Islam Times:
2025-04-25@11:36:53 GMT

یمن میں امریکی "بھوت" کی ناکامی

اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT

یمن میں امریکی 'بھوت' کی ناکامی

اسلام ٹائمز: سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے دوران بھی امریکہ نے گذشتہ برس اکتوبر میں دو اسٹریٹجک بی 2 بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر فضائی بمباری کی تھی۔ امریکہ ان طیاروں کے ذریعے اپنے بقول انصاراللہ کی زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ ان حملوں میں کئی سرنگیں تباہ بھی ہوئیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر نے امریکہ کی شکست کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ امریکہ میں مقیم مغربی ایشیا امور کے ماہر محمد الباشا اس بارے میں کہتے ہیں: "کہا گیا ہے کہ امریکی حملوں میں کئی سرنگیں تباہ ہوئی ہیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف سرنگوں کے دہانے تھے اور یمنیوں نے نئے دہانے کھول لیے ہیں۔" فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک یمن پر زمینی حملہ انجام نہیں پاتا فضائی بمباری کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس سے انصاراللہ کی فوجی طاقت کمزور نہیں کی جا سکتی۔ تحریر: علی احمدی
 
امریکہ نے یمن پر فضائی حملے زیادہ شدید کر دیے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک بدرالدین الحوثی نے حال ہی میں اپنی تقریر میں بھوت کے نام سے معروف جدید ترین امریکی بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر امریکی فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "بعض دن تو امریکہ کے فضائی حملوں کی تعداد 90 تک جا پہنچتی ہے لیکن اس کے باوجود الحمد للہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے اور ہماری فوجی طاقت پر ان حملوں کا کوئی برا اثر نہیں پڑا۔ امریکہ کے فضائی حملے ملت فلسطین کی حمایت میں جاری ہماری فوجی کاروائیوں کو نہیں روک پائے اور نہ ہی بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور خلیج عدن میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کی تجارتی کشتیوں کی آمدورفت بحال ہو سکی ہے۔ امریکہ کو یمن کے حریت پسند رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی شکست ہوئی ہے۔"
 
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے اور خدا کی مدد سے مستقبل میں بھی اسے شکست ہو گی اور وہ اپنے مذموم اہداف حاصل نہیں کر پائے گا کیونکہ ہماری عوام خدا پر بھروسہ کرتی ہے، کہا: "یمن پر شدید فضائی حملے کوئی نئی بات نہیں ہے اور امریکہ نے گذشتہ آٹھ سال سے ہمارے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ کی وزارت دفاع کے عہدیداران یمن میں اپنی شکست اور ہماری فوجی طاقت کم کرنے میں ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ہماری قوم کے سامنے خدا کے راستے پر جہاد کا طویل راستہ موجود ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے دسویں سال میں ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سے براہ راست جنگ ہماری خواہش تھی۔ موجودہ جنگ ہمارے اور اسرائیلی دشمن کے درمیان ہے جبکہ امریکہ بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ ہم ان کی طرح نہیں ہیں جو اسرائیلی دشمن کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔"
 
سوشل میڈیا پر جنگ کی منصوبہ بندی
یمن کے خلاف ٹرمپ حکومت کی فوجی کاروائی کی تفصیلات گذشتہ ہفتے اس وقت منظرعام پر آ گئیں جب امریکہ کے اعلی سطحی سیکورٹی عہدیداران نے غلطی سے ایک صحافی کو بھی سگنل نامی میسنجر پر اپنے خصوصی گروپ میں شامل کر لیا تھا۔ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے سگنل کے چیٹ گروپ میں لکھا کہ "انصاراللہ کے معروف ترین میزائل محقق اپنی منگیتر کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں"۔ اس نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ آیا اس کے اہلخانہ بھی شہید ہو گئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ عام شہریوں کا جانی نقصان کم کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ امریکہ کے نائب صدر جیرالڈ وینس نے اس کا جواب دیا "بہت اعلی" اور اس کے بعد امریکی پرچم، آگ کے شعلے اور انگوٹھے کی ای موجیز بھی ارسال کیں۔
 
اسٹریٹجک علاقوں پر بمباری
امریکہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا، ساحلی شہر حدیدہ اور اسٹریٹجک علاقے صعدہ کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ حملے جو برطانیہ کی مسلح افواج کے تعاون اور پشت پناہی سے انجام پا رہے ہیں زیادہ تر گنجان آباد علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جہاں عام شہری بھی ان کی زد میں ہیں۔ انصاراللہ یمن سے قریب سبا نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے دو بار ایک کینسر اسپتال کو بمباری کا نشانہ بنایا جو یمن کے شمال میں واقع ہے۔ رپورٹ میں اس اقدام کو عام شہریوں اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر مبنی جنگی جرم قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں دسیوں عام شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس بارے میں خودمختار ذرائع نے بھی بڑی تعداد میں عام شہریوں کے جانی نقصان کی اطلاع دی ہے۔
 
سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے دوران بھی امریکہ نے گذشتہ برس اکتوبر میں دو اسٹریٹجک بی 2 بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر فضائی بمباری کی تھی۔ امریکہ ان طیاروں کے ذریعے اپنے بقول انصاراللہ کی زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ ان حملوں میں کئی سرنگیں تباہ بھی ہوئیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر نے امریکہ کی شکست کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ امریکہ میں مقیم مغربی ایشیا امور کے ماہر محمد الباشا اس بارے میں کہتے ہیں: "کہا گیا ہے کہ امریکی حملوں میں کئی سرنگیں تباہ ہوئی ہیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف سرنگوں کے دہانے تھے اور یمنیوں نے نئے دہانے کھول لیے ہیں۔" فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک یمن پر زمینی حملہ انجام نہیں پاتا فضائی بمباری کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس سے انصاراللہ کی فوجی طاقت کمزور نہیں کی جا سکتی۔
 
یمن میں امریکہ کے جنگی جرائم
یمن پر فضائی جارحیت کا جائزہ لینے والے تحقیقاتی گروپ یمن ڈیٹا پراجیکٹ نے ایکس پر اپنے پیغام میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یمن پر فضائی جارحیت شروع ہونے کے پہلے ہفتے میں چار بچوں سمیت 25 عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کے نصف سے زیادہ فضائی حملے شہری تنصیبات، اسکول، شادی ہال، شہری آبادی اور قبائلی خیموں پر انجام پائے ہیں۔ پہلا حملہ 15 مارچ کی سہ پہر انجام پایا جس میں کم از کم 13 عام شہری شہید اور 9 زخمی ہو گئے۔ ایئر وارز نامی ایک اور تحقیقاتی گروپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی حملوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ کم از کم دو بچے جن کی عمریں 6 ماہ اور 8 برس تھیں، صعدہ کے شمال میں شہید ہوئے ہیں جبکہ تیسرا گمشدہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حملوں میں کئی سرنگیں تباہ طیاروں کے ذریعے انصاراللہ کی فضائی حملے کہ امریکہ امریکہ کے امریکہ نے فوجی طاقت امریکہ کی شہید ہو شکست ہو ہے اور اور اس گیا ہے یمن کے

پڑھیں:

پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔

یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔

شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔

امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔

جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔

اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔

امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔

اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔

عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔

امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔

اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔

دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔

لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔

ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔

اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔

بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔

ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔

امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔

لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔

حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔

لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔

بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔

ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔

پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔

اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن

متعلقہ مضامین

  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • امریکہ نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو دہشت گردی قرار دیدیا
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • یمن، صعدہ و صنعا امریکی دہشتگردی کی زد میں
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • امریکہ کے ساتھ معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ
  • امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، محمد اورنگزیب