پیرس اجلاس: یوکرین مسئلے پر جوابات سے زیادہ سوالات پیدا ہوئے
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) پیر کے روز پیرس کا ایلیسی پیلس یورپ کے لیے بحران کا ایک مرکز تھا، جہاں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سرکردہ یورپی رہنماؤں کی میزبانی کی۔ تمام یورپی رہنما وہاں اس لیے جمع ہوئے تھے، تاکہ ان کی شرکت کے بغیر براعظم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے بچا جا سکے۔
یورپی قائدین ابھی تک اس دھچکے سے پریشان ہیں کہ یوکرین بحران پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی اتحادیوں کے تحفظات کا خیال کیے بغیر ہی، روس کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ کیسے کر لیا۔
اس سے نمٹنے کے لیے ماکروں نے اپنے خود ساختہ کردار 'یورپ کے کنوینر انچیف کے طور پر' یہ اجلاس بلایا تھا۔لیکن اس حوالے سے جب ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن نے زور دے کر کہا کہ اس بات چیت سے کبھی بھی ٹھوس نتائج برآمد ہی نہیں ہونے تھے، تو یہ حقیقت مزید اجاگر ہو گئی کہ پیر کی ملاقات نے جوابات سے زیادہ نئے سوالات پیدا کیے کہ آخر یورپ اس مسئلے پر آگے کیسے بڑھ سکتا ہے۔
(جاری ہے)
یوکرین پر یورپی رہنماؤں کا آج ہنگامی سربراہی اجلاس
مستقبل کی حفاظتی ضمانتوں پر بحثپیرس میں جمع ہونے والے زیادہ تر رہنماؤں نے کییف کو سیاسی، فوجی اور مالی مدد جاری رکھنے کے ماضی کے وعدوں کا اعادہ کیا اور اصرار کیا کہ یوکرین پر کوئی معاہدہ ان کی پشت کے پیچھے نہیں ہونا چاہیے۔
پیرس میں فرانس، جرمنی، ڈنمارک، نیدرلینڈز، اسپین، برطانیہ، پولینڈ اور اٹلی سمیت یورپی یونین اور نیٹو کے اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔
تاہم اس اجلاس میں شامل ہونے والے رہنما اس بات پر متحد دکھائی نہیں دیے کہ آخر یوکرین کو یورپ کی جانب سے کیا سکیورٹی ضمانتیں دی جا سکتی ہیں۔مستقبل میں یوکرین میں یورپی امن فوجی دستوں کی تعیناتی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ وہ اس بحث سے "عاجز آچکے" ہیں۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، "میں بالکل صاف صاف کہوں گا: لوگ یوکرین کے متعلق ممکنہ نتائج کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ان امن مذاکرات کے نتائج کے بارے میں جو ہوئے ہی نہیں ہیں، جن کے بارے میں یوکرین نے ہاں نہیں کہا ہے اور نہ ہی ابھی تک میز پر بیٹھا ہے۔
"'یورپی مسلح افواج' کی تشکیل کا وقت آ گیا ہے، زیلنسکی
ان کا مزید کہنا تھا، "لہذا، یہ غلط وقت اور غلط موضوع پر ایک نامناسب بحث ہے۔ ہم ابھی امن کے مقام پر نہیں ہیں، البتہ روس کی طرف سے وحشیانہ طریقے سے چھیڑی جانے والی جنگ کے درمیان ہیں۔"
جرمن چانسلر کا یہ بیان برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر سے متصادم معلوم ہوتا ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت یوکرین میں برطانوی فوجی بھیجنے پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ادھر ڈنمارک کی وزیر اعظم فریڈرکسن نے کہا کہ ان کا ملک "بہت سی چیزوں" کے لیے کھلا ہے، تاہم پہلے "بہت سی چیزوں" کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ پولینڈ کے ٹسک نے کہا کہ پولش امن فوج کے جوتے زمین پر رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ان اختلافات کی عکاسی کرتے ہوئے یورپی یونین کے ایک اہلکار نے میٹنگ میں موڈ کا خلاصہ یوں بیان کیا: "ہر فریق کے ساتھ جانچ پڑتال کے طریقوں کے ساتھ، ہم حفاظتی ضمانتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ امریکی حمایت کی سطح کیا ہو گی۔"امریکہ یورپ میں عسکری موجودگی میں تبدیلی پر نیٹو اتحادیوں سے بات چیت کرے، جرمن صدر
امریکہ کے نظر انداز کیے جانے سے ممکنہ فائدہ؟زیادہ تر یورپی ریاستیں امن فوجوں کے بارے میں اس وقت تک بات چیت جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کر سکتی ہیں، جب تک کہ کوئی امن معاہدہ طے نہیں ہو جاتا۔
لیکن امریکہ نے اس حوالے سے اپنے منصوبے کو پہلے ہی واضح کر دیا ہے۔پچھلے ہفتے وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کہا تھا کہ کوئی بھی امریکی فوجی اس میں شامل نہیں ہو گا، اور اس کے بجائے "قابل یورپی اور غیر یورپی فوجی" مستقبل میں جنگ بندی کی حمایت کے لیے تعینات کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ کہی کہ ایسی افواج کو امریکی سکیورٹی گارنٹی کے ذریعے تحفظ نہیں دیا جانا چاہیے۔
یہ ایک بڑا سوال ہے: اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیٹو کے بنیادی اجتماعی دفاعی وعدے اور سہارے کے بغیر ہی نیٹو ممالک سے ہی مسلح افواج کا انتخاب کیا جائے۔
پیر کے روز امریکہ نے اتنی یقین دہانی ضرور کرائی کہ یوکرین پر یورپی ممالک سے بھی رائے لی جائے گی، تاہم اس کے باوجود واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی صرف ماسکو اور کییف کے ساتھ ہی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے ایک محقق الریک فرینکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپ اس موقع کو زیادہ اثر و رسوخ کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، "حقیقی فائدہ یہ ہے کہ یورپی ممالک سے ہی، کسی بھی قسم کے معاہدے کو محفوظ کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
انہوں نے کہا، "اس طرح یورپیوں کو آخر کار میز پر بیٹھنا پڑے گا، کیونکہ اگر ان سے کسی بھی قسم کے معاہدے کو محفوظ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، تو انہیں اس میں شامل ہونا پڑے گا۔
"محقق پیئر ہاروشے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امن فوجیوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو ممکنہ طور پر ایک "ترقی پسند انقلاب" ہو گا، جس کی قیادت برطانیہ اور فرانس" کر سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں کے سائے میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کا انعقاد
دفاعی بجٹ میں اضافہیورپی ممالک فروری 2022 سے ہی فوجی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں، لیکن اس احساس کے دوران کہ واشنگٹن اب قابل بھروسہ پارٹنر نہیں رہا، اب اس پر مزید خرچ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
ٹسک نے پیر کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "اس بات پر اتفاق اور سبھی کی ایک رائے تھی کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ، ایک قابل ذکر اضافہ، بہت ضروری ہے۔"
جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ وہ بڑے دفاعی بجٹ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے یورپی یونین کے مالیاتی قواعد میں نرمی کے حق میں ہیں، جب کہ یورپی یونین کے ایک اہلکار نے کہا کہ رہنما "امریکہ کے ساتھ افہام کو بہتر طریقے سے بانٹنے کے لیے" اپنے اخراجات کی سطح کو بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔
"اس سے یورپی یونین میں یہ بحث بھی شروع ہو رہی ہے کہ آخر دفاعی بجٹ کے حوالے سے کام کیسے آگے بڑھایا جائے اور ریاستوں کو کس طرح مالی اعانت فراہم کی جائے، اور آیا امریکہ سے اسلحہ خریدنا ہے یا یورپی خریداریوں پر قائم رہنے کے لیے فرانسیسی مطالبات کے ساتھ موافقت اختیار کی جائے۔
ص ز/ ج ا (روزی برچرڈ)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین کے بارے میں کرنے کے لیے نے کہا کہ انہوں نے بات چیت کے ساتھ نہیں ہو کہ یورپ اس بات
پڑھیں:
کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر تنقید کرتے ہوئے ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، "یہ ضروری نہیں تھا، اور بہت برے وقت ہوا۔ ولادیمیر، رک جاؤ۔" انہوں نے مزید کہا، "کییف پر ہونے والے روسی حملوں سے میں خوش نہیں ہوں۔"
انہوں نے روسی صدر پر جنگ بند کرنے اور معاہدہ کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا، "ایک ہفتے میں 5000 فوجی مر رہے ہیں۔
چلو امن کے لیے معاہدہ کرتے ہیں۔"ٹرمپ کا یہ بیان یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کی مسلسل کارروائیوں کے درمیان امریکی صدر پوٹن کے لیے ایک نادر سرزنش کی نمائندگی کرتا ہے۔
ان کا یہ بیان کییف پر روسی میزائلوں کے حملے کے بعد آیا ہے، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
گزشتہ برس جولائی کے بعد سے یہ دارالحکومت کییف پر سب سے مہلک حملہ تھا۔
یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
ٹرمپ نے ماسکو کی 'بڑی رعایت' پر روس کی تعریف کیامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مکمل طور پر قبضہ نہ کرنے کے لیے روس کی رضامندی ماسکو کی طرف سے "بہت بڑی رعایت" کی نمائندگی کرتی ہے۔
ٹرمپ نے یہ تبصرہ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور سے ملاقات کے دوران اس وقت کیا جب ان سے ایک رپورٹرنے سوال کیا کہ روس نے امن معاہدے تک پہنچنے کی پیشکش کے لیے کیا مراعات پیش کی ہیں۔
'ایسٹر جنگ بندی' ختم، یوکرین امن کوششوں کا اب کیا ہو گا؟
امریکی صدر نے کہا، "پورے ملک کو لینے سے رک جانا ہی بہت بڑی رعایت ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ امن معاہدے کے امکان کے بارے میں پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم روس پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور روس یہ جانتا ہے۔"
روس امن معاہدہ چاہتا ہے یہ جنگ کو جاری رکھنا؟یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا کا کہنا ہے کہ روس کے مسلسل حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کریملن امریکی قیادت میں امن کی کوششوں کے باوجود اپنے حملے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان بات چیت "صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔"
یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
جمعرات کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ ماسکو معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس کے اعلیٰ سفارت کار نے انٹرویو کے دوران کہا، "لیکن ابھی بھی کچھ مخصوص نکات ہیں، اس معاہدے کے عناصر جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔" اسے اتوار کو مکمل طور پر نشر کیے جانے کی توقع ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ماسکو اس بات سے مطمئن ہے کہ بات چیت کس طرح آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ "صدر ٹرمپ شاید زمین پر واحد رہنما ہیں، جنہوں نے اس صورتحال کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔
"روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
کییف پر روسی حملہ زمینی کارروائی کے لیےیوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس نے زمینی دراندازی میں اضافے کے لیے راتوں رات بڑے پیمانے پر فضائی حملے کرنے کی کوشش کی ہے۔
یوکرین کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ البتہ زمینی حملوں کو کامیابی سے پسپا کر دیا گیا ہے۔
زیلنسکی نے ٹیلی گرام پر کہا، "روسیوں نے اپنے زبردست فضائی حملے کی آڑ میں زمینی حملے کی کارروائیوں کو تیار کرنے کی کوشش کی۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "جب ہماری افواج کی زیادہ سے زیادہ توجہ میزائلوں اور ڈرونز کے خلاف دفاع پر مرکوز تھی، تو روسیوں نے اپنے زمینی حملوں کو نمایاں طور پر تیز کر دیا۔ تاہم روسیوں کو اس کا مناسب جواب ملا۔"
اس دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف سمیت پورے یوکرین میں میزائل اور ڈرون حملوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)