Daily Ausaf:
2025-07-27@01:37:42 GMT

سانجھی خوشیاں

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

مذہب، تہذیب، تمدن اور ثقافت کسی بھی معاشرے کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ انہی کی کوکھ سے روایات، اقدار اور رسومات جنم لیتی ہیں، جو فرد کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی صورت میں ڈھلتی ہیں۔ یہ وہ رنگ ہیں جن سے معاشرتی زندگی کی حسین تصویر مکمل ہوتی ہے۔ انہی کے سائے میں لوگ باہمی غم اور خوشی کے جذبات محسوس کرتے ہیں اور ان کا احترام کرنا اپنی اجتماعی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہی احساسِ یگانگت اور اخوت درحقیقت سانجھے غموں اور سانجھی خوشیوں کی روح کو جنم دیتا ہے، جو کسی بھی معاشرتی نظام کے حسن و وقار کا عکاس ہوتا ہے۔
ماضی میں دیہات کی گلیاں، چوپالیں اور دارے اس جذبے کے عملی مظہر ہوا کرتے تھے۔ چارپائیوں پر بیٹھے بزرگ، صدیوں کی دانائی اپنے لبوں پر سجائے، حقے کے کش لگاتے ہوئے کسی نہ کسی مسئلے کاحل نکال رہے ہوتے۔ مسائل کو تدبر اور حکمت کی روشنی میں سلجھایا جاتا، تنازعات افہام و تفہیم سے حل کیے جاتے، اور یوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے۔ مگر افسوس! آج کے دور کی خود غرضی، مادہ پرستی، اور معاشرتی دوری نے سانجھی خوشیوں کی ان لطیف روایات کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔
مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب گائوں میں کسی کے ہاں ننھے چراغ کی آمد ہوتی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی۔ لوگ جوق در جوق مبارکباد دینے پہنچ جاتے۔ گھر میں حلوائی بلا کر مٹھائیاں اور جلیبیاں تیار کی جاتیں، جو پورے گائوں میں بانٹی جاتیں۔ یوں کسی ایک گھر کی خوشی، پورے گائوں کی خوشی بن جاتی۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں محبتوں کے وہ رنگ بکھرتے کہ دل خوشی سے سرشار ہو جاتا۔ کئی ہفتے پہلے ہی محلے کی خواتین ہر رات شادی والے گھر میں جمع ہوتیں، ڈھولک کی تھاپ پر مایوں، ٹپے اور لوک گیتوں سے فضا کو سریلا کر دیتیں۔ ہنسی مذاق، قہقہے، اور محبت بھری نوک جھونک محفل کو سجا دیتی۔ ہر طرف ایک مسکراہٹ بھری چہکار سنائی دیتی۔ شادی کے انتظامات میں نوجوان لڑکے، گھر کے افراد کے ساتھ مل کر رضاکارانہ خدمات انجام دیتے۔ چارپائیاں، بسترے، برتن، کرسیاں، تنبو، قناتیں سب کچھ مل بانٹ کر لایا جاتا۔ مہمانوں کی میزبانی کو ہر کوئی اپنی ذمہ داری سمجھتا۔ اور یوں، اجتماعی خوشی کا ایک ایسا منظر ابھرتا جس میں ہر فرد شامل ہوتا۔
عید کی آمد کے ساتھ ہی خوشیوں کی ایک نئی بہار آ جاتی۔ گھروں میں سوجی اور آٹے کی سویاں دھوپ میں خشک ہونے لگتیں، درزی کی دکان پر رش بڑھ جاتا، بازاروں میں چمکیلے جوڑے اور رنگ برنگی چوڑیاں خوشیوں کی نوید سناتیں۔ نمازِ عید کے بعد لوگ گلے ملتے، ناراضیاں ختم ہوتیں، محبتوں کی نئی راہیں کھلتیں۔ گھروں میں سادہ مگر پرتپاک ضیافتوں کا اہتمام ہوتا، محلے بھر میں ختم درود کا اہتمام کر کے کھانے بانٹے جاتے، اور یوں محبتوں کی میٹھی باس فضا میں گھل جاتی۔ بچپن کی عیدیں وہ ہوا کرتی تھیں، جب گلیوں میں بچے ہاتھوں میں رنگ برنگے غبارے، باجے اور کھلونے لیے دوڑتے پھرتے۔ چھوٹے بڑے سب رنگین کپڑوں میں ملبوس، خوشی اور جوش سے سرشار ہوتے۔ گاں کے باہر درختوں پر سترنگی پینگیں ڈال دی جاتیں۔ جب دلکش رنگوں میں سجی لڑکیاں ان پینگوں پر جھولتی، تو لگتا جیسے قوسِ قزح جھوم رہی ہو۔
فصل کٹائی کا وقت آتا تو دیہات میں اخوت و محبت کا ایک اور بے مثال نظارہ دیکھنے کو ملتا۔ محنت کش کسان ایک دوسرے کی مدد کے لیے کمربستہ ہوتے۔ کھیتوں میں ڈھول بجائے جاتے، جوش و خروش سے لبریز کسان اجتماعی طور پر فصل کاٹتے، اور پسینے کی خوشبو میں محبت کی مٹھاس گھل جاتی۔ اس دوران بڑی دیگیں پکائی جاتیں، اور ہر کوئی بھینی بھینی خوشبو میں لپٹے پکوانوں سے لطف اندوز ہوتا۔ کھلیانوں میں فصل کی اونچی گانٹھوں کے درمیان محفلیں سجتیں، اور یوں سانجھی خوشیوں کی یہ روایت مزید نکھر جاتی۔ کھیلوں کے میلوں میں بھی گائوں کی ایک جہت نظر آتی۔ کبڈی، کشتی، بیل دوڑ، گھڑ دوڑ یہ سب صرف کھیل نہ تھے، بلکہ گائوں کی مشترکہ خوشی کا حصہ تھے۔ جب اپنی ٹیم جیتتی، تو پورا گائوں جھوم اٹھتا۔ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے پڑتے، اور خوشیوں کے رنگ بکھرتے۔ مگر افسوس! یہ سب اب خواب و خیال ہوچکا ہے۔ آج، چراغ لے کر ڈھونڈیں تو بھی وہ خوشیاں نہیں ملتیں۔ مادہ پرستی، نفسا نفسی، اور انفرادیت پسندی نے ہماری انمول روایات کو ہم سے چھین لیا ہے۔ وہ محبتیں، وہ بے لوث جذبے، وہ سانجھی خوشیاں سب قصے کہانیاں بن چکی ہیں۔
کاش! وقت کا پہیہ پلٹ جائے۔ کاش! ہم پھر سے محبتوں اور خلوص کے اسی سنہری دور میں لوٹ جائیں، جہاں خوشیوں کو سانجھا کرنے کا رواج عام ہو، جہاں قہقہے بکھرتے ہوں، محبتیں پھیلتی ہوں، اور چہروں پر صرف خوشیوں کے رنگ جھلملاتے ہوں۔
آئو، پھر سے وہی نعرہ بلند کریں:”اک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں!”

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خوشیوں کی اور یوں

پڑھیں:

بانی کے بیٹے خوشی سے پاکستان آئیں، برطانوی طریقوں کے مطابق احتجاج بھی کریں: عرفان صدیقی

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی—فائل فوٹو

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی کے بیٹے خوشی سے پاکستان آئیں، احتجاج کے جو طریقے انہوں نے برطانیہ میں دیکھے ہیں ان کے مطابق بیشک احتجاج بھی کریں۔

ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، 5 اگست میں 10 دن رہ گئے، ہماری کوئی دلچسپی نہیں، اس لیے کوئی میٹنگ بھی اب تک نہیں بلائی۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن چھت پر چڑھ کر پی ٹی آئی کو آوازیں نہیں دیں گے، 26ویں ترمیم کے بعد جو ترمیم جب بھی آئے گی وہ 27ویں ہو گی، اس وقت حکومت ایسی کسی ترمیم پر کام نہیں کر رہی۔

بانی پی ٹی آئی کے بیٹے پاکستان آئیں گے یا نہیں؟ جمائما گولڈ اسمتھ کا مؤقف سامنے آگیا

جمائما گولڈ اسمتھ نے مزید کہا کہ یہ کسی جمہوریت یا ایک فعال ریاست میں نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف مسلم لیگ ن کے صدر کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بلا وجہ بیان بازی اور تشہیر ان کا شیوہ نہیں، وقت آنے پر وہ متحرک سیاسی کردار بھی ادا کریں گے۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ خارجہ امور کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ہے، خارجہ امور کا کام گنڈاپور صاحب کا نہیں، گنڈاپور اپنے صوبے میں امن و امان اور اربوں روپے کی کرپشن پر نظر رکھیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ 9 مئی کو دفاعی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملے جرم تھے تو مجرموں کو سزائیں بھی ملنی چاہئیں۔

متعلقہ مضامین

  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • بانی کے بیٹے خوشی سے پاکستان آئیں، برطانوی طریقوں کے مطابق احتجاج بھی کریں: عرفان صدیقی
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • آن لائن سسٹم تاخیر کا شکار، پراپرٹی ٹیکس وصولی شروع نہ ہو سکی