Daily Ausaf:
2025-08-05@09:33:43 GMT

شہرِ خموشاں کی خبریں

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

پاکستان اور پھر لندن میں عرصہ دراز تک جرنلزم سے منسلک رہنے والے ہمارے ساتھی وقار زیدی پچھلے سال جوانی میں ہی سب کو چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا بیوہ سمیت چھوٹے چھوٹے تین بچے رہ گئے ہیں جنازے اور تدفین پر جہاں عزیز واقارب آئے وہاں صحافیوں کی بھی خاصی تعداد نے شمولیت اختیار کی میرے نزدیک صحافی ہی صحافیوں کی برداری ہوتے ہیں جنہیں خوشی اور غمی میں اپنے ساتھیوں کی ایسے موقعوں پر سب سے پہلے بڑھ چڑھ کر مدد کرنی چاہیئے۔ برطانیہ میں ایک میت کی مقامی قبرستان میں تدفین کے لئے ایک اندازے کے مطابق تین ہزار پونڈز یا تقریباً دس لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے اور جو لوگ پاکستان میں میت لے کر جاتے ہیں میت کو کارگو کرنے میں بھی تقریباً 12 سو پونڈز کے حساب سے خرچ ہوتے ہیں جبکہ میت کے ساتھ جانے والے فیملی کے افراد کے ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی قیمتیں الگ ادا کرنی ہوتی ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین جب تین ماہ کے لئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے اورسیزز پاکستانیوں کو یہ سہولت فراہم کی تھی کہ پی آئی اے تارکین وطن کی میت فری میں پاکستان لے جائے گی۔وقار زیدی کی تدفین کے دوران لندن کے نواحی ٹاون (Rickmansworth) کے ایک قبرستان میں قبروں کی دیکھ بھال کا معیار بھی برطانیہ کے دیگر شہروں کے قبرستانوں کی طرح صفائی ستھرائی کے اعلی کے انتظامات قابلِ رشک تھے خوبصورت پھولوں اور درختوں کے درمیان یہاں مکینوں کے ناموں کے کتبے آویزاں ہیں جو لوکل گورنمنٹ کی جانب سے مستقل طور پر ملازمین کل وقتی قبرستان کی دیکھ بحال کے لئے مامور ہیں برطانیہ میں ہر قبر اور یہاں مدفون افراد کا ایک ڈیٹا بیس موجود ہوتا ہے کوئی اجنبی ناواقف اگر فوت ہونے والے اپنے کسی دوست یا عزیز کی قبر تلاش کرنا چاہے تو انتظامیہ کی مدد سے یا قبرستان کا نقشہ دیکھ کر اس کی قبر تک پہنچ سکتا ہے۔
خیر وقار زیدی کی تدفین کے دوران ہمارے جرنلسٹ دوست رضا سید نے ہمیں اسی قبرستان میں چند قدموں کے فاصلے پر ممتاز فلم اداکارہ و فنکارہ شمیم آرا ء بیگم کی قبر بھی دکھائی جن کا دسمبر 2016 ء میں لندن میں انتقال ہو گیا تھا ہم نے ان کی مغفرت کے لئے دعا کی اور اندازہ لگایا کہ شاید ان کے یہاں دفن ہونے کے بعد ان کا کوئی مداح تو درکنار ان کا کوئی عزیز بھی وہاں شاید نہیں گیا ہوگا۔ایک سبق ان پاکستانیوں کے لئے بھی ہے جو ہمیشہ بضد ہوتے ہیں اور وصیت چھوڑ کر جاتے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد پاکستان میں جاکر فلاں کے پہلو میں دفنایا جائے حالانکہ فوت ہونے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان کہاں دفن ہو ساری زمین اللہ تعالی کی ہے اور سزا اور جزا میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کہاں کس ملک میں دفن ہے ورثا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو بہتر ہو وہ فیصلہ کریں یہاں میں دو سال قبل فروری میں اپنے ساتھی اور سینئر صحافی مبین چوہدری کی میت لے کر جب لاہور ان کی فیملی کے ہمراہ گیا تو لاہور شہر میں جس قبرستان میں مرحوم مبین چوہدری کی تدفین ہوئی وہاں تو ہر طرف یہ صاف نظر آرہا تھا کہ قبروں پر قبریں بنائی گی ہیں تدفین کے وقت ہر کوئی دوسرے کو یہ کہہ رہا تھا کہ دھیان سے تمہارے پائو ں کے نیچے قبر ہے جبکہ ٹوٹی پھوٹی قبریں عام تھیں کتے ‘چیلیں اور گدھ قبرستان کے احاطہ میں موجود تھیں جبکہ آوارہ لونڈے لپاڑے نشی بھی آگے پیچھے نظر آرہے تھے لاہور شہر میں ہائوسنگ سوسائٹیاں اتنی بن رہی ہیں کہ افسوس قبرستانوں کے لئے جگہہ بھی نہیں بچی۔ البتہ آرمی کے قبرستان صاف ستھرے ہیں۔ ہمارے ملک کے قبرستانوں میں یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ بچوں کی گمنام قبریں ہوتی ہیں جبکہ برطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔
ہم بھائیوں نے 2004 سے قبرستان کے لئے ایک کنال جگہ راولپنڈی شہر میں لے رکھی ہے جہاں میری والدہ اور دو بھائیوں کی قبریں ہیں لیکن ہماری جگہ پر گزشتہ سال تک 11 اور قبریں بن گئی ہیں اللہ معاف کرے کسی کو کیسے اپنے پیاروں کو دفنانے سے منع کیا جائے۔جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو اپنے قبرستان میں اپنی ماں اور بھائیوں کی یاد اور دعا کے لئے حاضری دیتا ہوں لیکن یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ارد گرد کے قبرستانوں پر آوارہ کتے اور جانورگھوم رہے ہوتے ہیں اکثر شہروں کے قبرستانوں میں چرسی پائوڈری نظر آتے ہیں جبکہ گٹر اور نالوں کا پانی بھی بعض جگہوں پر قبروں کو نقصان پہنچاتا ہے-
آج کل یہ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ قبرستان میں مردوں کی تدفین کے بعد اذان دی جاتی ہے جس کا مجھے کوئی شرعی طور پر ثبوت نہیں ملا دوسرا یہ کہ قبرستانوں پر لائوڈ سپیکروں پر قران مجید کی تلاوت کی ریکارڈنگ سنائی دیتی ہے اس میں کیا حکمت ہے میری سمجھ سے باہر ہے جبکہ قرآن مجید کو قبروں کے پاس رکھ دیا جاتا ہے میرے نزدیک یہ بھی اللہ کی کتاب کی بے حرمتی کے زمرے میں آتا ہے۔ قران مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ضابطہ حیات ہے جس کو پڑھ کر اس پر عملدرآمد کرکے ہم اپنی زندگیاں گزار سکتے ہیں اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم سب نے مر جانا ہے اور مر جانے کے بعد اپنے اعمال ہمارے ساتھ جائیں گے میں اس اختلافی مسئلے کو بھی زیر بحث نہیں لانا چاہتا کہ قبروں پکی نہیں ہونی چاہیئے نام کے کتبے ہونے چاہیئے یا نہیں میرے لئے یہ اہم ہے کہ ہم زندگی میں تو اپنے والدین‘ بہن بھائیوں‘ اولاد اور دوستوں سے بہت کچھ تقاضا کرتے ہیں تو ان کے مرنے کے بعد ان کی آخری آرام گاہ کی عزت و توقیر کے تو پہرے دار بنیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے قبرستانوں قبرستان میں کے قبرستان ہوتے ہیں تدفین کے کی تدفین کے لئے کے بعد کی قبر

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
کچھ اس طرح سے وہ حجت تمام کرتے ہیں
بریدہ سر کو بھی جھک کر سلام کرتے ہیں
کبھی تو گھر میں خموشی کا راج ہوتا ہے
کبھی کبھی سبھی کھل کر کلام کرتے ہیں
بقایا جتنی رعایا ہے خیر مانگتی ہے
بغاوتوں کے اشارے غلام کرتے ہیں
ہمارے اپنے مسائل ہیں جس وجہ سے میاں
تری طلب کے تقاضے تمام کرتے ہیں
کبھی جو دل ہو تو آنا تمہیں دکھائیں گے
فقیر کیسے کوئی اہتمام کرتے ہیں
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

غزل
ہر طرف ہجر کی خوشبو سی مسلسل ہے میاں 
باغ میں خوف سے لگتا ہے کہ جنگل ہے میاں 
بے بہا اپنی محبت کو جتانے والے!
یہ علاقہ تو مری آنکھ سے جل تھل ہے میاں 
آنکھ میں اشک ہیں چہرے پہ اداسی کے نشاں
اب بتاؤکہ مرا ہجر مکمل ہے میاں 
باغ اور دشت دکھائی تمہیں دیں گے، لیکن
میرے اندر کوئی دریا ہے نہ بادل ہے میاں 
اس کی تصویر دکھانے کے لیے آیا ہوں 
وہی منظر جو تری آنکھ سے اوجھل ہے میاں 
مجھ کو یہ بات مرے دل نے بتائی ہے سعیدؔ 
زندگی، موت کی بیکار سی دلدل ہے میاں 
(مبشر سعید۔ ملتان)

غزل
لذتِ لمس میں بدلاؤ نہیں بنتا تھا 
وصل کی رات تھی ٹھہراؤ نہیں بنتا تھا
جن کو آنے پہ بہت پھول دیے تھے تم نے 
انکے جانے پہ بھی پتھراؤ نہیں بنتا تھا
یہ سخاوت تھی کہ ہم چھو تو سکے تھے اسکو 
ورنہ آنکھوں کا کوئی بھاؤ نہیں بنتا تھا
ہم اگر نرم رویے کے نہیں تھے قابل 
اس قدر تلخ بھی برتاؤ نہیں بنتا تھا 
میں نے دریا تجھے بخشی تھیں زمینیں اپنی 
میرے گھر تک ترا پھیلاؤ نہیں بنتا تھا
جانے کیا راز تھا تم مجھ سے ملے تھے عابد
پھول کا سنگ سے ٹکراؤ نہیں بنتا تھا
(علی عابد۔ بھکر)

غزل
یہ تتلیوں، خوشبوؤں، گلابوں کے استعارے نہیں ملیں گے
کہیں بھی تم کو محبتوں کے یہ شاہ پارے نہیں ملیں گے
خدا نے ہم کو بنا کے شاید یہی مقدر میں لکھ دیا تھا
سہارا سب کا بنیں گے لیکن ہمیں سہارے نہیں ملیں گے
یہ بارشوں کا عجیب موسم ہمارے اندر اتر رہا ہے
ملے گی رم جھم پر آسمانوں پہ ابر پارے نہیں ملیں گے
جو دل یہ چاہے تو حسبِ توفیق اپنا غصہ نکال لینا
ہمارے ہونٹوں پہ کوئی شکوے تمہارے بارے نہیں ملیں گے
نہ جانے کیونکر یہ دونوں اک ساتھ ایک مدت سے چل رہے ہیں
اگرچہ ان کو خبر بھی ہے کہ یہ دو کنارے نہیں ملیں گے
وہ جن کے آتے ہی پانیوں میں مچلنے لگتا تھا چاند خود بھی
تمہیں کبھی اب وہ دونوں سائے ندی کنارے نہیں ملیں گے
(ڈاکٹر اظہر کمال خان۔ پاکپتن شریف)

غزل
زخم جو بھی ملتے ہیں 
خامشی سے سہتے ہیں 
اس کو دیکھنا ہو جب 
چاند کو ہی تکتے ہیں 
دور دور رہنے سے 
فاصلے سلگتے ہیں 
اس کی یاد کے تارے 
رات میں نکلتے ہیں 
ہے جو بے خبر ہم سے 
ہم اسی پہ مرتے ہیں 
کچھ نہیں وفا عامرؔ  
لوگ بھی بدلتے ہیں 
 (محمد عامر نوری۔پبی، نوشہرہ)

غزل
اب اس قدر بھی میسر نہیں کسی کے لئے
زرا سا وقت غنیمت ہے شاعری کے لئے 
ہر ایک سمت اداسی کلام کرتی ہے
تو گویا شور ضروری ہے خامشی کے لئے
حسین نور تھے اور نور نے چمکنا تھا
وجود شام ضروری تھا روشنی کے لئے 
مرے لہو میں سخاوت ہے میرے پرکھوں کی
میں تجھ سے بھیک نہ مانگوں گا زندگی کے لئے
تمہارا عشق مرے درد کی کہانی ہے
یہ ابتدا بھی ملی مجھ کو آخری کے لئے
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)

غزل
میں عزت اس لیے اس پیڑ کی نہیں کرتا 
کبھی وہ کرتا ہے سایہ کبھی نہیں کرتا 
لگاتا ہوگا کسی کو گلے محبت سے 
ہمارے ساتھ تو وہ بات بھی نہیں کرتا 
کسی کسی کو ہی دیتا ہے لمس کی حدت 
ہر ایک سوٹ کو وہ استری نہیں کرتا 
اداس رہتا ہوں ہفتے کے ساتوں دن مرے دوست 
میں اپنے کام سے چھٹی کبھی نہیں کرتا 
میں اور کام بھی لیتا ہوں مہرفام ؔاس سے 
مرا چراغ فقط روشنی نہیں کرتا
(مہر فام۔ میانوالی)

غزل
گاؤں کے لوگ شہر میں بسنے کو آگئے
شاید کوئی مزہ تھا جو چکھنے کو آگئے
پالا تھا آستین میں یاروں کو پیار سے
موقع ملا انھیں تو وہ ڈسنے کو آگئے
اک یاد کا عذاب کہ سر سے ٹلا نہیں
پتھر پہ اپنے سر کو پٹخنے کو آگئے
شیشے نے اپنا کام دیانت سے تھا کیا
بد شکل لوگ اس سے الجھنے کو آگئے
دنیا ہے اک شراب اثر دار ہے بہت
تھوڑی سی پی کے ہم تو بہکنے کو آگئے
منزل تھی خوش نصیب کی آمد کی منتظر
منزل سے پہلے رہ کو بدلنے کو آگئے
تحسین جان حق پہ لٹانے کے واسطے
لو ہم کفن لپیٹ کے لڑنے کو آگئے
(سید تحسین عباس گوہر۔ اوچ شریف)

غزل
مری نگاہ میں تیرا کوئی جواب نہیں 
کسی کے خواب نہ دیکھوں جو تیرے خواب نہیں 
نگاہ شوق سے شکوہ نہیں کوئی بھی مجھے 
تمہارے حسن کی واللہ کوئی تاب نہیں 
اگر چہ ننگ کا باعث ہے بے لباسی مری
مگر کرم ہے خدا کا کہ بے حجاب نہیں 
پلک جھپکنا اوائل میں مجھ کو لگتا تھا 
 کہ یہ عذاب بھی ایسا کوئی عذاب نہیں 
تمہیں تو خیر کبھی بھی نہ تھا مگر اس بار 
بچھڑنے والے مجھے بھی کچھ اضطراب نہیں 
اسی کو رتبہ ملا ہے جو ہاتھ آیا نہیں 
وہ ہر جگہ ہے کہیں بھی جو دستیاب نہیں 
نگاہ بھر کے اسے دیکھ بھی نہیں سکتے 
کہ آفتاب کبھی مثل ماہتاب نہیں 
کسی کو ہم سے اگر ہو تو ایلیائی ہو 
ہمیں کسی سے کسی طور اجتناب نہیں
(احمد فراز ایلیائی۔ جھنگ)

غزل
رحمتِ حق جو اک گھڑی نہ رہے
پھر تو کوئی ولی، ولی نہ رہے
شیخ کے بس میں ہی نہیں ورنہ
ایک بھی شخص جنّتی نہ رہے
آپ دیکھیں جو تلخیاں کچھ دن
پھول چہرے پہ تازگی نہ رہے
ہم کہاں جا کے چین ڈھونڈیں گے
گر مقدّر میں وہ گلی نہ رہے
یہ تو شیطان کی تمنّا ہے
کوئی دنیا میں متّقی نہ رہے
جس نے مارا ہے پیاس سے مضطرؔ
اُس کے حصّے میں تشنگی نہ رہے
(فیصل مضطر۔چڑہوئی، آزاد کشمیر)

غزل
سورج نکلا صبح ہوئی ہے
دھوپ زمیں پر پھیل رہی ہے
رخسارِ گل پر پڑی شبنم
پھر نیلم کی سی چمکی ہے
شاخِ سرسوں آج صبا سے
کیسے جھک کر دیکھ ملی ہے
چھوڑ نشیمن نکلے طائر
دہقاں کی بھی دوڑ لگی ہے
ابا پانی بھر کر لائے
امّاں آٹا گوند رہی ہے
اٹھ جا ،اٹھ جا ،اٹھ جا احمدؔ
دن آیا ہے رات گئی ہے
(فراز احمد فراز۔ کنجروڑ، نارووال)

غزل
صحرا مزاج صرف یہاں کیکٹس نہیں 
دل بھی کھلا ہمارا برس ہا برس نہیں
پینا پڑے گا دوست اِسے پھونک پھونک کر
یہ عشق گرم دودھ ہے گنے کا رس نہیں
ظالم نے اس کو ترس ہی باندھا ہے سب جگہ
اُس کو کبھی بھی آیا ترس پر ترس نہیں
وہ تیس کے قریب جنم دن منا چکی 
عمر اس کی پوچھیے تو اٹھارہ برس نہیں
الجبرۂ حیات نہیں دل سے پڑھ سکا 
اس میں مرا گریڈ تبھی اے پلس نہیں
اب کارِ دلبری میں بھی پہلے مزے کہاں 
سنتا ہوں ایک ہاں کے لیے آٹھ دس نہیں 
(احمد زوہیب۔ کراچی)

تیرہ 
جو میسر ہے اُسی شے کی ضرورت کم ہے
حسن والوں کی مرے شہر میں عزت کم ہے
میں نے جو جرم کیا ہے وہ مرے اندر ہے
اور وہ جرم بتانے کی بھی ہمت کم ہے
اُس جگہ بولنا معیوب سا لگتا ہے مجھے
جس جگہ پر بھی مری بات کی وقعت کم ہے
سات لوگوں کی کفالت مرے سر ہے شافی
کمسنی میں مجھے جینے کی اجازت کم ہے
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو انسانی حقوق کا قبرستان بنا دیا‘ محسن نقوی
  • واہ کیا بات ہے!
  • کوچۂ سخن
  • نیویارک: مسلم پولیس افسر کی تدفین میں حجاب پہننے پر سیاسی ہنگامہ
  • اپنی دوست کے شوہر سے شادی رچانے والی اداکارہ کی طلاق کی خبریں گرم
  • غزہ :بچوں اور بھوکوں کا قبرستان
  • وزیر اعظم کے کزن کی نماز جنازہ و تدفین
  • راولپنڈی: شادی شدہ خاتون کو قتل کر کے لاش قبرستان لانے کی ویڈیو سامنے آ گئی
  • خیال رکھنا…
  • بھارتی میڈیا کے غیر ذمہ دار رویّے کی بناء پر ملک کی عالمی ساکھ متاثر ہورہی ہے، مولانا کلب جواد نقوی