Express News:
2025-11-05@03:13:03 GMT

قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

وہی راستہ، وہی راستے میںمقام قیام و طعام… لاہور کا سفر درپیش تھا۔ وہی مخصوص چائے کے دو کپ اور ساتھ سبزی کے پکوڑے جن کا بل چند ماہ پہلے سات سو آیا تھا اور اس روز تیرہ سو پچاس روپے، ٹال ٹیکس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، اور تواور مانگنے والوں کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔

پہلے وہ دس اور بیس کے نوٹ قبول نہیں کرتے تھے اور اب وہ پچاس روپے بھی نہیں لیتے۔ جتنی دیر میں اس چھوٹے سے ریستوران سے نماز پڑھ کر اور چائے پی کر نکلے تو باہر حسب معمول بالٹی اور برش لیے ایک نحیف سا آدمی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، ایسا لگے کہ اس نے ہماری گاڑی کے شیشے صاف کیے ہوں، اس کا مدعا اس کے منہ پر لکھا تھا۔ اسے سو روپے دیے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے علم ہوا کہ اس کا عوضانہ بھی بڑھ چکا تھا، ایک اور لال نوٹ لے کر وہ گاڑی کے وائپر سیدھے کرنے لگا۔

چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ہی لگنے لگا ہے کہ ہم شاید بیچ کے کچھ ماہ سوئے رہے تھے کہ اب جاگے ہیں تو قیمتوں نے کئی اونچی چھلانگیں لگا کر آسمان کو چھو لیا ہے ۔ صاف علم ہوتا ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے چیک کرنے والوں کو اصل حقائق سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔

ہم بھی کوئی ایسے نواب نہیں مگر ارد گرد دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی، حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم نر خوں کے مطابق بھی ہواور اس گھر میں چھ افراد رہتے ہوں، ظاہر ہے کہ اتنے لوگ تو کم ازکم ہوتے ہیں ان کے گھروں میں۔ ان سب کا پیٹ بھرنا، تن ڈھانکنا، بیماری اور تکلیف میںخرچ کرنا ، عیداور دیگر تقریبات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ۔ کہاں سے یہ سب پورا ہوتا ہو گا؟؟ پورا مہینہ گھر میں پکتا کیا ہوگا؟؟ کوئی دال دیکھ لیں، سبزی اور گوشت لینا تو دور کی بات ہے۔

چند دن قبل میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ہاں صفائی کا کام کرنے والی لڑکی پہلے ان کے باورچی خانے کے کوڑا دان میں سے چن کر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی تھی اور اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سبزیو ں کے چھلکے دھو کر پکا لیتی تھی اور پھلوں کے چھلکے بچوں کو کھلا لیتی تھی۔ اسے دکھ ہوا کہ ان کے ہاں کا کوڑا بھی کسی غریب کا پیٹ بھرتا تھا۔

اس کے بعد وہ جب کبھی اپنے لیے سبزی لاتی ہے تو ساتھ کچھ زیادہ سبزی لے لیتی ہے کہ اس کی ملازمہ لے جائے مگر اس سبزی کے باوجود بھی وہ اس کے گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی ہے جو کہ اب اسے کوڑ ا دان میں سے نکالنا نہیں پڑتے ہیں کیونکہ اب میری دوست اس سے ہی سبزی کٹواتی ہے اور اسے کچھ فالتو رقم بھی دے دیتی ہے ۔ ہم سب اس کی تقلید کرسکتے ہیں کہ کام کرنے والیوں کو معمول میں کچھ فالتو سامان یا رقم دے دیا کریں مگر کام کرنے والیاں ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟

عید سے قبل مرغی کا نرخ سو روپے کلو کے حساب سے روزانہ بڑھ رہا تھا ۔ ہر روز سوچتی کہ عید کے دن کے لیے مرغی خریدوں اور ہر روز کا نرخ سن کر سوچتی کہ کل لے لوں گی۔ عید سے عین دو روز پہلے جب نرخ ساڑھے نو سو روپے کلو سنا تو سر پکڑ لیا اور اپنے گوشت کی دکان والے سے سوال کیا، ’’ یہ مرغی کا نرخ آپ ہر روز سو روپے کے حساب سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں ہنس کر کہا، ’’ آج تو ماشااللہ ڈیڑھ سو روپے بڑھا ہے باجی!!‘‘ اس نے تو ہنسنا ہی تھا مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک دن اور انتظار کروں اور کل رونا پڑ جائے۔ سوچا تھا کہ عید کے بعد تو نرخ لازمی کم ہوں گے کیونکہ قیمتیں یقینا عید کی وجہ سے بڑھ کر آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔

ہمیں تو کیاکسی کو بھی قیمتوں کی آخری حد کا کیا علم۔ عید کے بعد وہی مرغی تھی ، وہی دکان اور مرغی کانرخ تھا… ایک ہزار روپے فی کلو گرام۔ اب توسبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں، بکرے کا گوشت کھانا تو اب خواب سا ہو گیا ہے۔ غریب تو سال میں ایک بار بڑی عید پر ہی کھا سکتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی نہیں۔ پھل منڈیوں ، دکانوں اور ریڑھیوں میں پڑا سڑ جائے گا مگر اس کے نرخ کوئی کم نہیں کر تا کہ کوئی غریب بھی فیض یاب ہو جائے۔ منڈیوں میں غریب اس پھل کو خرید کر کھاتا ہے جو کہ دکان دار رد کر کے چلے جاتے ہیں اور وہ کوڑے کے ڈھیروں کی شکل میں منڈیوں میں رل رہا ہوتا ہے۔

کس کس چیز کی بابت بات کریں، ہر چیز کے قدم زمین پر ہیں کہ اسے زمین پر ہی فروخت ہونا ہے اورہاتھ آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہیں۔ جوتے، بستر، کپڑے، برتن، گھر بنانے کا سامان، آلات برقی، گھی، تیل، چینی، آٹا، دالیں اور مسالہ جات۔ کپڑے و برتن دھونے کا سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں، اسپتالوں میں داخلے کیے اخراجات اوردوائیں۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان… اسکولوں کی وین اور رکشوں کے کرائے۔ لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔

پہلے پہل غریب اور سفید پوش بھی اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے مہینے میں ایک بار اپنے بچوں کو کوئی سستی سی تفریح کروا دیتے تھے۔ اب وہ بھی کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اب بچے اسکولوں سے اور سوشل میڈیا کے کھلے استعمال سے سیکھ گئے ہیں کہ کسی پارک میں چلے جانا کوئی تفریح نہیں اور سستی جگہ سے کچھ کھا لینا کوئی عیاشی نہیں۔ یہی وہ آگاہی ہے جس نے کم سن نوجوانوں کے ہاتھوں جرائم کی شرح میں خطر ناک اضافہ کر دیا ہے۔

مال اوردولت کو شرافت اور نجابت کا پیمانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے آتی ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ اب ، ’’ ہمیں کسی سے کیا لینا دینا !!‘‘ کا دور ہے، آپا دھاپی کی دنیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سو روپے ہے اور ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان

راولپنڈی:(نیوز ڈیسک )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ فارم 47 یا اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوگی تاہم جو بھی بات ہوگی وہ اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ذریعے ہوگی۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر عظمیٰ خان نے علیمہ خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو جتنی اپڈیٹ دے سکتی تھی دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بانی نے کہا ہے فارم 47 کی حکومت سے کیا مذاکرات ہوسکتے ہیں، جب وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو بتایا گیا کہ پوچھ کے بتاؤں گا تو پھر پیچھے کیا رہ گیا، بانی نے کہا ہے ان کے ساتھ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ڈاکٹر عظمیٰ خان کے مطابق بانی نے کہا تین سال ہونے کو ہے مجھ پر سختیاں کررہے ہیں، بانی نے کہا جب بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کی یہ پی ٹی آئی پر اور زیادہ ظلم کرتے ہیں اور سارا کنٹرول فرد واحد کے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بانی نے کہا جتنا ظلم اس دور میں ہوا اتنا کبھی نہیں ہوا، بانی نے کہا ڈاکٹر یاسمین راشد کینسر کی مریضہ ہیں، جیل میں رکھا گیا ہے، بشریٰ بی بی کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جس نے پی ٹی آئی نہیں چھوڑی اس پر ظلم ہوا، بانی نے کہا نہ فارم 47 اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی کوئی بات چیت ہوگی، بانی نے کہا ہے جو بھی بات ہوگی وہ محمود خان اچکزئی کے ذریعے ہوگی، محمود خان اچکزئی اتحاد کے سربراہ ہیں لہٰذا اتحاد کے ذریعے ہی بات چیت ہوگی۔

ڈاکٹر عظمیٰ خان کا کہنا تھا کہ بانی نے کہا پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی قیدی کو ایسے نہیں رکھا گیا جس طرح انہیں رکھا گیا ہے، آزادی یا موت کے علاوہ کوئی غلامی قبول نہیں کروں گا۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے سلمان اکرم راجا پر انہیں مکمل اعتماد ہے، بانی نے کہا صرف سلمان اکرم راجا کے ذریعے پارٹی کو پیغام دیا جائے گا۔

عمران خان

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • بانی پی ٹی آئی کا متبادل کوئی نہیں، بات ختم، عمران اسماعیل
  • فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان
  • سال 2025 کا روشن ترین سپر مون کل رات آسمان پر نمودار ہوگا 
  • نومبر میں سال کا سب سے روشن سپر مون آسمان پر جلوہ گر ہوگا
  • کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7