WE News:
2025-11-02@09:26:28 GMT

دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب

اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT

پاکستان ٹیلی ویژن نے 61 برس کے سفر میں بہت سے ایسے منفرد کردار متعارف کروائے ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دل میں بسیرا کر لیا۔ ٹی وی اور دنیا کی اسکرین سے ہٹ جانے کے بعد بھی یہ کردار لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہو سکے۔ بعض کی یاد میں ان کی ناگہانی موت نے درد کا رنگ پیدا کردیا۔ اس طرح کی ایک ہر دلعزیز شخصیت معروف کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کی ہے، جن کی اکتیسویں برسی جمعرات کو منائی گئی۔ میرے لیے انہیں یاد کرنے کی وجہ 1999 میں شائع ہونے والی کتاب ‘دلبر دلدار’ بنی ہے جسے پنجابی کے معروف لیکھک حسین شاد نے مرتب کیا تھا۔

کسی کی یاد دیرپا بنانے کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں کئی ذائقے ہیں، دلدار کے بڑوں، ہم عصروں اور دوستوں نے بڑی محبت سے انہیں یاد کیا ہے۔ نمونے کے طور پر دلدار کے بیس کالم بھی ہیں۔ یہ سب نگارشات بہت اہم ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دلدار پرویز بھٹی سے الفت کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔

میرے لیے اس کتاب میں توشہ خاص دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادداشتوں کے چند صفحات ہیں جن میں اپنے حالات بیان کرنے لیے جو پیرایہ اظہار اختیار کیا گیا ہے وہ معاشرے کے اس انتشار کی کہانی بن جاتا ہے جس کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اس لکھت کی اٹھان خبر دیتی ہے کہ اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچتی تو ایک منفرد آپ بیتی ہمارے سامنے آتی۔ اس کا پہلا پیراگراف ذرا ملاحظہ کیجیے:

‘میرا خاندان بہت مختصر تاریخ رکھتا ہے، میرے بزرگ محمد بن قاسم کے ساتھ نہیں آئے تھے نہ شاہوں کی اولاد تھے۔ ہم نے قائداعظم سے کبھی ملاقات نہیں کی نہ ہی انہوں نے یا کسی مرد قلندر نے ہمیں خواب میں بشارت دی۔ ہم نے پاکستان بالکل نہیں بنایا نہ اس کے لیے کوئی قربانی دی، یہ ہمیں بنا بنایا مل گیا تھا، تایا فوج میں تھے۔ ہمارا قافلہ لٹنے پٹنے سے بچ گیا (افسوس) یہاں آکر مزے سے پراٹھے کھائے، گھر الاٹ کرایا اور گوجرانولہ میں دوبارہ آباد ہو گئے۔ دوبارہ اس لیے کہ ہم یہیں سے نقل مکانی کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ ابا کو ایک دفعہ تانگے میں سوار ہوتے ہوئے ایک گولی لگتے لگتے رہ گئی یہ گولی اس ٹانگ کو نشانہ بنا رہی تھی جو وہ پائیدان پر رکھ چکے تھے، چلانے والا کوئی اناڑی بدمست سکھ تھا ورنہ زخمی ٹانگ کے بدلے لیاقت علی خان سے ایک آدھ مربع تو مل ہی جاتا اصل میں ہماری ساری زندگی ایسے ہی مس چانسز سے عبارت ہے۔‘

امرتسر کی حکایت بھی اسی طرز میں بیان ہوئی ہے جس کے قصے انہوں نے اپنی والدہ اور بڑے بھائی سے سنے تھے جن سے ان کے والد نثار علی بھٹی ایڈووکیٹ کے سکھوں اور ہندوؤں سے خوشگوار تعلقات اور محلے کے مکینوں کے دل میں ان کے لیے پائی جانے والی تکریم کا پتا ملتا ہے، گاؤں میں اپنی یاد زندہ رکھنے کے لیے وہ اپنے دادا کے حسنِ عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:

‘گاؤں چھوڑنے کے غم کو دادا نے اسی گلی میں کنواں کھدوا کر غلط کیا، اس کنویں پر شطرنج اور چوسر کی بازی لگتی اور کیا بڑا کیا چھوٹا بلا امتیاز مذہب سب مل بیٹھتے۔’

فسادات میں محبت کے نفرت میں بدلنے کا تذکرہ بھی وہ کرتے ہیں، خاندانی روایات کے علاوہ امرتسر کے بارے میں ان کی معلومات کا ماخذ اے حمید اور خواجہ افتخار کی کتابیں تھیں۔

گوجرانولہ میں سینٹ میری اسکول کی مسیحی استانیوں کو وہ بڑی محبت سے یاد کرتے ہیں جو ان کے بقول ‘ٹافیاں چاکلیٹ بھی دیتی تھیں اور مسکراہٹیں اور شاباشیں بھی، سب سے اچھی اور پیاری نیلی آنکھوں والی سسٹر وکٹرین تھیں، لمبا قد اور پیار ہی پیار۔ پیانو پر بیٹھ جاتیں اور ہم سب اے بی سی ڈی گاتے۔’

وہ اس اسکول پر عیسائیت پھیلانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے اپنے ہاں کے پرائیوٹ انگریزی اسکولوں پر کاٹ دار تبصرہ کرتے ہیں:

‘اب تو گھر گھر انگریزی اسکول کھل گئے ہیں، میٹرک فیل ماہر تعلیم ان کو چلا رہے ہیں، ڈبل فیس پر بچے، آدھی تنخواہ پر استانیاں، ایک آدھ اچھی سی استانی سے دوسری شادی اور دنوں میں لکھ پتی اب کوئی ان اسکولوں کے خلاف نہیں بولتا۔’

دلدار پرویز بھٹی میں ریڈیو اور ٹی وی پر کام کرنے کی فطری صلاحیت کا اظہار بھی ان کے بچپن میں ہونے لگا تھا، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

لکھتے ہیں: ‘اداکار میں بچپن ہی سے تھا، بس اشارے کی دیر تھی، بیٹا آنکھ مارو، انگریز کیسے سیگریٹ پیتے ہیں، شیر کیسے گرجتا ہے، سردی کیسے لگتی ہے، جیسے چھوٹے چھوٹے اشاروں پر فوراً عمل کرتا، کان مروڑنے پر فوراً ریڈیو بن جاتا اور خبریں، گانے اور سارے دن کے واقعات اگلنے شروع کر دیتا۔’

اب ہم ان کی ادھوری خودنوشت سے ان کی وفات سے قریباً 2 ماہ پہلے فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو کی طرف بڑھتے ہیں جو گزشتہ دنوں اس اخبار کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کے دوران میری نظروں سے گزرا۔

اس سے اسکول کے زمانے میں ان کی رومانوی طبیعت کی جھلک سامنے آتی ہے، ان دنوں اداکارہ ثریا ان کے خوابوں کی شہزادی تھی اور تصورات کی دنیا میں کافی عرصہ ان کی بیوی بھی رہیں۔ ان کی دادی نے یقین دلا رکھا تھا کہ ثریا اس لیے شادی نہیں کررہیں کہ دلدار کے بڑے ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔

اس انٹرویو میں دلدار نے بتایا ہے کہ ریڈیو پر اناؤنسر کے لیے آڈیشن انہوں نے پاس کر لیا تھا لیکن وہ ریڈیو جوائن نہیں کر سکے کیوں کہ ان کے والد چاہتے تھے وہ پہلے ایم اے انگریزی کریں سو اس خواہش کا احترام کیا اور لیکچرار بن گئے۔ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو زبانیں اہم ہیں۔ پنجابی لوگوں کے دلوں کو گرفت میں لیتی ہے اور انگریزی ان کے دماغوں پر تصرف جماتی ہے۔

ان سے کامیاب کمپیئر ہونے کے باوجود پرائم ٹائم میں شاذو نادر نظر آنے کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ وہ اوپر والوں کو مکھن نہیں لگاتے، ان کی کوئی پی آر نہیں ہے اور وہ دوسروں کی طرح پیپلز پارٹی کے چمچے نہیں بن سکتے۔ ان کے خیال میں اسی بنا پر لوگ انہیں جمہور میلے اور جشن آزادی کی تقریب میں نہیں دیکھ سکے۔

دلدار کو پاکستان میں کمپیئرنگ میں نیا اسٹائل متعارف کروانے پر نہ صرف ناز تھا بلکہ ان کی دانست میں دوسروں نے اس کی تقلید کی، وہ صرف ضیا محی الدین کے اسٹائل کو مختلف قرار دیتے تھے، جسے دلدار کے خیال میں انہوں نے مغرب سے مستعار لیا۔

دلدار پرویز بھٹی نے بتایا کہ ان کے والد کا رنگ پکا جبکہ والدہ کا صاف تھا۔

رنگ کے معاملے میں بھائی والد اور بہنیں والدہ پر گئیں جس کی وجہ سے دلدار کے والد ازراہِ تفنن ان کی والدہ کو اکثر چھیڑتے تھے۔ کالے رنگ کی وجہ سے خاندان اور اس سے باہر بھی انہیں تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا۔ احساسِ کمتری سے بچانے کے لیے ان کی والدہ ہمیشہ انہیں چاند کا ٹکڑا کہا کرتی تھیں اور اس بات پر یقین سے وہ کالے رنگ کے خلاف تعصب کا مقابلہ کر سکے، اس لیے فرنٹیئر پوسٹ کو انٹرویو میں انہوں نے خود کو پیدائشی نرگسیت پسند بتایا تھا۔

اس پروفائل میں 23 مارچ 1978 کو ان کی شادی کا بھی تذکرہ ہے جس سے مجھے دلدار کے یار عزیز امجد اسلام امجد کے مضمون میں درج ان کی شادی سے جڑا ایک قصہ یاد آتا ہے جو ان کے سعادت مند ہونے کا ثبوت ہے۔

امجد صاحب کے بقول ‘اس کی شادی کا دن تھا، بارات گوجرانولہ سے ہمارے ہمسائے میں آنا تھی، سو طے پایا کہ ہم بھابھی کے گھر کے سامنے ایک جگہ جمع ہو جائیں اور وہیں سے بارات میں شامل ہوں، کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ بارات پہنچ گئی ہے، لیکن دولہا گاڑی سے اتر کر کہیں چلا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بارات ہمارے گھر کے سامنے رکی تھی اور دولہا ہماری والدہ کو سلام کرنے اور ان کی دعا لینے ہمارے گھر گیا تھا کیونکہ والدہ علالت کی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہو سکتی تھیں۔’

امجد اسلام امجد کی دلدار سے 25 سالہ دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ایم اے او کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ امجد صاحب کے بقول: ‘دوستی بھی ایسی جیسی اسکول کے لڑکوں میں ہوتی ہے کہ دوست دن کو رات کہے تو آپ ستارے گننا شروع کردیں۔’

امجد اسلام امجد سے دلدار کا گہرا یارانہ تھا اور احمد ندیم قاسمی سے ان کی ارادت مندی تھی، ایک دن وہ ان حضرات کو بااصرار سوپ پلانے چینی ریستوران میں لے گئے جہاں سے باہر نکلنے پر فقیر ان سے پیسے مانگنے لگا، اس نہ جب بہ تکرار یہ کہا :

‘بادشاہ کچھ دیتا جا’

اس پر دلدار پرویز بھٹی کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے ہاتھ جوڑ کر فقیر سے کہا ‘ابھی کچھ دیر پہلے تک میں واقعی بادشاہ تھا مگر اب ان لوگوں (مراد قاسمی صاحب اور امجد صاحب) نے مجھے تمہاری طرح فقیر کردیا ہے۔ اس لیے معاف کرو۔’

امجد اسلام امجد نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ہمدمِ دیرینہ کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے:

وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

(دلدار پرویز بھٹی کے لیے ایک نظم)

کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا

وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں

اپنی باتوں سے سبھی درد بھلا دیتا تھا

اس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکے، غم کے

پھر بھی ہر بزم کو گلزار بنا دیتا تھا

ہر دکھی دل کی تڑپ

اس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گھل کر

اس کی راتوں میں سلگ اٹھتی تھی

میری اور اس کی رفاقت کا سفر

ایسے گزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں

یہ جو پچیس برس

آرزو رنگ ستارے کی طرح لگتے تھے

کیسے آنکھوں میں اتر آئے ہیں آنسو بن کر

اس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے

وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خوشبو بن کر

اس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی

ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا

نام کا اپنے بھرم اس نے کچھ ایسے رکھا

دل احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا

کوئی پھل دار شجر ہو سرراہے، جیسے

کسی بدلے، کسی نسبت کا طلب گار نہ تھا

اپنی نیکی کی مسرت تھی اثاثہ اس کا

اس کو کچھ اہل تجارت سے سروکار نہ تھا

کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا

وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

دلدار پرویز بھٹی نے ٹی وی پر اداکاری کی، خبریں پڑھیں لیکن انہیں احساس ہوا کہ ان کا اصل میدان کمپیئرنگ ہے۔ ‘ٹاکرا’ سے انہیں پہچان ملی اور پھر ‘میلہ’ اور ‘پنجند’ سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ پنجابی کمپیئرنگ میں وہ اپنے اسٹائل کے مؤجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ ان کے بعد پنجابی میں کمپیئر آتے رہے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔

انسانی شخصیت کی تعمیر میں مادری زبان کا بنیادی کردار ہوتا ہے، یہ آپ کے ذہن کو جلا بخشتی ہے جس کے بعد آپ دوسری زبانوں سے علاقہ پیدا کرکے ذہنی افق وسیع کرتے ہیں۔

دلدار پرویز بھٹی کی وجہ شہرت ان کے پنجابی پروگرام بنے لیکن دوسری زبانوں سے بھی ان کا برابر ربط ضبط رہا۔ کالج میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اردو میں کالم لکھتے تھے۔ اس لیے بیک وقت تین زبانوں سے ان کا معاملہ رہتا تھا جس سے ان کی طبیعت میں کشادگی پیدا ہوئی۔

انٹرنیٹ پر ان کی ویڈیوز سے آپ ان کی حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کے نمونے دیکھ کر آج بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔

ایک ویڈیو میں وہ دوسروں کی کمال مہارت سے نقل اتارتے ہیں اور ان کے برابر بیٹھے معروف ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر ‘پنجند’ کے ایک کلپ سے ان کے پروگرام کے تنوع کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

اس میں ہماری ملاقات پنجابی کے معروف فکشن نگار، شاعر اور مترجم افضل احسن رندھاوا سے ہوتی ہے۔ ببو برال اور نشیلا کی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ لکڑی سے مجسمے بنانے والے ہنرمند سے دلدار گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، ایک خاتونِ خانہ سے کھانے کے بارے میں پرلطف مکالمہ ہوتا ہے۔

دلدار پرویز بھٹی کے فنی کمالات کا سب اعتراف کرتے ہیں، استاد اور لکھاری کی حیثیت سے بھی معروف ہوئے، ان کے شخصی محاسن بھی بہت تھے لیکن ان کی ذات کی ایک خوبی جو ان کی وفات کے بعد اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ان کی مالی اعانت سے مستفید ہونے والے ضرورت مندوں اور ناداروں نے ان کے مرنے پر گریہ کیا اور دنیا نے جان لیا کہ دلدار کتنوں کے چارہ ساز تھے۔

زندگی کی آخری سانسوں تک وہ انسانیت کی خدمت میں جٹے رہے اور انہیں اجل کا سندیسہ اس وقت ملا جب وہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کے لیے امریکا میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے اور روشن دماغ دلدار کو برین ہیمبرج ہم سے ہمیشہ کے لیے دور لے گیا تھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews ادھوری یادیں پاکستان ٹیلی ویژن دلدار پرویز بھٹی محمودالحسن وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ادھوری یادیں پاکستان ٹیلی ویژن دلدار پرویز بھٹی محمودالحسن وی نیوز امجد اسلام امجد کے بارے میں ان کے والد کرتے ہیں دلدار کے انہوں نے سے ان کی ہوتا ہے کے ساتھ گیا تھا کی وجہ کے لیے اس لیے کے بعد نہ تھا اور ان بھی ان

پڑھیں:

اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز

پنجاب میں اس وقت اسموگ کا راج ہے۔ لاہور فیصل آباد دنیا میں آلودہ ترین شہروں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے لوگ بیمارہیں۔ سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ لیکن ایسا کوئی پہلے سال نہیں ہوا ہے۔ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔ ہر سال ہی اسموگ کا راج ہوتا ہے۔ ہر سال ہی ہم اسموگ پر شور مچاتے ہیں۔ اسموگ کی وجوہات کا بھی سب کو علم ہیں۔

سب کو پتہ ہے ایک بڑی وجہ بھارتی پنجاب سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ بھارت میں بھی اسموگ کا مسئلہ ہے۔ بھارت کا دارالخلافہ دہلی کا بھی برا حال ہے، وہاں بھی اسموگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، پورے خطہ کا مسئلہ ہے۔ ہم مل کر ہی اس کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے تعلقات ہی نہیں ہیں کہ ماحولیات پر تعاون ہو سکے۔ مل کر کوئی پالیسیاں بنائی جا سکیں، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھا جا سکے۔ اس لیے مشترکہ پالیسی اور حل تلاش کرنے کی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

موجودہ حکومت نے اسموگ سے نبٹنے کے لیے ایک سال میں کافی کام کیے ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کسان فصلوں کی باقیات جلاتے تھے، ان کو روکنے کے لیے جدید مشینیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن کسانوں کو جلانے کی پرانی عادت ہے، ابھی بھی اس کو مکمل روک نہیں سکے ہیں۔ صنعتوں پر ماحولیات کا سخت نفاذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن آپ کہیں سب ٹھیک ہوگیا ہے، غلط ہوگا۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہر آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہر ہیں۔ اسموگ کا راج ہے۔ اسموگ سے نبٹنا کوئی اتنا آسان نہیں۔ اس سے پہلے لندن اور بیجنگ جیسے بڑے شہر بھی اسموگ کا شکار رہے ہیں۔

لندن اور بیجنگ اسموگ بہت مشہور رہی ہیں۔ آج وہاں صورتحال بہتر نظر آرہی ہے۔ لیکن دس سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے صورتحال کو تبدیل کرنے میں۔ پنجاب میں بھی اگر یکسوئی سے کام کیا جائے تو دس سال لگ جائیں گے۔ لیکن یکسوئی بنیادی شرط ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل بنیادی شرط ہے۔ یہاں حکومت بدلتی ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پالیسیاں بدل جاتی ہیں، جس سے اسموگ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔بہرحال آج کل اسموگ کا راج ہے ۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں اسموگ کا زور کم کرنے کے لیے اینٹی اسموگ گن درآمد کی ہیں۔

لاہو رکی سڑکوں پر اینٹی اسموگ گن چلتی نظر آرہی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں اسموگ رہی ہے وہاں یہ اینٹی اسموگ گن استعمال کی گئی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ اسموگ کو مستقل ختم نہیں کرتیں۔ لیکن جس علاقہ میں اس کو استعمال کیا جائے وہاں اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ اسموگ کا مکمل علاج نہیں ہیں لیکن فوری ریلیف ضروری دیتی ہیں۔ جیسے درد کم کرتی ہیں لیکن بیماری کا علاج نہیں ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اسموگ کو ختم کرنے کے دیرپا حل مکمل نہیں کر لیتے اس درمیانے عرصے کے لیے اینٹی اسموگ گنز ایک بہترین آپشن ہیں۔

ایک تنقید یہ سامنے آرہی ہے کہ اس کا اثر محدود ہے۔ لیکن یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا کہ اس کا کوئی اثر نہیں۔ ویسے تجرباتی طور پر لاہور میں صرف پندرہ اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں۔ یہ لاہور کے لیے بہت کم ہیں۔ لاہور بہت بڑا شہر ہے یہ سارے لاہور کو کور ہی نہیں کر سکتیں۔ جس سڑک پر استعمال کی جاتی ہے صرف وہیں اثر ہوتا ہے۔ مزید گاڑیاں ہونی چاہیے تا کہ ان کے صحیح اثرات لوگوں کے سامنے آسکیں۔ کم تعداد اس پر تنقید کرنے والوں کو دلیل دے رہی ہے۔ جب اینٹی اسموگ گن کی تعداد بڑھ جائے گی تو نتائج بھی بہتر سامنے آئیں گے، تنقید بھی ختم ہو جائے گی۔

اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں اس اینٹی اسموگ گن کا استعمال کیا گیا ہے وہاں اسموگ میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن یہ جس علاقہ میں استعمال کی جائے وہیں کمی ہوتی ہے۔ سارے لاہور کو یک دم کم نہیں کر سکتی۔ کئی علاقوں میں چالیس فیصد تک کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اس لیے میں اس تجرنے کو ناکام نہیں کہہ رہا ہے۔ میں اس کو جاری رکھنے اور ان کی تعداد بڑھانے کے حق میں ہوں۔ سارے شہروں میں یکساں استعمال کی جائیں گی تو عمومی فرق بھی سامنے آئے گا۔ آپ ماحولیات کے جزیرے نہیں بنا سکتے۔ ایک علاقہ میں بہتر کر لیں ساتھ والے علاقہ کو رہنے دیں، یکساں استعمال ہی بہتر نتائج دے گا۔

سادہ سی بات ہے، ہم کہتے ہیں کہ اگر بارش ہو جائے تو اسموگ ختم ہو جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے نگران دور میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے متحدہ عرب امارات سے مصنوعی بارش برسانے کے لیے جہاز بھی منگوایا تھا۔ وہ دو تین دن مصنوعی بارش کر کے چلا گیا۔ وہ بہت مہنگا تھا۔ اتنی مہنگی مصنوعی بارش ممکن نہیں۔ پھرایک جہاز کافی نہیں۔ چند دن کافی نہیں۔ سارے شہروں میں کیسے کی جائے۔ یہ اینٹی اسموگ گن بھی ایک طرح سے مصنوعی بارش کی ہی ایک شکل ہے۔ پانی فضا میں ایک گن سے پھینکا جاتا ہے جو فضا میں جاکر اسموگ کو ختم کرتا ہے۔ ابھی جو اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں، ان کی رینج 120میٹر ہے۔ جو اسموگ کے ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔

بیجنگ میں اور دہلی میں بھی یہی استعمال ہوتی رہی ہیں، بین الاقوامی معیار یہی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں حکومت کوئی بھی کام کرے تواس پر تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے۔ حکومت کوئی کام کرے تو اس پر تنقید کریں، اگر کوئی کام نہ کرے تو پھر اور تنقید کریں۔ کئی سالوں سے اسموگ کا شکار پنجاب لانگ ٹرم پالیسیاں تو بنا رہا ہے، ان کے نتائج بھی وقت سے آئیں گے۔ ہمسایوں کے بھی مسائل ہیں۔ لیکن فوری حل بھی کرنا حکومت کا کام ہے۔ کئی سالوں سے کوئی فوری حل نہیں تھا۔ ہم خاموش بیٹھے تھے۔

آج ایک حل سامنے آیا ہے تو دوست اس پر بے وجہ تنقید کر رہے ہیں۔ جب تک حکومت کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے، کام آگے کیسے بڑھے گا۔ اگر کسی کے پاس کوئی متبادل حل ہے تو بتائیں۔ اس پر بات ہو جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب خصوصی داد کی مستحق ہیں کہ کم از کم کوئی تو حل سامنے لائی ہیں۔ بہر حال اسموگ کا راج ہے اور فی الحال فوری حل اینٹی اسموگ گن ہی ہیں۔ اس پر تنقید کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یہ مزید منگوائی جائیں تا کہ ان کا اثر کھل کر سامنے آسکے اور تنقید نگاروں کی تنقید ختم ہو سکے۔ ڈر کر اس منصوبے کو ختم کرنا بزدلی ہوگی اور مجھے پتہ ہے پنجاب حکومت بزدل نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • آشنائی اور پسند کی شادی
  • تہجد کا انعام
  • اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز
  • کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے