صدر ٹرمپ کے جج کیخلاف توہین آمیز ریمارکس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس برہم
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فیڈرل ججز کے فیصلوں پر شدید تنقید اور ججز کو مواخذے کا سامنا کروانے کی دھمکے کے بعد امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بول پڑے ہیں۔
امریکی چیف جسٹس جون روبرٹس نے ایک بیان میں کہا کہ 2 صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ طے ہے کہ کسی عدالتی فیصلے پر اختلاف رائے کے نتیجے میں مواخذہ ایک مناسب جواب نہیں ہے۔
امریکی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے معمول کے اپیل کے جائزے کا عمل موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی مفاد کی بات ہوگی تو گرین کارڈ ہولڈرز کو بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے، نائب امریکی صدر
واضح رہے کہ یہ بیان انہوں نے چیمبر سے باہر دیا ہے اور امریکا سمیت دنیا بھر میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ججز کسی معاملے پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کریں۔
واضح رہے کہ واشنگٹن کے ڈسٹرکٹ جج جیمز بوسبرگ نے وینزویلا سے تعلق رکھنے رکھنے والے مبینہ گینگ ممبرز کو ملک بدر کرنے کے صدارتی حکمنامے پر حکم امتناع جاری کیا تھا جس پر پیر کے روز صدر ٹرمپ نے مذکورہ جج کو مواخذے کی دھمکی دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں وہ کررہا ہوں جو میرے ووٹرز مجھے کرتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس قسم کے ججز کا مواخذہ ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: غیر قانونی تارکین وطن کی امریکا بدری، ڈونلڈ ٹرمپ کا فوج کی مدد لینے کا فیصلہ
امریکا میں صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد ان کے سیاسی مخالفین اور نقادوں کا کہنا ہے کہ ملک بدترین سیاسی اور آئینی بحران کی طرف جاسکتا ہے کیوں کہ صدر اور ان سے منسلک امریکی حکام عدالتی فیصلوں کی پیروی نہیں کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ جنوری میں حلف اٹھانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سینکڑوں صداتی حکمناموں پر دستخط کیے تاہم ان میں سے کئی ایک امریکی عدالتوں میں چیلنج کیا گیا جس پر وائٹ ہاؤس اور امریکی عدالتوں کے درمیان سرد مہری کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
chief justice US CHIEF JUSTICE امریکی چیف جسٹس امریکی سہریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی چیف جسٹس امریکی سہریم کورٹ چیف جسٹس
پڑھیں:
سپریم کورٹ بار کا بھارتی سفارتکاروں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار نے بھارتی سفارتکاروں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کردیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے ساتھ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ہے۔
اس کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کے ساتھ دیگر سفارتی اور سرحدی تعلقات کو بھی سخت کرنے کے متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھارتی فیصلوں پر سخت رد عمل جاری کیا گیا اور اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیہ میں بھارتی سفارتکاروں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بار کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ بھارتی سفارتکاروں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا کہا جائے اور قومی وقار کے تحفظ کیلئے سخت جواب ناگزیر ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ پہلگام واقعہ فالس فلیگ آپریشن کی کلاسیک مثال ہے۔