تین ماہ کے تعطل کے بعد نجی افغان ٹی وی چینل بحال
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مارچ 2025ء) صحافتی آزادی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری افغان تنظیم 'افغان جرنلسٹس سینٹر‘ (اے ایف جے سی) کی جانب سے ہفتے کو جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ تقریباﹰ تین ماہ کی معطلی کے بعد کابل میں قائم نجی ٹی وی چینل 'آرزو ٹی وی‘ نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق ایک اور میڈیا ایڈووکیسی گروپ کے سربراہ حجت اللہ مجددی نے بھی کی۔
اے ایف جے سی کے مطابق آرزو ٹی وی کی بحالی کی اجازت افغانستان میں حکمرانطالبان کی نیکی کے فروغ اور بدی کی روک تھام کی سرکردہ وزارت نے دی، جس کے بعد آرزو ٹی وی کے آفس پر لگائی سیل ہٹا دی گئی۔
(جاری ہے)
اے ایف جے سی کے مطابق اس ٹی وی چینل کے سربراہ بصیر عابد نے اسے بتایا کہ ان کے ادارے کے تمام ملازمین کو دوبارہ کام شروع کرنے کی اجازت ہے اور آرزو ٹی وی کی بحالی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی شرائط عائد نہیں کی گئیں۔
اس ٹی وی چینل کو طالبان نے پچھلے سال دسمبر میں بند کر دیا تھا اور ساتھ ہی اس کے سات کارکنوں کو عارضی طور پر گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں تحریری ضمانت پر ان کارکنوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
آرزو ٹی وی کو مبینہ طور پر غیر ملکی ٹی وی چینلوں کے ساتھ تعاون اور ایسے پروگرام نشر کرنے کے الزام میں بند کیا گیا تھا، جو طالبان کے مطابق اسلامی اصولوں کے منافی تھے۔
اے ایف جے سی نے آرزو ٹی وی کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی بندش کو میڈیا کے ایک آزاد ادارے کے حقوق کی ''واضح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی اس تنظیم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طالبان افغانستان میں میڈیا اداروں کو بغیر کسی پابندی اور خطرے کے، آزادی سے کام کرنے کی اجازت دیں۔
کچھ عرصہ قبل طالبان نے خواتین کے ایک ریڈیو اور ایک یوتھ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات کی بحالی کی اجازت بھی دے دی تھی۔ ان دونوں نشریاتی اداروں کو اپنے اپنے لائسنس کے غلط استعمال اور ایسے غیر ملکی میڈیا چینلز کے ساتھ تعاون کے الزام میں معطل کیا گیا تھا، جن پر افغانستان میں پابندی عائد ہے۔
م ا / م م (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اے ایف جے سی ا رزو ٹی ٹی وی چینل کی بحالی کی اجازت گیا تھا
پڑھیں:
چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے، چینی میڈیا
بیجنگ : دنیا کی تاریخ کے طویل سفر میں، بہت سی قدیم تہذیبیں وقت کے ساتھ ختم ہو گئیں یا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئیں، لیکن چین ایک ایسے جہاز کی مانند ہے جو طوفانوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ایک ہی سمت میں سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ چینی قوم کی قومی وحدت پر اسرار ہزاروں سال کی تاریخ اور منفرد ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔ چینی قوم کے قومی تصور کو سمجھنا ایک ضخیم تاریخی کتاب کے صفحات پلٹنے کے مترادف ہے، جس کے ہر صفحے پر “گھر” اور “ملک” کا گہرا رشتہ درج ہے۔
1046 قبل مسیح میں، چو خاندان نے متحد چینی ریاست قائم کی، جس نے “تیئن شیاء” (لفظی معنی ہے آسمان کے نیچے سب کچھ یعنی ملک و قوم) کا تصور متعارف کرایا۔ یہی چینی قوم کے قومی تصور کی بنیاد بنا۔ چو خاندان نے جاگیردارانہ نظام کے ذریعے مختلف قبائل اور علاقوں کو ایک ہی ثقافتی نظام میں شامل کیا، جس نے ” آسمان کے نیچے ساری زمین بادشاہ کی ہے” کے تصور کو جنم دیا۔ بعد میں، اگرچہ چو خاندان انتشار کا شکار ہوا، لیکن طاقتور ریاست چِھین نے دوبارہ اتحاد قائم کیا اور “ایک ہی رسم الخط، ایک ہی پیمائش کا نظام” نافذ کرکے مرکزی حکومت کو مضبوط بنایا جس نے ثقافتی ورثے اور قومی اتحاد کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد، ہان، تھانگ، منگ اور چھنگ جیسے شاہی خاندانوں کے ادوار سے گزرتے ہوئے بھی “چین” ایک ثقافتی و سیاسی اکائی کے طور پر قائم رہا۔ جیسا کہ معروف مورخ چیئن مو نے کہا: “چین کا سیاسی نظام ‘ وحدت ‘ کے تصور پر مبنی ہے، جبکہ مغرب کا نظام ‘کثیرالاطراف’ کے تصور پر قائم ہوا ۔ چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے ، اسی لیے ملک متحد ہے، جبکہ مغرب میں قومی تصور حقوق اور مفادات پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ چینی تاریخ میں سب سے اہم اور بڑا مقصد قومی یکجہتی اور ایک مضبوط متحد ریاست کی تشکیل ہے۔”
چینی قوم کی قومی وحدت پر اسرار اس کے علاقائی خودمختاری کے موقف میں بھی واضح ہے۔ دنیا کی مشہور دیوارِ چین نہ صرف تعمیراتی شاہکار ہے، بلکہ چینی کاشتکاری یا کھیتی باڑی کی تہذیب کی “دفاعی ڈھال” بھی ہے۔ یہ دیوار توسیع پسندی کے لیے نہیں، بلکہ خانہ بدوش حملوں سے دفاع اور اپنے گھر کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ چینی تہذیب کی فطرت کو ظاہر کرتی ہے: دوسری توسیع پسند تہذیبوں کے برعکس، چینی تہذیب اپنی سرحدوں کے اندر کاشتکاری کے ذریعے بقا کو ترجیح دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چینی قوم اپنی زمین سے گہرا جذباتی لگاؤ رکھتی ہے۔ یہ جذبہ “زمین کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری” کے قومی شعور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گھاس کے میدان میں رہتے ہوئے دنیا کو اپنا گھر سمجھنے والے خانہ بدوش لوگوں سے مختلف ، جب بیرونی حملہ آوروں نے چین کی سرحدوں کو خطرے میں ڈالا، تو چینی قوم “ملک تباہ، گھر برباد” کے شدید درد کو محسوس کرتی ہے اور “ملک کی سلامتی ہر فرد کی ذمہ داری” کے نعرے کے ساتھ یک جان ہو کر مقابلہ کرتی رہتی ہے ۔ ہزاروں سال سے، چینی تہذیب نے “اگر کوئی ہمیں نہ چھیڑے، تو ہم کسی کو نہیں چھیڑیں گے؛ لیکن اگر کوئی ہمیں چھیڑے گا، تو ہم ضرور جواب دیں گے” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کا دفاع کیا ہے۔
قومی وحدت کی بات ہو، تو تائیوان کا معاملہ ہر چینی کے دل کا اہم معاملہ ہے۔
تائیوان تاریخی طور پر چین کا اٹوٹ حصہ رہا ہے، لیکن تاریخی وجوہات کی بنا پر ابھی تک تائیوان کی وجہ سے چین کی مکمل وحدت حاصل نہیں ہو سکی ۔ جیسا کہ کچھ چینی انٹرنیٹ صارفین کہتے ہیں: “عوامی جمہوریہ چین کی فوج کا نام ‘پیپلز لبریشن آرمی’ اس لیے برقرار ہے، کیونکہ تائیوان کی مکمل آزادی اور وحدت کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا۔” یہ عوامی تاثر اگرچہ سرکاری تعریف نہیں، لیکن چینی قوم کی وحدت کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جذبہ کسی توسیع پسندانہ خواہش کا نتیجہ نہیں، بلکہ چینی تہذیب کی “اپنی زمین اور گھر کی حفاظت” کی ثقافتی اساس سے جڑا ہوا ہے۔ ہم کسی بالادستی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے ہزاروں سالہ ثقافتی ورثے، اپنے گھر اور قومی بقا کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ ہزاروں سال پرانا قومی تصور چینی قوم کے خون میں رچا بسا ہے۔ چینی قوم کی وحدت کے جذبے کو سمجھ کر ہی چینی تہذیب کے تسلسل کی منطق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں بھی یہ ثقافتی جینز چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کی راہنمائی کر رہا ہے۔
Post Views: 5