کیا ملک میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اس وقت سب سے ہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر غربت کا عفریت ہرسو کیوں نظرآرہاہے؟ بعض معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ دولت چند افراد کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگر سرمایہ کاری ہوبھی رہی ہے تو فی الحال اس کے نتائج مثبت انداز میں سامنے نظرنہیں آرہے ہیں۔ بلکہ روزگار ہوتے ہوئے بھی روزگار نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہاجائے تو مناسب ہوگاکہ روزگار کے ذرائع چند طبقات تک محدود ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادبے روزگار اور تنہائی کاشکار ہے۔ کیوں انہیں ایک طرف روزگار نہیں مل رہاہے تو دوسری طرف ان کی داد رسی کرنے والا بھی موجود نہیں ہے۔ یہ پاکستانی سماج کاافسوسناک منظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگار لوگوں کو سماج دشمن عناصر بہکاکر سمندری راستوں سے نوکری دلانے کے لئے لے جاتے ہیں جس میں اکثریت منزل پر پہنچنے سے قبل ہی سمندر برد ہوجاتے ہیں‘ یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔
تاہم پاکستان کے ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کا بیرون ملک جانا ملک کی ترقی کے پس منظر میں ایک اچھی علامت ہے ۔اگر اس ہی افرادی قوت کیلئے پاکستان میں روزگار کے ذرائع پیدا کئے جائیں تو ایک طرف بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے تو دوسری طرف افراد ی قوت کا بیرونی ممالک میں روزگار کی تلاش میں جانا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ اس لئے پاکستان کے سرمایہ کاروں کوچاہیے کہ وہ ملک میں روزگار کے مناسب حالات پیداکریں۔ صنعتوں کے قیام سے کسی حد تک بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے۔نیز زرعی شعبے کو سائنٹفک انداز میں ترقی دے کر روزگار کے لئے ذرائع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے تاہم موجودہ حکومت کے پاس ملک میں روزگار کے سلسلے میں کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ یہ حکومت ایڈہاک کی بنیاد پر کام کررہی ہے‘ ظاہر ہے کہ اس طریقہ کار سے اقتصادی ترقی کی مضبوط بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ہے اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے۔
پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملک میں ان کی مرضی سے نوکریاں نہیں مل رہی جبکہ اثررسوخ رکھنے والے نوجوان بے آسانی حاصل کرلیتے ہیں جو ایک مناسب بات نہیں ہے اور نہ ہی مناسب طریقہ کار ہے۔دراصل پاکستان میں سرمائے کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داروں نے اپنا پیسہ روک رکھاہے‘ یا پھر اس کو بیرونی ممالک میں invest کیاہے جو اس ملک کے لئے بہتری لاسکتاہے ‘ لیکن پاکستان کے اور اس کے عوام کے لئے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ابھی تک معاشی طورپر ٹیک آف نہیں کرسکاہے۔ ترقی کے آثار تو دکھائی دے رہے ہیں‘ لیکن اس کے واضع اثرات عوام تک نہیں پہنچ رہے اور نہ ہی پاکستان سے غربت کسی حد تک کم ہوئی ہے۔
دوسری طرف آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے ‘ لیکن اس تناسب سے معاشی ترقی نہیں ہورہی ہے‘ اور نہ روزگار کے ذرائع پیدا ہورہے ہیں‘ اس پس منظر میں غربت بتدریج بڑھ رہی اور عوام کے نچلے اور متوسط بقے میں مایوسی گھر کررہی ہے‘ دراصل ملک ترقی حکومت کی معاشی پالیسیوں سے ہوسکتی ہے‘ نیز کرپشن کوختم کرنے سے بھی‘ لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ نہ تو ملک میں کرپشن ختم ہوا ہے اور نہ ہی روزگار کے ذرائع پیدا ہورہے ہیں‘ نئے کارخانے نہیں لگ رہے ہیں۔ حکومت محض بیانات داغنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی ٹھوس روڈ میپ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام میں مایوسی بھی۔ مزید برآں مہنگائی ابھی تک کم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے کم ہونے کے آثار نظر آرہاہے ہیں‘ اگر صوبائی حکومتیں مہنگائی روکنے کے سلسلے میں چیک اینڈ بیلنس کی حکمت عملی اختیار کریں تو بہت حد تک مہنگائی میں واضح کمی ہوسکتی ہے۔
مہنگائی کو کم کرنے کے سلسلے میں روزگار کے ذرائع بھی پیداکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم ہنرمند کو ملک کے اندر روزگار کے ذرائع مہیا کردیں تو انہیں غلط طریقوں سے ملک سے باہر جانا سودمند نہیں ہوگا۔پاکستان کے اندر اب بھی معاشی حالات اتنے برے نہیں ہیں کہ ہنرمند اور غیرہند لوگوں کو روزگار نہ مل سکے۔ جب عورتیں روزگار حاصل کرسکتی ہیں اور تومرد بھی کرسکتے ہیں بلکہ کررہے ہیں۔
دراصل موجودہ حکومت بیانات کے ذریعے اپنا بھرم قائم کئے ہوئے ہیں‘حالانکہ زمینی حقائق روزگار اور خوشحال زندگی کے حوالے سے زیادہ مناسب نہیں ہیں‘ بلکہ تکلیف دہ ہیں‘ مزید برآں مزدوروں کو موجودہ معاشی حالات کے پس منظر میں وہ تنخواہ نہیں مل رہی ہے جس سے وہ جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی بیرونی ممالک میں نوکری حاصل کرنے کوترجیحی دیتاہے اور بسا اوقات غلط عناصر کے ہاتھوں پھنس کراپنا سب کچھ لٹادیتاہے‘ حالانکہ پاکستان میں مین پاور ایکسپورٹ کا ادارہ قائم ہے‘ لیکن اس کی فعالیت زیادہ مناسب نہیں ہے ۔ سفارشی لوگ اس ادارے کے ذریعے باآسانی باہر چلے جاتے ہیں جبکہ جن کی سفارش نہیں ہوتی ہے اور طاقتور حلقوں سے مراسم نہیں ہوتے ہیں‘ وہ باہر جانے سے قاصر رہتے ہیں۔
دراصل پاکستان میںترقی معکوس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفارش کے ذریعے نوکری حاصل کرنے والے اکثرنااہل اور خوشامدی ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کسی بھی ادارے کیلئے کارکردگی کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے ہیں۔ جب تک پاکستان میں سفارشی کلچر ختم نہیں ہوگا۔ حق دار کو اس کا حق نہیں ملے گا اور وہ روزگار جس کی وہ تگ و دو کررہاہے ماضی میں اور اب بھی سفارشی کلچر نے پاکستان کے ہنرمند وں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے‘ جبکہ ان کی جگہ وہی سامنے آتے ہیں جن کے بااثرافراد سے تعلقات ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہنرمند افراد کی عزت کرتے ہوئے ان سے ملک کی معیشت کو ترقی دینے کے سلسلے میں موقع دیناچاہیے۔ پاکستان میں اب بھی ترقی کے لئے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ لیکن کسی بھی قسم کی پالیسی نہ ہونے کے سبب ترقی کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت محض بیان جاری کردیتی ہے جس سے ملک کی ترقی کی عکاسی نہیں ہوتی ۔ ملک صنعتی ترقی کے ذریعے آگے بڑھ سکتاہے۔ ذرا سوچیئے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: روزگار کے ذرائع میں روزگار کے کے سلسلے میں ہے اور نہ ہی پاکستان میں ذرائع پیدا پاکستان کے ہوسکتی ہے بے روزگار کے ذریعے ہوتے ہیں نہیں مل ملک میں ترقی کے نہیں ہے رہی ہے
پڑھیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔
رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:
پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔
دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔
پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔
یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔
ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔
یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔
اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔
چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔
یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں