مذہب، تہذیب، تمدن اور ثقافت کسی بھی معاشرے کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ انہی کی کوکھ سے روایات، اقدار اور رسومات جنم لیتی ہیں، جو فرد کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی صورت میں ڈھلتی ہیں۔ یہ وہ رنگ ہیں جن سے معاشرتی زندگی کی حسین تصویر مکمل ہوتی ہے۔ انہی کے سائے میں لوگ باہمی غم اور خوشی کے جذبات محسوس کرتے ہیں اور ان کا احترام کرنا اپنی اجتماعی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہی احساسِ یگانگت اور اخوت درحقیقت سانجھے غموں اور سانجھی خوشیوں کی روح کو جنم دیتا ہے، جو کسی بھی معاشرتی نظام کے حسن و وقار کا عکاس ہوتا ہے۔
ماضی میں دیہات کی گلیاں، چوپالیں اور دارے اس جذبے کے عملی مظہر ہوا کرتے تھے۔ چارپائیوں پر بیٹھے بزرگ، صدیوں کی دانائی اپنے لبوں پر سجائے، حقے کے کش لگاتے ہوئے کسی نہ کسی مسئلے کاحل نکال رہے ہوتے۔ مسائل کو تدبر اور حکمت کی روشنی میں سلجھایا جاتا، تنازعات افہام و تفہیم سے حل کیے جاتے، اور یوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے۔ مگر افسوس! آج کے دور کی خود غرضی، مادہ پرستی، اور معاشرتی دوری نے سانجھی خوشیوں کی ان لطیف روایات کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔
مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب گائوں میں کسی کے ہاں ننھے چراغ کی آمد ہوتی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی۔ لوگ جوق در جوق مبارکباد دینے پہنچ جاتے۔ گھر میں حلوائی بلا کر مٹھائیاں اور جلیبیاں تیار کی جاتیں، جو پورے گائوں میں بانٹی جاتیں۔ یوں کسی ایک گھر کی خوشی، پورے گائوں کی خوشی بن جاتی۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں محبتوں کے وہ رنگ بکھرتے کہ دل خوشی سے سرشار ہو جاتا۔ کئی ہفتے پہلے ہی محلے کی خواتین ہر رات شادی والے گھر میں جمع ہوتیں، ڈھولک کی تھاپ پر مایوں، ٹپے اور لوک گیتوں سے فضا کو سریلا کر دیتیں۔ ہنسی مذاق، قہقہے، اور محبت بھری نوک جھونک محفل کو سجا دیتی۔ ہر طرف ایک مسکراہٹ بھری چہکار سنائی دیتی۔ شادی کے انتظامات میں نوجوان لڑکے، گھر کے افراد کے ساتھ مل کر رضاکارانہ خدمات انجام دیتے۔ چارپائیاں، بسترے، برتن، کرسیاں، تنبو، قناتیں سب کچھ مل بانٹ کر لایا جاتا۔ مہمانوں کی میزبانی کو ہر کوئی اپنی ذمہ داری سمجھتا۔ اور یوں، اجتماعی خوشی کا ایک ایسا منظر ابھرتا جس میں ہر فرد شامل ہوتا۔
عید کی آمد کے ساتھ ہی خوشیوں کی ایک نئی بہار آ جاتی۔ گھروں میں سوجی اور آٹے کی سویاں دھوپ میں خشک ہونے لگتیں، درزی کی دکان پر رش بڑھ جاتا، بازاروں میں چمکیلے جوڑے اور رنگ برنگی چوڑیاں خوشیوں کی نوید سناتیں۔ نمازِ عید کے بعد لوگ گلے ملتے، ناراضیاں ختم ہوتیں، محبتوں کی نئی راہیں کھلتیں۔ گھروں میں سادہ مگر پرتپاک ضیافتوں کا اہتمام ہوتا، محلے بھر میں ختم درود کا اہتمام کر کے کھانے بانٹے جاتے، اور یوں محبتوں کی میٹھی باس فضا میں گھل جاتی۔ بچپن کی عیدیں وہ ہوا کرتی تھیں، جب گلیوں میں بچے ہاتھوں میں رنگ برنگے غبارے، باجے اور کھلونے لیے دوڑتے پھرتے۔ چھوٹے بڑے سب رنگین کپڑوں میں ملبوس، خوشی اور جوش سے سرشار ہوتے۔ گاں کے باہر درختوں پر سترنگی پینگیں ڈال دی جاتیں۔ جب دلکش رنگوں میں سجی لڑکیاں ان پینگوں پر جھولتی، تو لگتا جیسے قوسِ قزح جھوم رہی ہو۔
فصل کٹائی کا وقت آتا تو دیہات میں اخوت و محبت کا ایک اور بے مثال نظارہ دیکھنے کو ملتا۔ محنت کش کسان ایک دوسرے کی مدد کے لیے کمربستہ ہوتے۔ کھیتوں میں ڈھول بجائے جاتے، جوش و خروش سے لبریز کسان اجتماعی طور پر فصل کاٹتے، اور پسینے کی خوشبو میں محبت کی مٹھاس گھل جاتی۔ اس دوران بڑی دیگیں پکائی جاتیں، اور ہر کوئی بھینی بھینی خوشبو میں لپٹے پکوانوں سے لطف اندوز ہوتا۔ کھلیانوں میں فصل کی اونچی گانٹھوں کے درمیان محفلیں سجتیں، اور یوں سانجھی خوشیوں کی یہ روایت مزید نکھر جاتی۔ کھیلوں کے میلوں میں بھی گائوں کی ایک جہت نظر آتی۔ کبڈی، کشتی، بیل دوڑ، گھڑ دوڑ یہ سب صرف کھیل نہ تھے، بلکہ گائوں کی مشترکہ خوشی کا حصہ تھے۔ جب اپنی ٹیم جیتتی، تو پورا گائوں جھوم اٹھتا۔ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے پڑتے، اور خوشیوں کے رنگ بکھرتے۔ مگر افسوس! یہ سب اب خواب و خیال ہوچکا ہے۔ آج، چراغ لے کر ڈھونڈیں تو بھی وہ خوشیاں نہیں ملتیں۔ مادہ پرستی، نفسا نفسی، اور انفرادیت پسندی نے ہماری انمول روایات کو ہم سے چھین لیا ہے۔ وہ محبتیں، وہ بے لوث جذبے، وہ سانجھی خوشیاں سب قصے کہانیاں بن چکی ہیں۔
کاش! وقت کا پہیہ پلٹ جائے۔ کاش! ہم پھر سے محبتوں اور خلوص کے اسی سنہری دور میں لوٹ جائیں، جہاں خوشیوں کو سانجھا کرنے کا رواج عام ہو، جہاں قہقہے بکھرتے ہوں، محبتیں پھیلتی ہوں، اور چہروں پر صرف خوشیوں کے رنگ جھلملاتے ہوں۔
آئو، پھر سے وہی نعرہ بلند کریں:”اک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں!”
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
ابھیشیک سے علیحدگی؟ ایشوریا رائے والدہ کے گھر بار بار کیوں جاتی ہیں؟ اصل وجہ سامنے آگئی
بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے بچن کی بار بار اپنی والدہ کے گھر جانے کی وجہ سامنے آگئی۔
گزشتہ برس ایشوریا رائے بچن اور ابھیشیک بچن کی علیحدگی سے متعلق افواہوں نے بالی ووڈ انڈسٹری اور مداحوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا تاہم یہ افواہیں وقت کیساتھ دم توڑ گئیں۔ لیکن حالیہ انکشافات سے واضح ہوا ہے کہ ایشوریا رائے اور ان کے شوہر کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں ایشوریا کی والدہ ورِندا رائے کے پڑوسی معروف ایڈورٹائزنگ فلم میکر پرہلاد کاکڑ نے انکشاف کیا ہے کہ ایشوریا کا اپنی والدہ کے گھر بار بار آنے کا ان کی ازدواجی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ورندا رائے کے پڑوسی نے بتایا کہ ایشوریا محض اپنی والدہ کی عیادت اور ان سے بےحد محبت کی وجہ سے ان کے گھر جاتی تھیں کیونکہ ان کی والدہ کی طبیعت خراب رہتی ہے اور ایشوریا اپنی بیٹی کے اسکول کے اوقات میں ان کے ساتھ وقت گزارتی تھیں۔
ان کے مطابق ایشوریا اپنی بیٹی آرادھیا کو اسکول چھوڑنے جاتیں اور اپنی والدہ کے پاس آجاتی تھیں اور جب بیٹی کو اسکول سے لینے کا وقت ہوتا تو اس کو لے کر اپنے سسرال واپس لوٹ جاتی تھیں۔
انہوں ایشوریا اور ابھشیک کی طلاق اور خاندانی تنازعات سے متعلق افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایشوریا آج بھی بچن خاندان کا اہم حصہ ہیں اور اپنی ذمہ داریاں طریقے سے نبھا رہی ہیں۔
پرہلاد کاکڑ کہنا تھا کہ ایشوریا اور ابھیشیک نے کبھی ان خبروں پر تبصرہ نہیں کیا کیونکہ وہ ایسی بےبنیاد اور جھوٹی افواہوں پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔