اسرائیلی حملے جاری، 5 بچوں سمیت 20 فلسطینی شہید، غزہ میں عید کی خوشیاں ماتم میں تبدیل
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
غزہ: فلسطینیوں کے لیے ایک اور عید المناک یادوں کے ساتھ آئی، جہاں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 20 افراد شہید ہو گئے، جن میں 5 بچے بھی شامل ہیں۔ غزہ کے باشندے روایتی عید کی خوشیوں کے بجائے فضائی حملوں، تباہ شدہ گھروں اور جنازوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق خان یونس میں علی الصبح ہونے والے ایک فضائی حملے میں 8 فلسطینی شہید ہو گئے۔ فلسطینی ماں نہلہ ابو متار کا کہنا تھا کہ عید جو پہلے خوشی اور ملاقاتوں کا دن تھا، اب جنازے اور تدفین کا دن بن چکا ہے۔
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں خان یونس میں 8 افراد شہید ہوئے جن میں 5 بچے شامل تھے، المواسی پر حملے میں 3 نوجوان لڑکیاں شہید، جو عید کے نئے کپڑوں میں ملبوس تھیں جبکہ رفح میں مزید 11 لاشیں برآمد، جن میں 6 فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے ارکان شامل ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق مساجد، بازار اور گلیاں ویران ہو چکی ہیں۔ لوگ ملبے پر نماز عید ادا کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ ہزاروں بے گھر افراد عارضی خیموں میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق 18 مارچ کو اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کیں، جس کے بعد سے اب تک 900 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اکتوبر 2023 سے جاری حملوں میں 50 ہزار 277 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
فلسطینی شہری عزالدین موسا کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں معلوم نہیں کتنا وقت باقی ہے؟ ایک راکٹ کسی بھی وقت ہم پر گر سکتا ہے۔ ہمارے بچوں کی آنکھیں خوف کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن ہم انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شہید ہو
پڑھیں:
29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے موت کے منھ میں چلے گئے، اقوام متحدہ کا الرٹ جاری
جنیوا: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر اس وقفے کے بعد جب رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران امداد کی رسائی ممکن ہوئی تھی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی علاقے میں امداد کی ترسیل پر عالمی توجہ مرکوز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے امدادی نظام کے قریب، جن میں کئی افراد شہید ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتوں تک امدادی سامان پر سخت پابندی عائد کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتی ہے، تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اتحاد "نیوٹریشن کلسٹر" کے مطابق مئی کے دوسرے حصے میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 50,000 بچوں کو جانچا گیا، جن میں سے 5.8 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ مئی کے آغاز میں یہ شرح 4.7 فیصد تھی، جبکہ فروری میں، جنگ بندی کے دوران، یہ شرح اس سے تقریباً تین گنا کم تھی۔
مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں میں "شدید غذائی قلت" کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ایک جان لیوا حالت ہے اور مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی علاقے رفح میں موجود وہ مراکز جہاں شدید کیسز کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔