کراچی:وفاقی وزیر امور کشمیر، گلگت بلتستان و سیفران و صدر مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ وفاق میں وزیر اعظم شہباز شریف اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف مثالی کام کر رہے ہیں-
سندھ کے کارکنوں اور قیادت سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر  امیر مقام نے کہا کہ پاکستان پر سیاست قربان کر کے نواز شریف اور شہباز شریف نے ثابت کیا کہ وہ محب وطن ہیں، دلیر ہیں اور عوام کے مفاد کے لئے ہر قربانی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
امیر مقام نے کہا   کہ مسلم لیگ (ن) نے پاکستان کو معاشی ڈیفالٹ سے بچانے اور خانہ جنگی کرانے کی سازش سے بچایا.

.انہوں نے کہا کہ مریم نواز شریف کی محنت اور کار کردگی دیکھ کر دیگر صوبوں کے عوام دعائیں کر رہے ہیں کہ کاش ایسا وزیر اعلی انہیں بھی مل جائے۔
امیر مقام نے کہا کہ ہمیں اپنی سکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں پر فخر ہے ،انہوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان کے افسران و جوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر وطن کی حفاظت کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں. پاکستانی قوم اپنی بہادر افواج کے ملک کی حفاظت کے غیر متزلزل عزم پر انہیں سلام پیش کرتی ہے ۔
امیر مقام نے کہا کہ خطوط لکھ کر پاکستان کی معاشی مدد بند کرانے کی کوشش کرنے والا آج خود اڈیالہ جیل میں بند ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسروں کے گھروں پر حملے کرانے والے کے لیڈر آج خود ایک دوسرے کو مکے اور تھپڑ مارہے ہیں، پی ٹی آئی والے اب خط کے جواب کو ترستے ہی رہیں گے۔ خط کی سیاست بھی ان کے احتجاج کی طرح فیل ہوگئی ہے۔
امیر مقام نے کہا ہے کہ جلو پنکی پیرنی خیبر پختون خوا میں فرح گوگی وزیر اعلی چاہتی ہے خیبر پختون خوا میں مقابلہ جاری ہے کہ کون زیادہ چندہ دے گا ، جو چندہ زیادہ دے گا ، اسے اتنا بڑا عہدہ ملے گا ،عید کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج کی کال کا خطوط والا ہی حال ہوگا جعلی صادق اور امین نے تو شہ خانہ میں چوری کی اور کمائی سے جیب بھری۔
انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو صوابی کے جلسے میں خیبر پختون خوا کے عوام بھی نہیں آئے۔ انجینئر امیر مقام نے کہا  کہ شہباز شریف نے نہ کوئی تنخواہ لی بلکہ کروڑوں روپے کے غیر ملکی تحفے اور گاڑی تو شہ خانے میں جمع کرادی ۔
اس سے پہلے  کمشنریٹ افغان مہاجرین سندھ، کراچی میں افغان مہاجرین اور پاکستان برادری سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرامیر مقام نے کہا   کہ واضح کر دوں کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی  ، آج دنیا میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلیاں آ رہی ہے.حالیہ دنوں میں ملک میں غیر دستاویزی افراد کے خلاف ایک مہم جاری ہے۔
امیر مقام نے کہا کہ یہ اقدام صرف اور صرف سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر اٹھایا گیا بی کسی امتیازی سلوک کے تحت نہیں۔انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ حکومت قانونی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے مہاجرین کو ہر ممکن مدد اور تحفظ فراہم کرے گی۔
امیر مقام نے کہا   کہ پاکستان تمام مشکلات کے باوجود افغان مہاجرین کے ساتھ کھڑا ہے۔تایم بین الاقوامی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی، افغان مہاجرین کی تیسرے ملک میں دوبارہ آبادکاری کو یقینی بنایا جائے،افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں-
امیر مقام نے کہا کہ ان میزبان برادریوں کی مدد کی جائے جنہوں نے کئی دہائیوں سے مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے، صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں بلکہ عالمی برادری کا مشترکہ فریضہ ہے،پاکستان اپنے افغان مہاجر بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا۔
امیر مقام نے کہا  کہ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری قربانیوں کا اعتراف کرے اور مہاجرین کے لیے دیرپا حل تلاش کرں،ہمیں مل کر امن، استحکام اور ایک باوقار مستقبل کے لیے کام کرنا ہوگا۔
وفاقی وزیر  نے کہا  کہ پاکستان نے ہمیت بھائی چارے مہمان نوازی اور ہمدردی کی روایات کو برقرار رکھا ہے، افغان مہاجرین ہمارے مہمان نہیں بلکہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم نے گزشت چار دہائیوں سے ان کے ساتھ اپنی زمین وسائل اور روزگار بافت رکھے ہیں۔
امیر مقام نے کہا کہ وزارت سیفران مہاجرین کے تحفظ اور فلاح و بہبود کو یقینی بنا رہی ہے چاہے وہ کیمیوں میں ہوں یا ان کے باہر، مہاجرین کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل ہے

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امیر مقام نے کہا کہ افغان مہاجرین وفاقی وزیر مہاجرین کے انہوں نے

پڑھیں:

آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن

گزشتہ شب دبئی کے میدان میں پاک بھارت میچ نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ ایک طرف میدان کے اندر بھارتی ٹیم کی جیت کو فوج اور پہلگام متاثرین کے نام کیا گیا، تو دوسری جانب اسٹیڈیم میں موجود پاکستانی اور بھارتی شائقین کے گلے ملنے اور ایک دوسرے کے لیے محبت بھرے نعروں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی۔

یہ منظر واضح کر رہا تھا کہ عوامی سطح پر تعلقات کی خواہش کچھ اور ہے اور کھیل کے منتظمین کے ایجنڈے کچھ اور۔ بھارت کا رویہ یہاں سب سے نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز کھیلنے سے انکار کرتا ہے، فنکاروں اور موسیقاروں پر پابندیاں لگاتا ہے، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے اپنے شہریوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔

دوسری طرف جب بات آئی سی سی یا ایشین کرکٹ کونسل کے ٹورنامنٹس کی آتی ہے تو اربوں ڈالر کے نشریاتی معاہدوں اور اشتہارات کی خاطر کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے ماہرین ’محبت اور منافقت‘ کا امتزاج قرار دیتے ہیں۔

کرکٹ کو ’جنٹلمینز گیم‘ کہا جاتا ہے، مگر جب یہ کھیل قومی وقار اور ریاستی سیاست سے جڑ جائے تو پھر ’بیٹ اور بال‘ کے بیچ طاقت، انا اور بیانیے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کل کے پاک بھارت میچ کے بعد پیدا ہونے والا ’ہینڈ شیک تنازع‘ اس بحث کو ایک بار پھر زندہ کر گیا ہے کہ کھیل کو سیاست سے کیسے الگ رکھا جائے اور آئی سی سی اس ضمن میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟

ایشیا کپ کے دبئی میچ کے بعد بھارتی ٹیم کا پاکستان کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کھیل کی اسپرٹ سے انحراف تھا۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے اسے حکومتی و بورڈ پالیسی کے مطابق قرار دے کر یہ تاثر مزید پختہ کر دیا کہ یہ فیصلہ کھیل کا نہیں بلکہ سیاسی تھا۔

پاکستان نے بھی احتجاجاً اپنا کپتان پریزنٹیشن کے لیے نہ بھیج کر اس رویے پر ردعمل دیا۔ کوچ مائیک ہیسن اور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے واضح کہا کہ کھیل کو سیاست میں گھسیٹنا ناقابل قبول ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ محض کھیل نہیں، تاہم پاکستان نے ہمیشہ اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کیا۔ 1999 کے لاہور ٹیسٹ میں کارگل کے پس منظر کے باوجود پرویز مشرف اور بھارتی ٹیم کی مسکراہٹیں یادگار ہیں مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔

2019 میں بھارت نے ورلڈ کپ میں پاکستان سے میچ کھیلنے کے خلاف مہم چلائی، مگر آئی سی سی نے دباؤ قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس، پاکستان نے بارہا بھارت کے ان اقدامات پر اعتراض کیا جن سے کھیل کو سیاست میں گھسیٹا گیا، لیکن اکثر شکایات نظرانداز ہوئیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ یہ کھیل سیاست، نسلی امتیاز اور عالمی تنازعات سے بارہا متاثر ہوا ہے۔ آئی سی سی بارہا مؤقف اپناتی رہی کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھا جائے، مگر اس میں تضاد بھی نمایاں رہا ہے۔ چند اہم مثالیں:

1968: جنوبی افریقہ
نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کی پالیسی کے باعث جنوبی افریقہ کو بین الاقوامی کرکٹ سے باہر کر دیا گیا اور پروٹیز کئی دہائیوں تک عالمی کرکٹ کھیلنے سے محروم رہے۔

1996: بھارت بمقابلہ سری لنکا
ورلڈ کپ کے دوران بھارت نے تامل شورش کے باعث سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا۔ آئی سی سی نے اسے کھیل کے اصولوں کے منافی قرار دے کر میچ سری لنکا کو دے دیا۔

2003: زمبابوے
زمبابوے کے کھلاڑی اینڈی فلاور اور ہنری اولونگا نے سیاہ پٹیاں پہن کر انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کیا، جس پر آئی سی سی نے انہیں وارننگ جاری کی۔ اسی ورلڈ کپ میں انگلینڈ نے زمبابوے میں میچ کھیلنے سے انکار کیا تو آئی سی سی نے پوائنٹس کاٹ لیے۔

2009: لاہور حملہ
سری لنکن ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان برسوں تک اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم رہا اور نیوٹرل وینیو پر کھیلنے پر مجبور ہوا۔

2019: پلوامہ واقعہ
بھارتی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلا۔ پاکستان نے احتجاج کیا مگر آئی سی سی نے صرف تنبیہ کے ساتھ معاملہ ختم کر دیا۔

2023: عثمان خواجہ کا احتجاج
آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے نعرے درج جوتے پہننے کا ارادہ کیا، مگر آئی سی سی نے ضوابط کی خلاف ورزی قرار دے کر روک دیا۔ بعدازاں انہوں نے بازو پر سیاہ پٹی باندھی تو ان پر چارج عائد کر دیا گیا۔

اس سے قبل جنوبی افریقہ کے اسپنر کیشو مہاراج کو مذہبی نشان کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جو آئی سی سی کے متضاد رویے کو اجاگر کرتا ہے۔

2025: ایشیا کپ ہینڈ شیک تنازع
14 ستمبر کو دبئی میں بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ یہ واقعہ اسپرٹ آف کرکٹ کی خلاف ورزی کے طور پر دنیا بھر میں زیر بحث آیا، مگر تاحال آئی سی سی کا کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی کوچ مائیک ہیسن نے کہا کہ ہم کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں، سیاست اس میں شامل نہیں ہونی چاہیے۔ سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے مؤقف اپنایا کہ بھارت نے کھیل کی روح کو مجروح کیا۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی نے بھی زور دیا کہ آئی سی سی کو سب کے لیے یکساں اصول اپنانے ہوں گے۔

آئی سی سی کے پاس کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے جو کھیل میں سیاسی یا مذہبی علامت کے استعمال کو روکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصول سب پر یکساں لاگو ہوں گے یا بڑے بورڈز کے اثر و رسوخ کے آگے ضابطے کمزور پڑتے رہیں گے؟

دبئی کے اسٹیڈیم میں عوام نے ثابت کر دیا کہ تعلقات اور بھائی چارے کی خواہش سیاست سے زیادہ مضبوط ہے۔ اب یہ فیصلہ آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کو کرنا ہے کہ وہ کھیل کو سیاست کے بوجھ سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

آئی سی سی کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگر وہ کھیل کو سیاست سے بالاتر رکھنے کے اپنے اصول پر قائم ہے تو اسے بھارت سمیت سب پر یکساں ایکشن لینا ہوگا۔ بصورت دیگر کھیل بزنس اور بیانیے کی بھینٹ چڑھتا رہے گا اور اس کی اصل روح کھو جائے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

آئی سی سی ایشیا کپ بھارت بی سی سی آئی پاک بھارت میچ محسن نقوی

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم کی چمن میں پاک افغان بارڈر کے قریب بم دھماکے کی شدید مذمت
  • افغان مہاجرین کا انخلا باوقار انداز میں مکمل کیا جائیگا، سرفراز بگٹی
  • وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام کا شرینگل بار میں خطاب، وکلاء کی خدمات کو سراہا، خصوصی گرانٹ کا اعلان
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • امیر مقام کا پروفیسر عبد الغنی بٹ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر دوحا پہنچ گئے،امیر قطر اور وزیراعظم سے ملاقات
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی امیر قطر سے ملاقات، خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن