حماس جنگ بندی اور امریکی سمیت 5 یرغمالی رہا کرنے پر رضامند
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
حماس نے مصر اور قطر کی جانب سے غزہ میں 50 روزہ جنگ بندی کی تجویز کے تحت امریکا اور اسرائیل کے ایڈن الیگزینڈر سمیت 5 یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ: عید کے موقعے پر اسرائیلی بمباری، 5 بچوں سمیت 8 افراد شہید
غیر ملکی میڈیا کے مطابق حماس کے رہنما خلیل الحیا نے 2روز قبل پیش کی گئی تجویز کی منظوری کے بعد جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان کردیا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے ہفتے کی شب کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے ثالثوں کو امریکاہ کے ساتھ مکمل تعاون کے ساتھ جوابی تجویز سے آگاہ کر دیا ہے۔
حماس کے رہنما نے گروپ نے غزہ میں شہری انتظامیہ کی نگرانی کے لیے ماہرین کی ایک آزاد تنظیم تشکیل دینے کے منصوبے کو قبول کرلیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس غیر مسلح نہیں ہوگی۔
کوئی نقل مکانی نہیں ہوگی، حماس رہنماالحیا نے کہا کہ ہم کبھی بھی اپنے لوگوں کی بے عزتی اور توہین کو قبول نہیں کریں گے لہذا کوئی جلاوطنی یا نقل مکانی نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب کی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت، فلسطینیوں کے حق خودارادیت پر زور
انہوں نے کہا کہ جہاں تک مزاحمت کے ہتھیاروں کا تعلق ہے وہ ایک ریڈ لائن ہے جو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے منسلک ہے۔
یہ تجویز اسی طرح کی ہے جو کئی ہفتے قبل امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پیش کی تھی۔ سی این این کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس میں ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی اضافی لاشوں کی رہائی بھی شامل ہے یا نہیں۔
اسرائیل کے خیال میں 24 یرغمالی اب بھی زندہ ہیںجنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران اسرائیل نے 25 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو وصول کیا ہے جبکہ اسے 4 یرغمالی کی لاشیں ملی ہیں۔
گیا ہے۔ اسرائیل اب تک 1135 قیدیوں کو رہا کر چکا ہے۔
اس تجویز میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی شرائط میں توسیع کی گئی ہے جس میں غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔ اصل جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 18 جنوری کو شروع ہوا اور یکم مارچ کو ختم ہوا۔
اس تجویز کے دوسرے مرحلے میں لڑائی کو مستقل طور پر روکنے اور اسرائیلی فوج کو غزہ سے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ منصوبے کے مطابق باقی یرغمالیوں کی واپسی اور فلسطینی انکلیو کو مکمل طور پر غیر فوجی بھی بنانا بھی ہوگا۔
مزید پڑھیں: غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی تشدد کی مذمت، اقوام متحدہ کا امداد کی فراہمی بحال کرنے پر زور
جب پہلے مرحلے کا معاہدہ یکم مارچ کو ختم ہوا تو اسرائیل نے غزہ میں دوبارہ حملے کیے اور علاقے میں داخل ہونے والی انسانی امداد کی مکمل ناکہ بندی کر دی تھی۔
غزہ کی حماد کے زیر انتظام وزارت صحت نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ 18 مارچ کو اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر حملے دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے فلسطینی علاقے میں 921 افراد مارے جاچکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جنگ میں غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 50 ہزار 82 فلسطینیوں کی شہادت اور ایک لاکھ 13 ہزار 408 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس حماس یرغمالی رہا کرنے پر راضی غزہ جنگ بندی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل حماس یرغمالی رہا کرنے پر راضی
پڑھیں:
حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔
رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔یہ بات انہوں نے استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران کہی؛
اپنے خطاب میں ان انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔
اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔
مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔