رمضان المبارک اور قرآن مجیدکا باہمی ربط
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
رمضان المبارک اور قرآن پاک کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں لوگوں کی ہدایت کے لیے اور حق و باطل میں فرق کرنے والے اور ہدایت و راہ نمائی کی واضح نشانیوں کے طور پر قرآن کو نازل کیا۔
چناںچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن پاک کو نازل کیا گیا لوگوں کی ہدایت کے لیے (سورۃ بقرہ) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ ہم نے اس (قرآن) کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ، اور ایک مقام پر فرمایا: ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ تو اس طرح یہ مہینہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے کیوںکہ شب قدر بھی رمضان ہی کے مہینے میں ہے۔
مسلمان اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے ہیں نمازتراویح میں قرآن پاک سنا اور سنایا جاتا ہے دونوں کی برکتوں سے مسلمان لطف اندوز ہوتے ہیں اور رب کی رحمتوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ ہر سال رمضان المبارک میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ہر رات قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ امام بخاریؒ وغیرہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ سخی رمضان میں اس وقت ہوتے جب جبرائیل ؑ آپﷺ سے ملاقات کرتے اور وہ آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کرتے تھے، چناںچہ آپ ان پر قرآن پڑھتے تھے اور اس وقت چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔
(صحیح البخاری: 4/137، کتاب بد اء لخلق)
رمضان میں آپ ﷺکا قرآن کے ساتھ اعتنا بڑھ جاتا تھا۔ قرآن کریم اور رمضان المبارک کی مناسبت یہ بھی ہے کہ جس طرح اس ماہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا اسی طرح مسلمانوں پر اس ماہ کے روزے فرض کیے گئے، ارشاد الٰہی ہے: جو اس ماہ میں گھر پر موجود رہے وہ اس کا روزہ رکھے۔ (البقرہ)
رسول اللّہ ﷺ کا ارشاد ہے، قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لیے سفارش کریں گے ، روزہ کہے گا: اے پروردگار میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوتوں سے روک دیا تھا، لہٰذا میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما ، اور قرآن کہے گا: میں نے اسے رات میں سونے سے روک دیا تھا، اس واسطے میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، چناںچہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (رواہ حمد: 2/174، شعب الایمان :3/378)
اس لیے اس مبارک ماہ میں قرآن کی تلاوت ، سمع اور دروس وغیرہ کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، قرآن کریم تو وہ مقدس کتاب ہے جس کی تلاوت ہر اعتبار سے اجر وثواب اور خیر و برکت کا باعث ہے۔
حضرت عبداللّہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا: (جس نے) قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے، اور نیکی کو اس کے دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اس طرح قرآن کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں، میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے، اس طرح صرف الم پڑھنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔
قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے جس کے پڑھنے اور پڑھانے والے کو زبان رسالت سے بندوں میں سب سے اچھا ہونے کی سند ملی، ارشاد نبوی ہے: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (صحیح البخاری: 6/236) تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
یہ وہ مقدس کتاب ہے جس کے درس کی مجلس میں شرکت کرنے والوں پر سکینت کا نزول ہوتا ہے، انہیں فرشتے چاروں طرف سے اپنے گھیرے اور جھرمٹ میں لے لیتے ہیں، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، اور ان کا ذکر خیر اللّہ جل شانہ اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جب بھی کچھ لوگ اللّہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھا ہوکر کتاب اللّہ کی تلاوت کرتے ہیں، آپس میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں، ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے، انہیں رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور ان کا تذکرہ اللٰہ اپنے پاس کے فرشتوں میں فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم: 8/71۔سنن ابی داؤد:544،1)
قرآن اللّہ کی وہ پاکیزہ کتاب ہے جس کے اندر ایسی کشش ہے کہ اگر اس کی بلند اور اچھی آواز میں تلاوت کی جائے تو فرشتے اس کے سماع کے لیے بالکل قریب آجاتے ہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت اسید بن حضیرؓ سے مروی ہے کہ وہ رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے، ان کا گھوڑا ان کے قریب ہی بندھا ہوا تھا، تھوڑی دیر میں گھوڑا گھومنے اور چکر لگانے لگا تو میں نے پڑھنا بند کردیا، گھوڑا بھی پُرسکون ہوگیا تو میں پھر پڑھنے لگا، اس سے گھوڑا پھر بدکنے اور کھونٹے کے اردگرد گھومنے لگا، چناںچہ میں نے پڑھنا بند کردیا اور گھوڑا بھی پرسکون ہوگیا، اس کے بعد پھر پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا پھر بدکنے لگا جس سے مجبور ہوکر میں نے پڑھنا بند کردیا، کیوںکہ میرا لڑکا یحییٰ قریب میں لیٹا تھا اور میں ڈرا کہ وہ کچلا نہ جائے اور اس کو کوئی تکلیف نہ لاحق ہوجائے، جب صبح صادق ہوئی تو میں نے یہ واقعہ رسول اللّہ ﷺ سے بیان کیا، آپ نے فرمایا: اے ابن حضیر! تمہیں اپنی قرأت جاری رکھنی چاہیے۔
ابن حضیر تمہیں قرآن پڑھتے رہنا چاہیے۔ میں نے کہا: اے اللّہ کے رسول (ﷺ)! مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یحییٰ کچل نہ جائے، وہ اس کے قریب ہی تھا، پھر میں نے سر اوپر کی طرف اٹھایا اور اس کی طرف متوجہ ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ایک چیز سائے کی طرح ہے جس میں چراغوں کی طرح قمقمے ہیں، پھر میں باہر نکل کر دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو وہ کیا تھا؟ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت کی آواز سننے کے لیے قریب آگئے تھے، اگر تم قرآن پڑھتے رہتے تو صبح لوگ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے، اور وہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہوتے۔ (رواہ البخاری: 6/234،)
قرآن وہ بابرکت کتاب ہے کہ اس کو مہارت سے پڑھنے والے قیامت کے روز معزز فرشتوں کے ساتھ ہوں گے، اور اٹک اٹک کر پڑھنے والوں کے لیے دو ثواب ہیں۔ حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن کا ماہر نیک او معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا، اور جو قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے اس کے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہے اس کے لیے دو اجر ہیں ۔ (رواہ البخاری:6/206،ومسلم:2/195،)
قرآن والوں کو قیامت کے دن کہا جائے گا: قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی سیڑھیوں پر چڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہاری منزل ہوگی۔ اس طرح ہر مسلمان کو اس کے (قرآن کے) یاد رکھنے اور ترتیل کے ساتھ پڑھنے کے اعتبار سے جنت میں اعلٰی مقام ملے گا۔
حضرت عبداللّہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن والے سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور اسی طرح ترتیل سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے دنیا میں پڑھا کرتا تھا، کیوںکہ تیری منزل اس جگہ ہوگی جہاں تو آخری آیت پڑھے گا۔
قرآن کبھی کبھی دوسرے سے بھی سننا چاہیے، جس کی قرأت اچھی ہو اور آواز بھی خوب صورت ہو اور اس کے معانی و مطالب پر غور کرنا ور عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ حضرت عبد اللّہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا: مجھے قرآن پڑھ کر سنا، میں نے کہا: میں آپ پر قرآن پڑھوں حالاںکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ایسی بات نہیں، میری خواہش ہے کہ کسی دوسرے سے قرآن سنوں، چناںچہ میں نے سورۃ النسا پڑھنا شروع کی، یہاں تک کہ میں جب آیت کریمہ: فکیف اِذا جِئنا الخ (وہ وقت کیسے ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے) کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا: بس کرو ، میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار ہیں۔ (صحیح البخاری: 6/243، صحیح مسلم: 2/195)
بہرحال قرآن کریم ہر اعتبار سے بہت ہی بابرکت کتاب ہے، اسے اللّہ تعالٰی نے سیدالاولین و الآخرین خاتم الانبیا والمرسلین حضرت محمد ﷺ پر سید الملائکہ حضرت جبرائیلؑؑ کے واسطے سے نازل فرمایا، اور جس شہر میں اس کی نزول کی ابتدا ہوئی اسے ام القریٰ (تمام بستیوں کی ماں) اور جس امت کے لیے اس کا نزول ہوا اسے خیرالامم کا شرف عطا فرمایا، اور اس کے نزول کے لیے رمضان المبارک جیسے مقدس و محترم مہینے اور شب قدر جیسی بابرکت و فضیلت والی رات کا انتخاب فرمایا۔
قارئین کرام! اس کتاب کی قدر منزلت کو پہچانیں، اس کے حقوق کو سمجھیں، اور خاص طور سے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی طرح اس کی نمازوخارج نماز، ہر طرح بکثرت تلاوت پر توجہ دیں، اور اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیں، خود پڑھیں اور اپنے بیوی بچوں کو پڑھنے کے لیے کہیں، مساجد میں اس کی تلاوت اور درس کا اہتمام کریں، اللّہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس انداز میں پڑھیں کہ شاید کہ زندگی کی آخری تلاوت ہو، آخری تراویح ہو، آخری نماز ہو، اللّہ پاک اس مبارک کتاب اور مبارک ماہ کی برکات ہمیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک ہ ﷺ نے فرمایا آپ نے فرمایا قرآن پڑھتے ایک حرف ہے کتاب ہے جس مہینے میں قرا ن پاک کی تلاوت نازل کیا کا نزول کے ساتھ کے لیے اور اس
پڑھیں:
خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔
جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)
’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)
نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘
یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔
’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(سورۃ الشوریٰ 42:40)
معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔
’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘
(سورۃ النور 24:22)
جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔
جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)
ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)
انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔
غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔
رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔
ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔
اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔
ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔
(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)