نو مئی احتجاج یا ریلی نہیں، ادارے پر حملہ تھا؛رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
نو مئی احتجاج یا ریلی نہیں، ادارے پر حملہ تھا؛رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش WhatsAppFacebookTwitter 0 8 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی سانحہ 9 مئی سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی محض احتجاج یا ریلی نہیں بلکہ ایک ادارے پر حملہ تھا۔
پنجاب حکومت نے 9 مئی سانحے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی، جس میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں 9 مئی ہنگاموں سے 19 کروڑ 70 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جب کہ 9 مئی کے 24 ہزار 595 ملزمان تاحال مفرور ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 9 مئی پر پنجاب کے 38 شہروں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ لاہور میں 110 ملین کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اسی طرح راولپنڈی میں 26 ملین کا نقصان پہنچایا گیا۔ میانوالی میں 50 ملین کا نقصان پہنچایا گیا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: نقصان پہنچایا گیا سپریم کورٹ میں
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔