اسلام قبول کرنے سے زندگی بدل گئی، محمد یوسف
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)محمد یوسف جو اسلام قبول کرنے سے پہلے یوسف یوحنا کے نام سے جانے جاتے تھے، ایک مایہ ناز سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کی قوم کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ہیں، انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 24 سنچریاں اور ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سنچریاں کررکھی ہیں۔
وہ اپنے کیریئر میں غیرمعمولی کارکردگی کے ساتھ ہمیشہ صاف ستھرے کردار کے حامل تھے، انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کیا ہے اور وہ ہمیشہ ان کھلاڑیوں کے بارے میں مثبت بات کرتے رہتے ہیں جو اب کھیل رہے ہیں یا ریٹائر ہوچکے ہیں۔
محمد یوسف اپنی ذاتی زندگی میں بڑی تبدیلی سے گزرے ہیں، انہوں نے اسلام قبول کیا جب وہ اپنے کیریئر کے عروج پر تھے اور تب سے وہ تبلیغ سے وابستہ رہے اور داڑھی بھی رکھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کی۔
محمد یوسف کے مطابق صرف ایک کام سے ان کی زندگی بدل گئی اور وہ اسلام قبول کرنا تھا، اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی وہ اتنے سارے ریکارڈ بنانے میں کامیاب رہے۔ محمد یوسف کے مطابق اسلام کی طرف ان کا سفر اور اسلامی اصولوں کے مطابق داڑھی رکھنے کا فیصلہ بڑے عوامل تھے۔
مزیدپڑھیں:بانی پی ٹی آئی نے پشاور اسٹیڈیم کا منسوب نام واپس کرنے کی ہدایت کردی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلام قبول محمد یوسف کے مطابق
پڑھیں:
ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے پنجاب حکومت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے کروانے کا فیصلہ دراصل عمران خان کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش ہے، اور ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے واضح کیا کہ عمران خان کو اس وقت براہ راست عدالت میں پیش نہ کرنا ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان کی آواز کو دبانا ہے۔
عمران خان کو گولیاں لگیں، تب بھی وہ عدالت آنے پر مصر تھے
انہوں نے یاد دلایا کہ جب عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخموں سے چور تھے، اس وقت بھی انہوں نے ویڈیو لنک کے بجائے عدالت میں بنفسِ نفیس پیش ہونے کو ترجیح دی۔
علیمہ خان نے سوال اٹھایا کہ اگر اُس وقت ویڈیو لنک کی اجازت نہیں دی گئی تو آج ایسا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ “اب ایسا کسی صورت ہونے نہیں دیں گے۔ عمران خان کو عدالت میں پیش کیا جائے، ویڈیو لنک قابلِ قبول نہیں۔”
وکلاء سے مشاورت کیسے ہو گی جب وہ جیل میں ہوں گے؟
علیمہ خان نے ویڈیو لنک ٹرائل کے قانونی اور انسانی پہلو پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کے مطابق، جب عمران خان عدالت میں موجود نہیں ہوں گے تو وہ اپنے وکلاء سے براہ راست مشورہ کیسے کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل کا بنیادی مقصد عمران خان کو قانونی، سیاسی اور ذاتی طور پر مکمل آئسولیٹ کرنا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم پر تحفظات
علیمہ خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے تحت جیلوں میں ٹرائل کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ ترمیم صرف عمران خان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، لیکن کل کو کوئی بھی شہری اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ وکلاء برادری کو متحد ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔”
جیل ٹرائل کا مقصد فیملی اور قانونی ٹیم سے دوری ہے
انہوں نے کہا کہ جیل میں ہونے والے ٹرائلز کے باعث اہلِ خانہ اور وکلاء کو عمران خان سے براہ راست ملاقات کا موقع بھی نہیں ملتا۔
انہوں نے کہاکہ توشہ خانہ کیس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کو مکمل آئسولیشن میں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے، تاکہ وہ نہ کسی سے بات کر سکیں اور نہ ہی کسی کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر سکیں۔”
انڈہ پھینکنے کے واقعے پر برہمی
علیمہ خان نے ان پر انڈہ پھینکنے کے واقعے پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کارکنوں نے ان خواتین کو پولیس کے حوالے کیا، لیکن اعلیٰ سطح سے احکامات آتے ہی انہیں چھوڑ دیا گیا۔ کل وہی خاتون دوبارہ آئی اور پتھر پھینکا — اگر یہی روش جاری رہی تو کل گولی بھی چل سکتی ہے۔
انہوں نے سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔