ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, November 2025 GMT
برج حمل ، سیارہ مریخ، 21 مارچ سے 20 اپریل 
اس وقت آپ کو دوسروں کے معاملات سے بالکل الگ رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ آپ کو چاہیے کہ صرف اپنے مسئلے ٹھیک کریں، آج کل دشمن بھی بے حد چوکنا ہے۔
 برج ثور، سیارہ زہرہ، 21 اپریل سے 20 مئی 
 لوگوں کی باتوں میں آکر اپنی پوزیشن تبدیل نہ کریں ورنہ آپ کو بے حد نقصان ہوگا۔ ان دنوں آپ چلتے چلتے غلط سمت کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
برج جوزہ، سیارہ عطارد، 21 مئی سے 20 جون
آپ کو اب خاص طور پر اپنے گھریلو معاملات پر گہری نظر رکھنی ہے کچھ تو ہے جو آپ کو دکھائی نہیں دے رہا اور آپ کی پوزیشن کو کمزور کررہا ہے فوری توجہ دیں۔
تائیوان پر حملے کی صورت میں چین کو نتائج کا اندازہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
برج سرطان، سیارہ چاند، 21 جون سے 20 جولائی
 اللہ پاک سے بڑی امید ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں آپ کو اپنے معاملات میں آسانیاں دے گا اوراس کی ابتدا اب شروع ہو چکی ہے اس لئے چوکنا رہیں۔
برج اسد، سیارہ شمس، 21 جولائی سے 21 اگست
 آج ایک اہم دن ہے آپ کو چوکنا رہنا ہوگا۔ دشمن سے خطرہ بھی ہے اور آپ کی ذرا سی لاپرواہی آپ کے لئے آگے چل کر مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
برج سنبلہ ، سیارہ عطارد، 22 اگست سے 22 ستمبر.                
      
				
آپ ہر اس مسئلے سے دور رہیں جس میں آپ کو کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس ہو اور اپنوں یعنی سگے بہن بھائیوں کو بھی اپنے دل کے راز ہرگز نہ بتائیں۔
امریکا اور قطر نے مشرقِ وسطیٰ میں پہلا دوطرفہ ایئر ڈیفنس کمانڈ سینٹر قائم کر دیا: سینٹ کام
برج میزان ، سیارہ زہرہ، 23 ستمبر سے 22 اکتوبر
 کالے ماش کو اپنے اوپر وار کر کیڑوں، مکوڑوں کو ڈالیں اور پرندوں کو بھی خوراک ڈالیں اس سے ہر طرح کی بندش سے انشاءاللہ آزاد ہونا شروع ہوجائیں گے۔
برج عقرب ، سیارہ مریخ، 23 اکتوبر سے 22 نومبر
 آپ مسلسل بندش جیسی صورت حال کا شکار ہیں۔ آپ سورئہ قلم اس کی آخری دو آیات اور سورئہ حشر کی آخری تین ایات صبح و شام پڑھ کر خود پر پھونک لیا کریں بہتررہے گا۔
برج قوس ، سیارہ مشتری، 23 نومبر سے 20 دسمبر
 آپ کو اب انشاءاللہ بہتر حالات میں تبدیلی کے مواقع نصیب ہوں گے اور جن لوگوں سے لین دین کا معاملہ ہے اس سے نجات بھی ملے گی معاملات حل ہوں گے۔
سلامتی سے استحکام تک: فوجی قیادت کا متوازن سفر
برج جدی ، سیارہ زحل، 21 دسمبر سے 19 جنوری 
 جو لوگ کافی دنوں سے ہماری بندش ،بدنظری جیسے معاملات سے گزر رہے ہیں، وہ استخارے سے مدد لیں، آپ کچھ تو غلط کررہے ہیں جو آپ کے ساتھ سب کچھ ہو رہا ہے۔
برج دلو ، سیارہ زحل، 20 جنوری سے 18 فروری 
 اصلاح کریں اپنی اور نظروں کی حفاظت بھی لازم کریں ان دنوں آپ جسمانی کشش کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ موبائل کی جان نہیں چھوڑ رہے خدا کے لئے خود پر ظلم نہ کریں۔
 برج حوت ، سیارہ مشتری، 19 فروری سے 20 مارچ
آپ کو بار بار مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کے درمیان نہ آئیں جو آپسی جھگڑوں کو نہیں چھوڑ رہے۔ اس طرح سارا ملبہ آپ پر آ جائے گا اور آپ بری طرح پھنس جائیں گے۔
استنبول میں وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب حقان فیدان سے اہم ملاقات
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
ڈپریشن یا کچھ اور
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔
ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔
اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔
دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔
انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔
ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔
پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟
دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔
سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔