ٹیکس چور اور کرپٹ لوگ کبھی قومی یکجہتی قائم نہیں کر سکتے، ترجمان کے پی حکومت
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
پشاور:
مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ ٹیکس چور اور کرپٹ لوگ کبھی قومی یکجہتی قائم نہیں کر سکتے۔
اپنے بیان میں صوبائی مشیر نے کہا کہ شریف خاندان کا فرزند حسن نواز لندن میں بھی ٹیکس ڈیفالٹر قرار پایا۔ شریف خاندان اب بین الاقوامی سطح پر بھی ٹیکس چور ثابت ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ بیرون ملک جا کر اپنے ملک کے لیے نیک نامی کماتے ہیں، مگر یہ ملک کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا، جب کہ شریف خاندان بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔برطانیہ کے سخت قوانین کے باوجود بھی یہ ٹیکس چوری سے باز نہیں آئے۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ آدھا خاندان لندن میں اور آدھا پاکستان میں ٹیکس چوری میں مصروف ہے۔ ٹیکس چوری کی وجہ سے پاکستان میں ان کا کاروبار بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ دیگر سرمایہ کار دیوالیہ ہو رہے ہیں۔شریف خاندان ماضی میں بھی منی لانڈرنگ میں ملوث رہا ہے، اس لیے یہ اس پن کے ماہر ہے۔
ترجمان کے پی حکومت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس چوری اور قومی خزانے کو لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ بیرون ملک منتقل کرانا ان کا وتیرہ ہے۔ قومی خزانے کو لوٹ کر لندن اور دیگر ممالک میں جائیدادیں بنائی جا رہی ہیں۔ حکمرانی پاکستان میں ہے، مگر جائیدادیں بیرون ملک بنائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس چور اور کرپٹ لوگ کبھی بھی قومی یکجہتی میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ قوم کرپٹ ٹولے سے نالاں ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قومی یکجہتی ناممکن ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی یکجہتی شریف خاندان پاکستان میں ٹیکس چوری ٹیکس چور رہا ہے
پڑھیں:
کبھی کبھار…
’’ نہیں مامون… ایسا نہیں ہے، آپ سے زیادہ کون پیارا ہو سکتا ہے مجھے؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی کان پوری طرح اس طرف مرکوز ہو گئے جہاں وہ خوبصورت سی نوجوان لڑکی، اس آدمی کو اپنے پیار کا یقین دلا رہی تھی۔’’ مجھے کوئی شک نہیں ہے تمہارے پیار میں اور تم بھی جانتی ہو میری پیاری کہ میں تمہیں دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں ۔‘‘ جواب میں بھی ایسی ہی چاہت کا اظہار کیا گیا۔ اگر ایسا تھا تو پھر مسئلہ کیا تھا، دونوں کے لہجے چغلی کھا رہے تھے کہ ان کے بیچ کوئی مسئلہ ہوا ہے اور انھیں اس محبت پر شک ہو گیا ہے جس کا وہ ایک دوسرے کو یقین دلا رہے تھے۔ اپنی توجہ اپنے کھانے پر مرکوز کی، بصد کوشش۔
’’ ہر گز نہیں… ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ اس آدمی نے سختی سے کہا، ’’عینی، تم ہر گز بل نہیں دو گی۔‘‘
’’ نہیں مامون، پلیز… اس بار مجھے بل ادا کرنے دیں۔‘‘ اس نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
’’ تم سمجھتی ہو کہ تمہارے پاس ڈالر ہیں اس لیے تم مجھ سے زیادہ امیر ہو، رہنے دو اپنی دولت کا رعب۔‘‘ اس نے اس کے ہاتھ سے اس کا کارڈ لے لیا، ’’ چلو اس کے بعد کہیں سے اچھی سی آئس کریم کھاتے ہیں، اس کا بل تم دے دینا۔‘‘ اس کے کہنے پر لڑکی نے اصرار کرنا چھوڑ دیا اور بل کی ادائیگی کا انتظار کرنے لگی۔ بل ادا کر کے وہ دونوں آگے پیچھے باہر نکل گئے اور ہم پھر اپنا کھانا کھانے لگے۔’’کتنا اچھا لگتا ہے نہ کبھی کبھار میاں بیوی کا یوں آپسیں محبت کا اقرار کرنا،یہ بھی ایک ٹانک ہے‘‘ ۔ ایک سہیلی نے کہا، ’’ نہ صرف یہ بلکہ یوں اس طرح کے ماحول میں، گھر سے باہراچھی جگہ پر کھانا کھاتے ہوئے۔‘‘
’’ ذرا اوچھا سا لگا مجھے…ٹانک کے بجائے ناٹک کہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘ دوسری رائے آئی، ’’ اگر ناراض تھے تو پہلے گھر پر صلح کر کے پھر کھانا کھانے آتے نا۔‘‘
’’ بھئی ہماری اور ان کی عمروں کا فرق ہے، نیا زمانہ ہے اورنئے طور طریقے۔‘‘ ایک اور رائے۔
’’ میں تو یوں میاں سے ناراض ہوتی تو اس کے ساتھ باہر کھانا کھانے آتی ہی نا۔‘‘ پہلے والی کی دوسری رائے۔
’’ ہاں، سو تو ہے۔ پہلے گھر پر میاں منا لے تو ہی بندہ گھر سے نکلے نا کہ کہیں دوبارہ باہر لڑائی ہو جائے، بات بڑھ جائے تو سارا کھانا تو گیا بھاڑ میں۔ پبلک میں کوئی نیا سین ہو جائے… بات ادھوری ہی رہ گئی ، وہ واپس آ رہی تھی جسے مامون نے تھوڑی دیر پہلے عینی کہا تھا۔ لگا کہ وہ ہمارے پاس ہی آ رہی تھی کیونکہ وہ ہمارے ساتھ والی میزپر ہی تو بیٹھے تھے۔ لگتا ہے کہ باہر نکل کر پھر لڑائی ہوگئی ہے، میںنے دل میں سوچا تھا۔ آئس کریم بھی نہیں کھائی ہو گی۔
’’ السلام علیکم!‘‘ اس نے ہماری میز کے قریب آ کر کہا، ہم سب نے سلام کا جواب دیا تھا۔ اس میز کی طرف گئی جہاں انھوں نے کھانا کھایا تھا۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہی تھی، نہ ملا تو وہ کاؤنٹر کی طرف گئی، وہاں سے بھی مایوس ہو کر آئی اور ہماری میز کے نیچے جھانکنے لگی۔’’ کچھ ڈھونڈ رہی ہیں بیٹا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ ’’ وہ میرے ماموں کا بٹوہ کہیں گر گیا ہے… ‘‘ اس نے پریشانی سے کہا، ’’ انھوںنے بل ادا کرنے کے لیے نکالا تھا اور اسی دوران وہ گر گیا، کارڈ لے کر وہ نکل گئے اور بٹوہ یہیں رہ گیا۔’’ کس کا بٹوہ بیٹا؟‘‘ ہم نے جو سنا تھا اس کی تصدیق کے لیے ایک نے پوچھا تھا۔
’’ میں اور میرے ماموں ، ہم تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں پر کھانا کھا رہے تھے…‘‘ اس کی بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک ویٹر بھاگتا ہوا آیا اور اس کے ماموں کا بٹوہ اس کے حوالے کیا۔ بٹوہ اس ٹرے میں گر گیا تھا جو ویٹر اٹھا کر لے گیا تھا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے بٹوہ کھول کر ہزار روپے کا ایک نوٹ نکالا کہ ویٹر کو دے مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ ’’ بہت شکریہ بھائی!‘‘ اس نے مسکرا کر کہا اور ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر ہمارے منہ کھلے ہوئے چھوڑ کر چلی گئی۔ ماموں یقینا گاڑی میں اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔
’’ واؤ!!‘‘ ایک آواز نکلی تو ہمارے منہ بند ہو گئے، ’’ ماموں !!‘‘ جسے ہم مامون سمجھ رہے تھے وہ ماموں نکلے تھے۔ ہم کہاں سوچتے ہیں کہ ایک ہوٹل میں بیٹھے دو لوگ جو کھانا کھا رہے ہوں، وہ میاں بیوی کے علاوہ کوئی اور بھی ہو سکتے ہیں۔عورتیں بھی اپنے شوہروں کے علاوہ اپنے باپ، ماموں، چچا اور تایا، بھائی ، بیٹے ، داماد، بھانجے یا بھتیجے کے ساتھ باہر کھانے پر چلی جائیں ، کبھی کسی پکنک پر، کسی پارک میں، کبھی فلم دیکھنے۔ یہ کوئی ایسی معیوب بات ہے نہ مشکل کہ ممکن نہ ہو۔ اس چھوٹے سے واقعے نے ہم سب کے ذہنوں پر ایک نیا در وا کیا تھا اور ہم نے سوچا تھا کہ اپنے شوہروں کو بتائیں گی کہ ایسا ہونا کتنا مختلف اور اچھا ہے۔ صرف اس طرح کی ملاقاتوں اور تفریح میں خیال رکھیں کہ آپ کسی نامحرم کے ساتھ کہیں تنہا نہ جائیں۔