میو ہسپتال انجکشن ری ایکشن معاملہ‘ ایک اور مریض جاں بحق‘ تعداد 2 ہو گئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) میو ہسپتال لاہور کے چیسٹ وارڈ میں ٹیکے کے مبینہ ری ایکشن سے جان کی بازی ہار جانے والے مریضوں کی تعداد 2 ہو گئی۔ کیفٹر کسون انجکشن کے مبینہ ری ایکشن سے گزشتہ روز 36 سالہ مریضہ نورین جاں بحق ہو گئی تھی اور 15 مریض متاثر ہوئے تھے۔ متاثرہ مریضوں میں سے دولت خان نامی مریض بھی دم توڑ گیا‘ دولت خان وینٹی لیٹر پر تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر اسرار الحق طور کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ دریں اثناء وزیرصحت پنجاب سلمان رفیق نے میو اسپتال لاہور میں انجکشن کے مبینہ ری ایکشن کو انسانی غلطی قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا انجکشن سے ہلاکت انسانی غلطی کی وجہ سے ہوئی، انجکشن پاؤڈر تھا اس کو محلول بنانے میں غلطی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کو تیسری خوراک دی گئی تھی، پہلی دو خوراک لگانے سے کوئی ری ایکشن نہیں ہوا۔ 6 ہزار انجکشن کا سٹاک اسپتال میں آیا، مختلف ڈپارٹمنٹس میں یہ انجکشن مریضوں کو لگائے گئے لیکن انجکشن کا ردعمل صرف چیسٹ وارڈ میں ہوا، لیبارٹری کی رپورٹ آج آجائے گی۔ یہ انجکشن لاہور کے مختلف ہسپتالوں کے علاوہ نارووال بھی گیا تھا، اینٹی بائیوٹک کو بنانے کی تربیت نرسز کو دی جاتی ہے، رپورٹ سامنے آنے کے بعد نرسز کے خلاف سخت کارروائی ہو گی، دو نرسز ڈیوٹی پر موجود تھیں، انہوں نے محلول بنانے میں غلطی کی۔ میو ہسپتال میں دواؤں کا اسٹاک موجود تھا، ایم ایس کی نا اہلی تھی کہ دوائیں مریضوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ری ایکشن
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔