بھارت ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کا پشت پناہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
امریکہ میں سکھوں کی عالمی تنظیم سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ٹرین دہشت گرد حملے میں ‘را’ ملوث ہے۔ عالمی ادارے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور ”را”کیخلاف کارروائی کریں۔ پاکستان کے خلاف بھارت خفیہ جنگی حکمتِ عملی کے بلیو پرنٹ پر عمل کر رہا ہے۔ مودی کا بھارت صرف علاقائی خطرہ نہیں، یہ ایک مکمل دہشتگرد حکومت ہے۔
مودی حکومت پرتشدد بین الاقوامی جبر میں مصروف ہے۔بلوچستان ٹرین حملہ بھارت کے جارحانہ دفاعی نظریئے کا ثبوت ہے۔ بھارت بیرونِ ملک مخالفین کے قتل، انتہا پسندی اور سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے۔ مودی نے بھارت کو ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی کا عالمی مرکز بنا دیا ہے۔ ‘را’ کی بے قابو کارروائیاں جنوبی ایشیاء کو خطرے میں ڈال رہی ہیں اور ریاستی تشدد کی خطرناک عالمی مثال قائم کر رہی ہیں۔
گرپتونت سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت کے انٹیلی جنس آپریٹس پر سفارتی اور سکیورٹی پابندیاں لگائی جائیں۔ دنیا اب بھارت کی خفیہ دہشت گردانہ کارروائیوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ بھارت کا احتساب نہ کیا گیا توان کا اگلا حملہ اور بھی زیادہ معصوم جانیں لے گا۔ دفتر خارجہ پاکستان نے کہا ہے جعفر ایکسپریس پر حملہ بیرون ملک بیٹھے دہشتگردوں کا پلان تھا۔ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جعفر ایکسپریس دہشتگردی میں بھی دہشتگردوں کے بیرون ممالک رابطے تھے جبکہ اس واقعے کے دوران ٹریس شدہ کالز میں افغانستان سے رابطوں کا سراغ ملا ہے ۔پاکستان دہشتگردی کاشکار رہا ہے اور ان تخریب کاروں کا نشانہ رہا ہے جو ہماری سرحدوں سے باہر ہیں۔ افغان حکومت پر زور دیتے ہیں ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرے اور پاکستان کیساتھ تعاون کرے۔ترجمان نے واضح کیا کہ جو موجودہ واقعے کی بات کر رہا تھا۔ اس میں ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو افغانستان سے کی جانے والی کالز کو ٹریس کرتے ہیں۔ ہم نے ابھی جعفر ایکسپریس دہشتگردی پر ریسکیو آپریشن مکمل کیا ہے اور ہم سفارتی رابطوں کو اس طرح پبلک فورم پر بیان نہیں کرتے ۔ ماضی میں بھی ہم ایسے واقعات کی مکمل تفصیلات افغانستان کے ساتھ شئیر کرتے رہے ہیں اور یہ ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے ۔ہمارے بہت سے دوست ممالک نے جعفر ایکسپریس حملے کی مذمت کی ہے جبکہ ہمارے کئی دوستوں سے ہمارا انسداد دہشتگردی پر تعاون موجود ہے ۔ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پروپیگنڈا ہو رہا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا۔ ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھناچاہتے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر چوکی بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ ہم افغان حکام کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ کوئی بھی تعمیرات کریں۔ افغانستان پر ہماری بنیادی ترجیح دوستانہ و قریبی تعلقات کا فروغ ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت نے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور اس مقصد کیلئے 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ جب پاکستان نے ان بھارتی سازشوں کا خود کو ایٹمی قوت بنا کر توڑ کیا تو بھارت نے کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں پر کنٹرول کرکے پاکستان پر آبی دہشت گردی شروع کر دی اور اسکے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے سازشی نیٹ ورک کا دائرہ پھیلاتے ہوئے پاکستان کے اندر اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے تخریب کاری’ خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔
یہ امر واقع ہے کہ جب 2005ء میں بلوچ قوم پرست لیڈر نواب اکبر بگتی کی فوجی اپریشن کے دوران ہلاکت ہوئی جس کیخلاف بالخصوص بلوچ نوجوانوں کا ردعمل سامنے آیا تو بھارت نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں آگے بڑھانے کیلئے اس موقع کو غنیمت جانا اور بلوچ نوجوانوں کی فنڈنگ اور سرپرستی کرکے بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکری تنظیم بی ایل اے کی بنیاد رکھوائی۔ اس تنظیم نے بظاہر نواب اکبر بگتی کے قتل پر ناراضگی کے اظہار کیلئے اپنے پلیٹ فارم پر بلوچستان میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت بلوچ نوجوانوں کو علیحدگی کی تحریک کے راستے پر ڈال لیا جنہوں نے درحقیقت بھارتی ایماء پر ہی بلوچستان میں تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا اور زیارت میں موجود قائداعظم کی ریذیڈنسی تک پر حملہ کرکے اسے تباہ کیا۔
یہ صورتحال بلاشبہ ریاستی اتھارٹی کیلئے ایک چیلنج تھی چنانچہ بلوچستان میں ایف سی (فرنٹیئر کانسٹیبلری) کے ذریعے علیحدگی پسند عناصر کیخلاف اپریشن شروع کیا گیا اور وفاقی حکمرانوں کی جانب سے ان علیحدگی پسند بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں بھی کی جانے لگیں مگر بھارت نے انہیں مختلف ترغیبات دیکر علیحدگی پسندی کے راستے پر لگائے رکھا۔ اسی تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے دور اقتدار میں یہ بڑ ماری تھی کہ پاکستان کو سقوط ڈھاکہ جیسے ایک اور سانحہ سے دوچار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ دہشت گرد تنظیم بی ایل اے صرف بھارتی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں کر رہی ہے اور بلوچستان میں دہشت گردی’ ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کی دوسری وارداتوں میں مصروف ہے۔
پاک فوج ان عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کیلئے پرعزم ہے اور اسی بنیاد پر سکیورٹی فورسز کے افسران اور اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر ان اپریشنز کے خلاف سوشل میڈیا پر ملک کے اندر یا باہر سے زہریلا پراپیگنڈا کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان عناصر کا بھارت سے رابطے میں ہونا بعیدازقیاس نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان کی سلامتی جعفر ایکسپریس بلوچستان میں بھارت نے کا سلسلہ رہا ہے ہے اور
پڑھیں:
جنگ بندی کیسے ہوئی؟ کس نے پہل کی؟مودی سرکار کی پارلیمنٹ میں آئیں بائیں شائیں
بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں مودی سرکار نے دعویٰ کیاکہ 10 مئی کو دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز کے درمیان براہ راست رابطے کے نتیجے میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، جس کاآغاز پاکستان نے کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی امریکی مداخلت کی وجہ سے ہوئی؟
لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میںبھارتی وزیر مملکت برائے امور خارجہ کیرتی وردھن سنگھ نے کہا کہ ہمارے تمام بات چیت کرنے والوں کو ایک ہی پیغام پہنچایا گیا ہے کہ بھارت کا نقطہ نظر ہدف پر مبنی، متوازن ہے اور اس سے کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔
کیرتی وردھن سنگھ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان نے 10 مئی کو دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان براہ راست رابطے کے نتیجے میں فائرنگ اور فوجی سرگرمیاں روکنے پر اتفاق کیا تھا، جس کا آغاز پاکستانی جانب سے کیا گیا تھا۔
انہوں نےیہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارت نے 8 مئی کو ہی پاکستان اورآزادکشمیر میں دہشت گردی کے کیمپوں کو تباہ کرنے کے اپنے بنیادی مقاصد حاصل کر لیے تھے۔
بھارتی وزیر نے کہا کہ 22 اپریل سے 10 مئی تک پہلگام دہشت گردانہ حملے سے لے کر امریکہ سمیت مختلف سطحوں پر مختلف ممالک کے ساتھ کئی سفارتی بات چیت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کو 9 مئی کو مطلع کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے بڑا حملہ کیا توبھارت ‘مناسب جواب دے گا۔ ہماری تجارتی بات چیت کا معاملہ (بھارت پاکستان) تنازعہ سے متعلق بات چیت کے تناظر میں نہیں اٹھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تیسرے فریق کی ثالثی کی کسی بھی تجویز کے حوالے سے ہمارا دیرینہ موقف یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی زیر التوا معاملے پر صرف دو طرفہ بات چیت کی جائے گی۔ وزیر اعظم کی طرف سے امریکی صدر کو اس سے آگاہ کرنے سمیت تمام ممالک پر یہ واضح کر دیا گیا ہے۔