میں ہی اتنا وقت لگا دیا جاتا ہے کہ اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد پھر سے وسائل اکٹھے کرنے کی تگ و دو شروع کر دی جاتی ہے۔ لاگت میں اضافہ ہونے کے بعد اتنی رقم کا بندو بست نہ ہونے کے باعث منصوبہ ہی کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور اکثر و بیشتر وقت سے پہلے ہی چلی جاتی ہیں تو آنے والی حکومت شروع کئے گئے منصوبوں کو سرے سے ہی رد کر دیتی ہے اور اس کی جگہ دوسرا منصوبہ تیار کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ پھر تمام مراحل طے کئے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہم توانائی کے بحران کا شکار ہیں حکومتوں میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ لانگ ٹرم بڑے پراجیکٹ تیار کرتیں اور ان کو تکمیل کے مراحل تک لے کر جاتیں۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں قوموں کے لئے غیر ملکی امداد و قرضہ جات کا حصول بڑی حد تک ناگزیر ہے،ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے روابط سے منسلک ہونے پر مجبور ہیں جن سے ان کی غیرت و انا پر زد پڑتی ہے کیونکہ دنیا کی 95فیصد سائنس و ٹیکنالوجی پر 5فیصد اقوام کا قبضہ ہے اسلحہ، اجناس و خوراک کی امداد کے بغیر شائد گزارہ ہو جائے مگر جدید ٹیکنالوجی کے بغیر اس دور میں زندہ رہنا پھلنا پھولنا محال ہے۔ لیکن غیر ملکی امداد اس حد تک جائز و مناسب ہے کہ قومی انا و غیرت پر زد نہ پڑتی ہو اور اس حاصل ہونے والی امداد سے قومی ترقی و تعمیر کا مقصد حاصل ہوتا نظر آ سکے۔ جب یہ امداد قومی غیرت کا سودا کر کے چند افراد اور طبقوں کی ذاتی مراعات و خواہشات کی تکمیل کے لئے حاصل کی جائے تو یہ زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔
پاکستان اس وقت جس نازک اور سنگین صورت حال سے دوچار ہے، ان حالات میں ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو اپنے وقتی اور فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد و یکجہتی اور فکری ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ آمرانہ قوتوں کو اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرنا ہو گی۔ خاص طور پر وردی کی صورت میں حکومتی امور چلانے کی روش کو مکمل طور پر ترک کرنا ہو گا۔ ان حالات میں قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ایسی پالیسی وضع کرنا ہو گی جس میں جمہوریت کو استحکام حاصل ہو اور ملک کے تمام جمہوری اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اگر ان حالات میں بھی سیاست دان خاص طور پر حکمرانوں نے اپنی انانیت ترک نہ کی اور ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی پالیسی اختیار کئے رکھی تو کسی وقت بھی کوئی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کے دکھوں کو سمجھے اور ان کے مسائل کا حل نکالے۔ معیشت کی بہتری کے لئے سیاسی استحکام بنیادی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث عوامی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے حکومت سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر استحکام پیدا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ارب ڈالر تھا ہے کہ ہم جاتا ہے ہے اور رہا ہے کے لئے
پڑھیں:
بھارت ہمیشہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور جج بن جاتا ہے
لاہور:لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ جیسے کل بھی ہم نے ذکر کیا تھا انڈیا نے جو کچھ کیا ہے اس پر ہمیں حیرت تو نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک پرانا اسکرپٹ ہے، آپ دیکھیں ہمیشہ جب بھی انڈیا میں اس قسم کی کارروائی ہوتی ہے تو فوری ردعمل آتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت کا مسئلہ ہے کہ بھارت ہمیشہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی جج بن جاتا ہے، اس بار انھوں نے انڈس واٹر ٹریٹی کو چھیڑا یہ ڈائریکٹ پاکستان پر اٹیک ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر(ر)مسعود خان نے کہا کہ ایک تو لائیکلی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے، آج بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بہار میں تھے وہاں نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے ہیں،یہ پہلی دفعہ نہیں ہے، انڈس واٹر ٹریٹی کے بارے میں ان کی یہ سوچ 2015 سے تھی لیکن پاکستان نے آج جو میسج دیا ہے بڑا کلیئر تھا، میسج کل بھی جا چکا تھا ان کو بتایا تھا کہ جہاں سے کوشش کی جائے گی پاکستان میں مس ایڈونچر کرنے کی تو اس علاقے کو ملیامیٹ کر دیا جائے گا۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ ہم نے جو انڈس واٹر ٹریٹی پر کہا نہ کہ فل اسپیکٹرم سے نیشنل ریزلوو سے جواب دیا جائے گا اس میں ساری چیزیں پنہاں ہیں اور سارا جواب موجود ہے کہ ایک معاہدہ جو آپ منسوخ نہیں کر سکتے، معطل نہیں کر سکتے، آپ کر رہے ہیں تو پھر شملہ معاہدے سمیت ہم پابند نہیں رہیں گے کسی دوطرفہ معاہدے کے اور جواب دینے کا یہ ہے کہ اسے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے تو پھر ان کے ڈیم جو انھوں نے ہمارے تین پانی جو ہماری طرف آنے ہیں ان پر بنائے ہیں اور باقی بھی پھر کچھ نہیں بچے گا، پھر لڑائی ہے، دو ایٹمی قوتوں کی۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پاکستان کے نقصان کی جہاں تک بات ہے دو دو طرح کے ہیں، ایک شارٹ ٹرم اور ایک لانگ ٹرم ابھی تو انھوں نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا ہے اور اگر اس سے وڈڈرا کرتے ہیں تو پھر لانگ ٹرم ظاہر ہے کہ فوری طور پر دریاؤں کا پانی اس کو ڈائیورٹ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا سالوں لگتے ہیں اس کے لیے ان کو ڈیمز بنانا ہوں گے ٹائم لگے گا، ان دی لانگ رن، ہمیں پھر نقصان ہوگا، میری اطلاع ہے کہ انڈین حکومت کسی بڑے ایکشن سے پہلے تمام حجب پوری کر رہے ہیں تو میرے خیال میں پاکستان کو الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جو سب سے بڑا حملہ تھا وہ بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدہ جو ہے اس کو معطل کرکے پاکستان کی معیشت پر اور پاکستان کی زراعت پر حملہ کر دیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ صرف اس سے جو ہے وہ پاکستان کی معیشت کو نقصان ہو گا بلکہ میرے خیال میں پاکستان سے زیادہ جو انڈین اکانومی ہے بھارتی معیشت جو ہے اس کو نقصان ہوگا،بھارت کی طرف سے جو آبی جارحیت کی گئی ہے براہ راست حملہ کرنے کے بجائے یا براہ راست کوئی اقدام اٹھانے کے بجائے اب اس طرح کے ذرائع اور طریقے ہیں وہ بھارتی حکومت کی طرف سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔