ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جنگ کا نتیجہ؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹرمپ ایران کو ایسے وقت میں دھمکی دے رہے ہیں، جب امریکہ کی فوجی طاقت اور خطرے سے دوچار ہونے کی صلاحیت 25 سال پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے، جبکہ دوسری طرف ایران کی دفاعی طاقت ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے۔ امریکی حکام کو عملی طور پر شہید سلیمانی کے ان الفاظ کی گہرائیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہید نے کہا تھا کہ "ہم امام حسین کی قوم ہیں، ہم شہیدوں کی قوم ہیں۔" انہوں نے واضح طور پر جواری ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آپ جو بھی جنگ شروع کریں گے، اس کا اختتام ہمارے ہاتھ میں ہوگا اور یاد رکھو، اس جنگ میں، خطے میں موجود تمھارے تمام وسائل اور تمھارا وجود تباہ و برباد ہو جائیں گے۔" تحریر: یداللہ جوانی جونی
ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے فوجی کارروائی کی دھمکیوں کا سلسلہ گذشتہ چار دہائیوں کے دوران تقریباً تمام امریکی صدور کی طرف سے جاری رہا، گویا تمام امریکی صدور کے لیے ایک مستقل عمل رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے بھی اپنے پیشروں کی طرح ایران کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ خطے کے حالات کو دیکھتے ہوئے، یہ دھمکی قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ جنگ کب اور کیسے ہوگی، یہ واضح نہیں ہے اور آیا ٹرمپ ایران کے خلاف دھمکی کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اب تک، ایک بات بہت واضح اور قابل پیش گوئی ہے اور وہ یہ کہ ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ جنگ کا حتمی نتیجہ امریکہ کے حق میں نہیں ہوگا۔
امریکی اس ممکنہ جنگ میں یقیناً شکست سے دوچار ہوں گے اور ان کا نقصان بھی ناقابل برداشت ہوگا۔ اس پیش گوئی کی وجہ وہی علاقائی حالات اور امریکی تجربات ہیں، جو ہم نے افغانستان اور عراق کی قوموں کے ہاتھوں امریکہ کی درگت بنتے دیکھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکیوں نے افغانستان اور عراق میں جنگ کیوں لڑی اور اس کے نتیجے میں کیا پایا۔؟ مسٹر ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مہم کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا تھا: "ہم نے مغربی ایشیاء میں سات کھرب ڈالر خرچ کیے اور کچھ حاصل نہیں کیا!"
ان سالوں میں امریکہ کو جو نقصان ہوا، وہ ان جنگوں کی وجہ سے ہوا، جو اس کے لیے بظاہر بہت آسان سمجھی جاتی تھیں۔ ان سالوں کے دوران، امریکیوں نے ایران پر حملہ کرنے کو ہمیشہ ایک مشکل اور دشوار ہدف قرار دیا اور اسی وجہ سے انہوں نے ایران کے خلاف اپنی دھمکیوں کو صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رکھا۔ ٹرمپ ایران کو ایسے وقت میں دھمکی دے رہے ہیں، جب امریکہ کی فوجی طاقت اور خطرے سے دوچار ہونے کی صلاحیت 25 سال پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے، جبکہ دوسری طرف ایران کی دفاعی طاقت ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے۔
امریکی حکام کو عملی طور پر شہید سلیمانی کے ان الفاظ کی گہرائیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہید نے کہا تھا کہ "ہم امام حسین کی قوم ہیں، ہم شہیدوں کی قوم ہیں۔" انہوں نے واضح طور پر جواری ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ جو بھی جنگ شروع کریں گے، اس کا اختتام ہمارے ہاتھ میں ہوگا اور یاد رکھو، اس جنگ میں، خطے میں موجود تمھارے تمام وسائل اور تمھارا وجود تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے مقابلے میں بہت ایران کے خلاف کی قوم ہیں کہا تھا کہ کی صلاحیت امریکہ کی
پڑھیں:
امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
امریکی صدر کی جانب سے ایک بار پھر غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کی حمایت کے بعد صیہونی فوج نے غزہ شہر پر حملے شدید کر دیے ہیں اور کل رات شدید فضائی حملوں کے بعد آج زمینی پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کو شروع ہوئے 711 دن ہو چکے ہیں اور کل رات سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ شہر پر شدید ترین بمباری کی ہے جبکہ آج سے زمینی حملے اور پیش قدمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ غزہ شہر پر صیہونی فوج کے حملوں میں شدت ایسے وقت آئی ہے جب امریکہ کے وزیر خارجہ مارک روبیو مقبوضہ فلسطین کے دورے پر ہے۔ کل رات کی شدید بمباری میں صبح تک دسیوں فلسطینی شہید ہو جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ حملے پوری طرح امریکہ کی حمایت سے کیے جا رہے ہیں۔ صیہونی جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور توپ خانے نے غزہ شہر کے کئی حصوں جیسے الدرج محلے میں واقع الزہرا اسکول اور رہائشی عمارتوں، النصیرات مہاجر کیمپ کے شمالی حصے، شہر کے مرکز میں شیخ رضوان محلے، مغرب میں الشاطی مہاجر کیمپ، جنوب میں تل الہوا، دیر البلح شہر میں السوق روڈ اور غزہ شہر کے شمال میں الامن العام علاقے میں رہائشی عمارات، البریج مہاجر کیمپ اور کئی دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ شہر کے الشوای چوک سے ملبے کے نیچے سے دو بچوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 30 افراد اب تک ملبے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
اسی طرح غزہ شہر کے جنوب میں الخضریہ محلے میں 4 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ شہر کے شمال میں الامن العام محلے میں ملبے کے نیچے سے 8 فلسطینیوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 40 فلسطینی اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیانیے میں صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتس کے گستاخانہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا شہر امریکہ کے دیے گئے میزائلوں کی وجہ سے آگ میں جل رہا ہے لیکن ہماری عوام استقامت اور مزاحمت کے ذریعے دشمن کے اوہام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔" یاد رہے صیہونی رژیم کے وزیر جنگ نے غزہ شہر پر شدید فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہا تھا کہ "غزہ آگ میں جل رہا ہے۔" اخبار ایگسیوس نے صیہونی حکام کے بقول دعوی کیا ہے کہ صیہونی فوج پیر کے دن غزہ شہر پر فوجی قبضہ جمانے کے لیے زمینی حملے کا آغاز کر دے گی۔ اس اخبار نے مزید لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ شہر پر زمینی کاروائی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس امریکی اخبار کے بقول امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ٹرمپ حکومت غزہ پر زمینی حملے کی حمایت کرتی ہے اور تاکید کی ہے کہ صیہونی فوج کم ترین وقت میں غزہ شہر پر قبضہ مکمل کرے۔ اخبار ایگسیوس نے اسی طرح ایک اعلی سطحی اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے بقول فاش کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے اسرائیلی حکام سے غزہ پر زمینی حملہ روک دینے کی درخواست نہیں کی ہے۔ ایک امریکی حکومتی عہدیدار نے اخبار ایگسیوس کو بتایا تھا کہ: "ٹرمپ حکومت اسرائیل کو نہیں روکے گی اور اسے غزہ جنگ سے متعلق اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کی اجازت دے گی۔" ایگسیوس نے ایک امریکی حکومتی عہدیدار کے بقول لکھا: "غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو کی جنگ ہے اور مستقبل میں جو کچھ بھی ہو گا اس کی ذمہ داری نیتن یاہو پر ہو گی۔"