وہیل نے سمندر میں ایک شخص کو سالم نگل لیا، ویڈیو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
چلی کے جنوبی پیٹاگونیا کے سمندر میں وہیل نے ایک شخص کو کشتی سمیت نگل لیا۔ اس خوفناک واقعے کی ویڈیو متاثرہ شخص کے والد نے بنالی جو وائرل ہورہی ہے۔
چلی سے تعلق رکھنے والے ایڈریان سیمانکاس اپنے والد کے ساتھ جنوبی پیٹاگونیا علاقے میں میگلیلان آبنائے کے قریب کائیکنگ کررہے تھے کہ اچانک ایک ہمپ بیک وہیل نے ان کی کشتی کو نگل لیا۔
یہ واقعہ ہفتے کے روز چلی کے جنوبی پٹاگونیا علاقے میں میگیلان آبنائے کے قریب سان اسڈرو لائٹ ہاؤس کے پاس پیش آیا۔ حادثے کے وقت ایڈریان کے والد ان کی ویڈیو بنارہے تھے جس کے باعث اس خوفناک حادثے کی ویڈیو بھی کیمرے میں قید ہوگئی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بڑی وہیل ایڈریان سیمانکاس کو ان کی کشتی سمیت چند لمحوں کےلیے نگل لیتی ہے، لیکن کچھ دیر بعد ہی انھیں بغیر کسی نقصان کے چھوڑ دیتی ہے۔
’’میں نے سوچا کہ وہیل نے مجھے کھا لیا ہے‘‘
بین الاقوامی خبر رساں ادارے سی این این کو اس واقعے کے بارے میں بتاتے ہوئے ایڈریان سیمانکاس نے کہا کہ کائیکنگ کے دوران جب میں پیچھے مڑا تو مجھے اپنے چہرے پر ایک چپچپا پن محسوس ہوا اور دیکھا کہ گہرے نیلے اور سفید رنگ پیچھے سے آرہے ہیں۔ اس کے بعد وہ پانی میں نیچے کھنچتے گئے۔ اس لمحے، انہوں نے سوچا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے اور انہیں لگا کہ وہ مرجائیں گے، حالانکہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔
ایڈریان نے کہا، ’’میں نے سوچا کہ وہیل نے مجھے کھا لیا ہے اور نگل لیا ہے۔‘‘ تاہم، جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی لائف ویسٹ انہیں واپس اوپر کھینچ رہی ہے، اور چند سیکنڈز میں وہ سطح پر آگئے اور صورتحال کو سمجھنے لگے۔
یہ ویڈیو ایڈریان کے والد ڈیل نے دوسری کشتی سے ریکارڈ کی تھی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ وہیل کو پہلے سمندر کی خوبصورت لہر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن بعد میں جب وہیل ان کے بیٹے کو نگلنے کے بعد دوبارہ اگل دیتی ہے تو وہ اپنے بیٹے کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ویڈیو میں انہیں کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’پرسکون رہو، پرسکون رہو۔‘‘
ایڈریان نے بتایا کہ جب وہ سطح پر آئے اور تیرنے لگے، تو انہیں اپنے والد کے بارے میں فکر ہوئی کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ ہوجائے، یا وہ ساحل تک بروقت نہ پہنچ سکیں، یا انہیں ہائپوتھرمیا ہوجائے۔ تاہم، واقعے کے بعد باپ اور بیٹے دونوں محفوظ طریقے سے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
’’کیا آپ دوبارہ کائیکنگ کریں گے؟‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ کائیکنگ کریں گے، تو باپ اور بیٹے دونوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا، ’’بالکل۔‘‘
ایک اور اسی طرح کا واقعہ
نومبر 2020 میں ایک اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا، جب ایک ہمپ بیک وہیل نے کیلیفورنیا کے ساحل کے قریب دو کشتی رانوں کو تقریباً نگل لیا تھا۔ دونوں کائیکر وہیلز کو سلور فش کھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک وہیل ان کی کشتی کے نیچے سے ابھری، جس سے کشتی الٹ گئی اور وہیل نے انہیں چند لمحوں کےلیے نگل لیا، لیکن وہ بغیر کسی نقصان کے بچ نکلے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لیبیا کے ساحل پر کشتی میں خوفناک آگ، 50 سوڈانی پناہ گزین جاں بحق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
طرابلس: لیبیا کے ساحل کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی، جس کے نتیجے میں کم از کم 50 سوڈانی پناہ گزین جاں بحق ہوگئے جبکہ 24 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ اس مہلک سمندری راستے پر پیش آیا ہے، جسے افریقی ممالک کے ہزاروں پناہ گزین یورپ پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاحال حادثے کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکی، حکام نے تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ عینی شاہدین اور امدادی اداروں نے تصدیق کی ہے کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے لیکن ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ موجود ہے، ادارے نے ایک بیان میں زور دیا ہے کہ ایسے سانحات کو روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ سال بحیرۂ روم میں 2,452 افراد ہلاک یا لاپتا ہوئے، جس سے یہ دنیا کا سب سے خطرناک سمندری راستہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگست میں بھی اٹلی کے جزیرے لامپیدوسا کے قریب دو کشتیوں کے ڈوبنے سے کم از کم 27 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ جون میں لیبیا کے قریب دو کشتیوں کے حادثے میں تقریباً 60 تارکین وطن سمندر میں ڈوب گئے تھے۔
خیال رہے کہ یورپی یونین نے حالیہ برسوں میں لیبیا کے کوسٹ گارڈ کو فنڈز اور سازوسامان فراہم کرکے غیر قانونی ہجرت کو روکنے کی کوششیں تیز کی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اس پالیسی نے پناہ گزینوں کے لیے خطرات مزید بڑھا دیے ہیں۔
حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ لیبیا میں تارکین وطن کو حراستی مراکز میں بدترین حالات، تشدد، زیادتی اور بھتہ خوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں ہزاروں افراد اب بھی پناہ کے انتظار میں پھنسے ہوئے ہیں۔