وادی کالاش؛ امریکی شکاری نے مارخور کا کامیاب شکارکرلیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
ویب ڈیسک :خیبرپختونخو کے شہر چترال میں وادی کالاش کے علاقے رمبور میں امریکی شکاری نے نان ایکسپورٹیبل مارخور کا کامیاب شکار کیا جس پر مقامی لوگوں نے جشن منایا۔
ڈی ایف او وائلڈ لائف رضوان اللہ یوسفزئی کے مطابق رواں سال کایہ تیسرا اور رمبور وادی میں پہلا نان ایکسپورٹ ایبل شکار تھا، جس کی سینگوں کی لمبائی 42 انچ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شکار کے سینگ اور کھال کو باہر نہیں لے جایاجاسکتا۔
چین کا فلپائنی طیاروں پر سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا الزام
گول نیشنل پارک وائلڈ لائف ڈویژن کے ڈی ایف او رضوان اللہ یوسفزئی کی نگرانی میں کالاش وادی میں پہلا نان ایکسپورٹیبل شکار کیا گیا۔ امریکی شکاری جیمز واکر کرافورڈ نے 42 ہزار 500 امریکی ڈالر (تقریباًایک کروڑ 19 لاکھ روپے) ادا کرکے 10 سال کی عمر کے مارخور کا شکار کیا، جس میں مقامی وائلڈ لائف حکام اور کمیونٹی کے نمائندے بھی موجود تھے۔
رضوان اللہ یوسفزئی نے کہا کہ یہ شکار اس علاقے میں کامیاب کنزرویشن کا نتیجہ ہے، جہاں مستقبل میں ایکسپورٹیبل ہنٹنگ پرمٹ بھی جاری کیا جائےگا۔
آئی سی سی چیمپین ٹرافی کا آج لاہور میں پہلا ٹاکرا، آسٹریلیا بمقابلہ انگلینڈ
وہاں کے رہائشی باشندوں نے مقامی روایات کے مطابق شکاری، وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے حکام اور کمیونٹی نمائندوں کا گرمجوشی سے استقبال کیا، اس موقع پر خصوصی جشن کا اہتمام بھی کیا گیا۔ علاقے میں پہلی بار مارخور کے شکار پر کیلاشی مرد اور خواتین نے روایتی ڈانس کرکے خوشی کا اظہار کیا۔
مارخور ایک قسم کا جنگلی بکرا جس کے سینگوں کا طول چار فٹ ہوتا ہے اور یہ گلگت اور کوہِ سلیمان میں پایا جاتا ہے، سانپ کھانا اسے مرغوب ہوتا ہے۔ مارخور کا نام تھوڑا عجیب ہے۔ پشتو اور فارسی زبان میں "مار" کے معنی ہیں سانپ اور " خور" سے مراد ہے کھانے والا یعنی " سانپ کھانے والا جانور"۔ ویسے یہ ایک چرندہ ہے اور سانپ نہیں کھا سکتا۔ اس کی وجہ تسمیہ شاید اس کے بَل دار سینگوں کی سانپ سے مشابہت ہو سکتی ہے یا اس جانور کا سانپوں کو مارنا۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اس کو چبا جاتا ہے اور اس جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہو جاتی ہے۔ لوگ یہ خشک جھاگ ڈھونڈتے ہیں اور اس کو سانپ کے کاٹنے کے علاج میں استعمال کرتے ہیں۔
کاش پٹیل کی ایف بی آئی ڈائریکٹر کے طور پر تصدیق ; سیاسی بندعنوانی کے نئے زمانہ کا آغاز
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: وائلڈ لائف مارخور کا
پڑھیں:
تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘
یہ بھی پڑھیں:
صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘
طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔
مزید پڑھیں:
سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلیج سرخ سعودی عرب لاری