امریکا افغانستان سے اپنا جنگی سامان کیوں واپس لینا چاہتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
امریکا کی حکومت افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑے گئے ہتھیاروں کی واپسی پر زور دے رہی ہے جبکہ طالبان ان ہتھیاروں کو مالِ غنیمت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امریکا نے سابقہ حکومت کو دیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان کر دیا
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کی واپسی چاہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (سی پی اے سی) سے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب افغان طالبان اپنی سالانہ پریڈ میں امریکا کے اسلحے اور گاڑیوں کی نمائش کرتے ہیں تو یہ منظر انہیں غصہ دلاتا ہے۔
مبصرین کے مطابق ٹرمپ جب کسی معاملے کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بناتے ہیں تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس معاملے کو بار بار اٹھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلحے کی واپسی یا کوئی ممکنہ راستہ تلاش کرنے کے لیے طالبان سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔
افغانستان کے ’آمو ٹی وی‘ کے سربراہ اور سینیئر صحافی لطف اللہ نجفی زادہ کے مطابق یہ واضح نہیں کہ طالبان اس معاملے پر امریکا سے بات چیت کے لیے تیار ہیں یا نہیں کیوں کہ طالبان اس وقت داخلی تقسیم اور واضح حکمتِ عملی کے فقدان کے چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔
ان ہتھیاروں سے متعلق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ’آر ٹی اے‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ امریکا نے سابق افغان حکومت کو دیے تھے اور طالبان نے انہیں مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ جاری، دہشتگردی میں ملوث ایک اور ہلاک افغان دہشتگرد کی شناخت
ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی صدر کے مشیروں سے متعلق کہا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی ساز و سامان کی موجودگی سے متعلق درست معلومات فراہم کریں۔ یہ معلومات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے انٹرویو میں بگرام ایئربیس پر چین کے اہلکاروں کی موجودگی کے دعوؤں کو بھی مستردکیا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہتھیار سابق افغان حکومت کو دیےتھے اور طالبان اس حکومت کا خاتمہ کرکے افغانستان کی حکمرانی سنبھال چکے ہیں۔ اس لیے وہ تکنیکی طور پر ان ہتھیاروں کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ طالبان کے رہنما اپنے انٹرویوز اور بیانات میں ان ہتھیاروں کو مالِ غنیمت قرار دیتے رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو اپنی طاقت کے اظہار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
کینیڈا میں موجود افغان صحافی لطف اللہ نجفی زادہ کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں جا چکے ہیں جس سے سیکیورٹی خدشات جنم لے رہے ہیں۔
’افغانستان امریکی اسلحہ اور جنگی سامان فروخت کر رہا ہے‘ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کابینہ کے اجلاس کے دوران بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان میں رہ جانے والے فوجی ساز و سامان کی واپسی چاہتے ہیں۔ امریکی صدر نے بائیڈن انتظامیہ پر بھی تنقید کی کہ انہوں نے فوجی انخلا مناسب انداز سے نہیں کیا اور اربوں ڈالر مالیت کا ساز و سامان پیچھے چھوڑ دیا۔
ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان فوجی ساز و سامان فروخت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ وہ امریکی ساز و سامان فروخت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول افغانستان میں رہ جانے والے سامان میں سے 7 لاکھ 77 ہزار رائفلیں اور 70 ہزار گاڑیاں فروخت کی جا رہی ہیں جن میں بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 70 ہزار گاڑیاں ہمارے پاس موجود تھیں اور ہم نے انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہمیں یہ واپس لینی چاہییں۔
امریکی محکمہ دفاع کی 2022 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے اگست 2021 میں امریکی انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑے گئے 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے بیشتر فوجی ساز و سامان پر قبضہ کر لیا تھا۔
اگرچہ امریکی افواج نے انخلا کے دوران زیادہ تر فوجی ساز و سامان کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ تاہم کچھ ہتھیار، گاڑیاں اور دیگر ساز و سامان درست حالت میں بھی طالبان کے ہاتھ آ گیا تھا۔
اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ترکیہ منتقل ہونے والے سینیئر افغان صحافی اور تجزیہ کار صفت اللہ صافی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت کا تاثر جس طرح دیا جا رہا ہے حقیقت اس سے مختلف ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلحے کی اسمگلنگ نہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
صفت اللہ صافی کے مطابق اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں عدم استحکام کی صورتِ حال تھی۔ اسی دوران کچھ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوا۔ لیکن جہاں تک بھاری ہتھیاروں کا تعلق ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان حکومت انہیں فروخت کرنے پر آمادہ ہوگی کیوں کہ انہیں خود سیکیورٹی کے سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ منع کرنے کے باوجود ٹوئٹ کردیا کرتے تھے، سابق مشیر ساجد تارڑ
برطانیہ میں مقیم افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان یہ اسلحہ امریکا کو واپس کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ تاہم مستقبل میں یہی فوجی ساز و سامان خود طالبان حکومت کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔
وائس آف امریکا سے گفتگو میں سمیع یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اس جدید اسلحے اور فوجی آلات کو برقرار رکھنے کے لیے درکارٹیکنیکل مہارت اور وسائل موجود نہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ مستقبل میں امریکا اور طالبان کے درمیان ان فوجی آلات کی دیکھ بھال سے متعلق کوئی بات چیت ہو کیوں کہ اس کے بغیر یہ ساز و سامان ناکارہ ہو سکتا ہے۔
صفت اللہ صافی کے مطابق طالبان نہ صرف ان ہتھیاروں کو اپنے دفاع کے لیے رکھنا چاہتے ہیں بلکہ مزید جدید اسلحہ خریدنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے تاکہ خود کو عسکری طور پر مضبوط کر سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد 70 کی دہائی کے بعد سے اسلحے کی ایک بڑی منڈی رہی ہے اور آج بھی وہاں اسلحے کی اسمگلنگ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان میں امریکی اسلحہ امریکا ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان میں امریکی اسلحہ امریکا ڈونلڈ ٹرمپ فوجی ساز و سامان ان ہتھیاروں کو افغانستان میں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکی طالبان کے کہ طالبان اسلحے کی کی واپسی کے مطابق حکومت کے رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
ممبئی(شوبز ڈیسک) بھارتی ٹی وی کی مشہور اداکارہ دیشا وکانی نےمعروف ڈرامہ ”تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ“ میں دیا بین کا یادگار کردار نبھایا تھا لیکن وہ پچھلے سات سال سے شو سے غائب ہیں۔ان کے چہرے کے شرارتی تاثرات، منفرد لہجہ، دلچسپ گیربا ڈانس اور زبردست کامیڈی ٹائمنگ نے انہیں لاکھوں مداحوں کے دلوں میں بسا دیا۔
مداح کئی سالوں سے دیا بین کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب ان کے بھائی اور شو میں بھی ان کے بھائی کا کردار نبھانے والے اداکار مایور وکانی (سندر لال) نے خاموشی توڑ دی ہے اور بتایا ہے کہ دیشا اب اس ڈرامے میں واپس نہیں آئیں گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مایور وکانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ،’میں دیشا سے دو سال بڑا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ اس نے کتنی محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ اسی لیے لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں۔ اب وہ اپنی فیملی کو وقت دے رہی ہیں اور اسی کردار کو پوری لگن سے نبھا رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے والد ہمیشہ سکھاتے تھے کہ زندگی میں بھی ہم اداکار ہی ہیں اور جو بھی کردار ملے، اسے دیانتداری سے نبھانا چاہیے۔ دیشا اب حقیقی زندگی میں ماں کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اسے بھی اسی لگن اور محنت سے نبھا رہی ہیں جس طرح وہ اداکاری کرتی تھیں۔‘
مایور نے مزید بتایا کہ ان کے والد ہی نے دیشا کو بچپن سے اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ’میں نے دیشا کی پہلی اسٹیج پرفارمنس دیکھی تھی جب وہ صرف پانچ سال کی تھیں اور بچوں کے شِبِر میں 90 سالہ خاتون کا کردار نبھا کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ تب ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اندر کچھ خاص ہے۔‘
مایور کا کہنا تھا کہ دیشا نے دیا بین کا کردار ایسے نبھایا کہ وہ گھر گھر کی پہچان بن گئیں اور ان کے والد کے لیے یہ کسی خواب کی تکمیل جیسا لمحہ تھا۔ لیکن اب دیشا سمجھتی ہیں کہ ماں کا کردار ان کی زندگی کا سب سے قیمتی کردار ہے۔
دیشا وکانی 2018 میں زچگی کی چھٹی پر گئی تھیں اور اس کے بعد واپس نہیں آئیں۔ شو کے پروڈیوسر اسِت مودی نے بھی مان لیا ہے کہ اب ان کے لیے شو میں واپس آنا مشکل ہے کیونکہ شادی کے بعد خواتین کی زندگی بدل جاتی ہے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ شوٹنگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیشا واپس نہ آئیں تو انہیں کسی اور اداکارہ کو دیا بین کے کردار کے لیے لینا پڑے گا۔
اگرچہ دیشا وکانی کی غیر موجودگی مداحوں کو محسوس ہوتی ہے، لیکن تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ اب بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔
یہ شو 17 سال سے نشر ہو رہا ہے اور اب تک 4500 سے زائد اقساط مکمل کر چکا ہے۔
اب کہانی صرف ایک کردار پر نہیں بلکہ گوکلدھم سوسائٹی کے تمام رہائشیوں کی زندگیوں اور مسائل کے گرد بھی گھومتی ہے جو ڈرامہ کو نیا رنگ اور تازگی بخش رہا ہے۔
Post Views: 5