چیمپئنز ٹرافی کی تلخ یادیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
سب ہی کرکٹ کے کھیل کو سیاسی نفرت سے جوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ کھیل میں نفرت اور وہ بھی سیاسی نفرت اس کی شروعات بھارت نے ہی کی ہے، ورنہ اس سے پہلے ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی مگر لگتا ہے، یہ لعنت اسی نے شروع کی ہے اور اسی پر ہی ختم ہو جائے گی۔ بھارت نے کھیل میں سیاست کی ملاوٹ کر کے اس عوامی دلچسپی کے کھیل کا مزہ ہی کرکرا کر دیا ہے۔
اس وقت پورے کرکٹ جگت میں بھارت کی ہٹ دھرمی اورکم ظرفی کے چرچے ہو رہے ہیں ۔ بھارت کے انتہا پسند حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ کھیل میں محبت تو داخل کی جا سکتی ہے کسی طرح بھی نفرت کو داخل نہیں کیا جاسکتا۔
سبھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے موجودہ حکمران چھوٹی ذہنیت والے اور تنگ نظر ہیں، افسوس تو اس بات پر ہے کہ وہ تو سفارتی تعلقات میں بھی اگر کسی ملک سے شکایت ہو جائے تو اس سے دشمنی پر اتر آتے ہیں اور انتقامی یعنی غیر سفارتی کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں جس کی مثال کینیڈا سے دی جاسکتی ہے۔ سکھ بڑی تعداد میں کینیڈا میں آباد ہیں مگر ان کا آبائی وطن پنجاب ہے۔
وہ بھارتی پنجاب میں سکھوں کی علیحدہ آزاد ریاست کے حامی ہی نہیں بلکہ اس کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ کینیڈا میں تحریک چلا رہے ہیں چونکہ ان کی تحریک اور جدوجہد حق و انصاف پر مبنی ہے، اس لیے کینیڈا کی حکومت نہ صرف ان کی تحریک کی حامی ہے بلکہ آزاد خالصتان کے قیام کو سکھوں کا حق قرار دیتی ہے۔
1947 میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے وقت سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے گاندھی اور نہرو نے خود وعدہ کیا تھا کہ وہ سکھوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد وطن قائم کریں گے مگر بھارتی حکمرانوں نے کبھی کسی وعدے کو وفا نہیں کیا، یہی حال کشمیریوں کا ہوا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مسٹر ٹروڈو پر بھارتی حکومت نے بہت دباؤ ڈالا کہ وہ سکھوں کی تحریک سے دوری اختیارکر لیں مگر وہ سکھوں کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے۔
چند سال قبل جب وہ بھارت کے دورے پر گئے تھے تو ان کے ساتھ انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس بات کو ٹروڈو نے محسوس کیا اور اپنے ملک واپس جا کر اپنے وزرا سے اس کا ذکر کیا تو انھیں بھی یہ بات سفارتی آداب کے خلاف لگی۔
اب تو بھارت نے سکھوں کی دشمنی میں ان کے ایک ہردلعزیز رہنما نجر جو"Sikh for Justice" سے جڑے ہوئے تھے کو ’’را‘‘ سے قتل کرا دیا ہے۔ ٹروڈو کو بھی بہت دھمکیاں دی گئی تھیں مگر وہ سکھوں کے ساتھ کھڑے رہے تھے۔ پاکستان کے جتنے بھی وزرائے اعظم اور صدور بھارت کے دورے پر گئے ان تمام کا انتہائی سرد مہری سے استقبال کیا گیا جس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔
اب جہاں تک حالیہ چیمپئنز ٹرافی کا تعلق ہے تو اول تو اس کے پاکستان میں انعقاد پر بھارت کو سخت اعتراض تھا، وہ تو اس کے یہاں انعقاد کو رکوا کر کسی دوسرے ملک منتقل کرانے کی سرتوڑکوششیں کرتا رہا مگر چونکہ دیگر ممبر ممالک اس کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے اسے ہتھیار ڈالنے پڑے۔
بہرحال اب یہ بات ماننا پڑے گی کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھارت کی باندی بن چکی ہے۔ اس وقت ایک بھارتی ہی اس کا سربراہ بنا ہوا ہے جو صرف بھارتی مفادات کا خیال رکھ رہا ہے، ساتھ ہی پاکستان سے کھل کر کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرنے کا بدلہ لے رہا ہے۔ جب چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد پاکستان میں ہونا ٹھہرا تھا تو پھر بھارت کی ہٹ دھرمی کو کیوں مانا گیا کہ وہ پاکستان کے بجائے دبئی میں اپنے میچ کھیلے گا۔
اب غیر ملکی کھلاڑی بھی اس بات پر اعتراض کر رہے ہیں کہ انھیں تو ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑا جب کہ بھارتی کھلاڑی ایک ہی ملک میں، ایک ہی شہر میں اور ایک ہی پچ پر سارے میچ کھیلتے رہے۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ بھارت کا فائنل تک پہنچنا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کیونکہ دیگر ٹیموں کے برعکس چیمپئنز ٹرافی کے تمام میچز ایک ہی پچ پرکھیلتے رہنے سے اسے فائدہ پہنچا جوکہ دوسری ٹیموں کے ساتھ سرا سر زیادتی تھی چنانچہ میچ جیتنے کے بعد اس نے جو زبردست جشن منایا، وہ بھی سمجھ سے باہر تھا، بھارتی ٹیم کے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کی وجہ سے پہلے تو ٹورنامنٹ کے شیڈول جاری کرنے میں دیر ہوئی اور پھر بالآخر بھارتی دشمنی کی وجہ سے ہی ہائبرڈ ماڈل کے تحت چیمپئنز ٹرافی کی ترتیب ہی بدل گئی۔
برطانوی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ناصر حسین کہتے ہیں کہ’’ بھارتی ٹیم ایک ہی ہوٹل میں مقیم تھی انھیں کوئی اضافی سفر نہیں کرنا پڑا۔ ان کا ڈریسنگ روم بھی ایک ہی جگہ تھا وہ ایک ہی پچ پرکھیلتے رہے جسے وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے اور اس کی کنڈیشن کے مطابق ٹیم بناتے تھے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرکٹ کے منتظمین نے چیمپئنز ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد کی خاطر اپنے تمام بڑے اسٹیڈیمزکو جدید طرز پر استوارکیا تھا جس پرکافی خرچ آیا مگر اسے خندہ پیشانی سے برداشت کیا گیا۔ یہ صرف اس لیے کہ 29 برس بعد پاکستان میں کوئی بڑا کرکٹ کا ایونٹ ہونے جا رہا تھا مگر انھیں کیا پتا تھا کہ بھارتی حکمران پہلے ہی پاکستان کے اس ایونٹ کو فیل کرانے کی سازش میں مصروف ہیں اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
جب بھارت اس ایونٹ کو پاکستان میں نہ ہونے دینے اور دیگر ٹیموں کو پاکستان آنے سے روکنے میں ناکام ہوگیا تو اس نے خود پاکستان میں کھیلنے سے انکارکردیا۔ آئی سی سی کو اس کی ضد کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس کے پاکستان میں نہ کھیلنے کی کوئی واضح وجہ نہیں تھی مگر چونکہ آئی سی سی خود اس کے اپنے گھر کی چیز ہے، چنانچہ اس نے بھارت کی فرمائش کو قبول کر لیا۔
پاکستان میں ہونے والے چیمپئنز ٹرافی کے میچوں کو بھی ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی ٹی وی چینلز پر خبریں چلوائی گئیں کہ پاکستان میں باہر کے کھلاڑیوں پر کسی وقت بھی دہشت گردوں کا حملہ ہو سکتا ہے مگر بھارت کا یہ پروپیگنڈا بھی بے کار ہی گیا۔
شکر ہے کہ پاکستان میں ہونے والے تمام میچز خیریت سے ہوئے جن میں پاکستانی عوام نے بھرپور طریقے سے شرکت کی۔ چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میچ میں بھارت کی نیوزی لینڈ سے جیت کے بعد ٹرافی دینے کی تقریب میں کسی پاکستانی آفیشل کو اسٹیج پر مدعو نہیں کیا گیا ۔ اگر بھارت اسی طرح کھیل کو سیاست سے جوڑتا رہا تو کرکٹ بے مزہ کھیل بن کر رہ جائے گا جس کا نقصان بھارت کو بھی ہوگا مگر وہ پاکستان دشمنی میں اتنا اندھا ہوگیا ہے کہ اسے یہ باتیں ابھی سمجھ نہیں آ رہی ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی کے کے پاکستان میں بھارت کی بھارت کے وہ سکھوں کہ بھارت کے ساتھ کیا گیا رہے ہیں ایک ہی ہیں کہ
پڑھیں:
تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی واحد بیرونِ ملک موجودگی سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ تاجکستان نے بھارتی فوج جو دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع آینی ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے۔ نئی دہلی نے تاجکستان میں اپنی اس موجودگی کو “اسٹریٹجک کامیابی” قرار دیا تھا۔ اب اس اڈے کا مکمل کنٹرول روسی افواج نے سنبھال لیا ہے جبکہ بھارت کے تمام اہلکار اور سازوسامان 2022 میں واپس بلا لیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق بھارت اور تاجکستان کے درمیان 2002 میں ہونے والا معاہدہ چار سال قبل ختم ہوا، اور تاجکستان نے واضح طور پر بھارت کو اطلاع دی کہ فضائی اڈے کی لیز ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ تاجک حکومت کو روس اور چین کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ “غیر علاقائی طاقت” یعنی بھارت کو مزید اپنے فوجی اڈے پر برداشت نہ کرے۔
آینی ایئربیس بھارت کے لیے نہ صرف وسطی ایشیا میں قدم جمانے کا ذریعہ تھی بلکہ پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی کا ایک حصہ بھی تھی۔
یہ فضائی اڈہ افغانستان کے واخان کاریڈور کے قریب واقع ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے سے متصل ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ماضی میں یہاں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تعینات کیے تھے تاکہ بوقتِ جنگ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
مگر اب روس اور چین کی شراکت سے بھارت کی یہ تمام منصوبہ بندی خاک میں مل چکی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق تاجکستان کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہے، کیونکہ اس اڈے کے ذریعے بھارت وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی ظاہر کر رہا تھا۔ تاہم، اب روس اور چین اس خلا کو پر کر چکے ہیں اور بھارت مکمل طور پر خطے سے باہر ہو گیا ہے۔
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے بھی نریندر مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آینی ایئربیس کا بند ہونا بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ہماری اسٹریٹجک سفارت کاری کے لیے ایک اور زبردست جھٹکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت محض دکھاوے کی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاجکستان کے اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اس خطے میں اب روس اور چین کا مکمل تسلط ہے، اور بھارت کے پاس نہ کوئی اسٹریٹجک بنیاد بچی ہے اور نہ کوئی مؤثر اثرورسوخ بچا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ بھارتی عزائم کے لیے ایک سبق ہے کہ غیر ملکی زمین پر فوجی اڈے بنانے کی کوششیں صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب بڑی طاقتیں آپ کے پیچھے کھڑی ہوں، اور اس وقت بھارت کو نہ واشنگٹن کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور نہ ماسکو یا بیجنگ کا۔
یوں تاجکستان سے بھارتی فوج کا انخلا دراصل نئی دہلی کی “عظیم طاقت بننے” کی خواہش پر کاری ضرب ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک واضح سفارتی فتح ہے، کیونکہ خطے میں بھارت کے تمام تر اسٹریٹجک منصوبے ایک ایک کر کے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔