اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
بدمست اسرائیل بے لگام پاگل گھوڑے کی طرح دندناتا چاروں طرف تباہی و بربادی مچا رہا ہے۔ پاگل گھوڑے کے سر میں گولی مار کر دوسروں کی جانیں بچائی جاتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کیس میں یہ کام کوئی کرنے کو تیار نہیں سبھی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
امریکا و یورپ جیسی طاقتیں تو اس بد مست گھوڑے کے پاگل پن میں مزید اضافہ کرنے کا سامان مہیا کررہی ہیں، حسب سابق و روایت اقوام متحدہ امریکا و یورپ کی لونڈی بن کر مظلوموں سے آنکھیں چرا کر ظالموں کو قتل عام میں معاون ثابت ہو رہی ہے اگر زمینی حقائق اور کردار کو دیکھا جائے تو یہ اقوام متحدہ نہیں اقوام مختلفہ بن چکی ہے نہ ماضی میں کبھی مظلوم کا ساتھ دیا نہ مستقبل میں کوئی توقع ہے۔
اغیار اور کفار سے کیا شکوہ امت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو دیکھ کر درد میں ڈوبے چند اشعار یاد آرہے ہیں۔ شاعر فرماتے ہیں:
اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
خْوں اْگلتی ہے وہاں قبلہ اوّل کی زمیں
شرم آتی ہے یہ پڑھتے ہوئے اخباروں میں
ڈھیر لاشیں ہیں فلسطین کے بازاروں میں
ایسی بارود کی یلغارکہ گھر چھلنی ہیں
یْورشِ درد سے ماؤں کے جگر چھلنی ہیں
موت رقصاں ہے شب و روز گلی کوچوں میں
آہ و گریہ کی صدا آتی ہے بس کانوں میں
بیٹیاں روتی ہیں، مائیں بھی تڑپ جاتی ہیں
میتیں جب بھی جگر پاروں کی گھر آتی ہیں
دیکھ تو! مسجدِ اقصیٰ بھی ہے کتنی غمگیں
ایسا لگتا ہے، اِسے تْم سے کوئی آس نہیں
اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
کچھ بھی پیغامِ مْحمّدﷺ کا تمہیں پاس نہیں
پورا فلسطین بالخصوص تباہ حال غزہ اس وقت اسرائیلی بربریت اور درندگی کی لپیٹ میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، آگ اور خون کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ یہ وہ آگ ہے جو عالمی امن کے ٹھکیدار امریکا اور برطانیہ نے کم و بیش آٹھ دہائیاں قبل سرزمین فلسطین پر ایک ناپاک اور نجس اسرائیل کے قیام کی شکل میں بھڑکائی تھی اور اب یہ آگ آہستہ آہستہ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔7 اکتوبر 2023 میں حماس کی جانب سے طوفان القصیٰ کوئی جذباتی اقدام نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ناجائز اسرائیل کی برسوں پر محیط اہل غزہ کی نسل کشی اور انھیں محصور کرکے دانے دانے کا محتاج بنانے کی سفاکانہ اور مذموم کاروائیاں کارفرما تھیں جس کا اظہار اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کیا تھا۔
کئی دہائیوں سے اسرائیل نے فلسطین و غزہ میں قتل عام اور نسل کشی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کا دائرہ اب لبنان، شام، یمن، عراق اور دوسرے ممالک تک پہنچ چکا ہے اور اب توانسانیت کے قاتل نتین یاہو نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا۔ ایجنڈا صرف اور صرف گریٹر اسرائیل کا قیام ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا اور اب غزہ کو اہل غزہ سے خالی کرانا ہے جس کا اظہار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام کرچکے ہیں۔
انسانیت کے اس قاتل کو اپنے آقا امریکا جو اب بھی خود کو انسانیت اور انسانی حقوق کا علمبردار گرداننے میں کوئی شرم وحیا اور عار محسوس نہیں کرتا نہ صرف بھرپور مدد و اعانت حاصل ہے بلکہ اس نے مشرق وسطی میں اپنے بحری بیڑے کے ساتھ ہزاروں فوجی بھی تعینات کیے ہیں، جس کا مقصد اپنے ناجائز بچے کا تحفظ کرنا اور اس کے لیے اگر پوری دنیا کو بھی نیست و نابود کرنا پڑے تو شاید یہ ٹرمپ کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔
یہ تمام حالات و واقعات تیسری عالمی جنگ کے دروازے پر دستک کے مترادف ہیں، اسرائیل تمام عرب ممالک کونیست و نابود کرنے کا منصوبہ بناچکا ہے اس کی منزل گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہے لیکن امت مسلمہ بالخصوص ستاون اسلامی ممالک کے حکمران غفلت کی چادر چھوڑنے کو تیار نہیں، ایک دو نہیں سبھی مسلم حکمرانوں کا مزاج مغلیہ سلطنت کے چودھویں بادشاہ محمد شاہ رنگیلے سے مختلف دکھائی نہیں دے رہا۔ جس طرح محمد شاہ رنگیلا نے اپنی مدتِ حکومت کا زیادہ تر وقت عیش و عشرت اور نشاط پرستی میں گزار کر سلطنت مغلیہ کے زوال کا سبب بنا، آج عین یہی حال ہمارے تمام مسلم حکمرانوں کا ہے سبھی اپنے اقتدار کی ہوس میں ڈوبے پڑے ہیں۔
ان کی بدمستیوں اور عیاشیوں کی وجہ سے تباہی پوری امت مسلمہ کے سروں پر منڈلا رہی ہے مگر سب محمد شاہ رنگیلے کی طرح اپنی بدمستیوں میں غرق ہیں اور ان کی زبان پر محمد شاہ رنگیلے کا وہی ایک جملہ ہے کہ "دلی دور است"۔ ان ستاون اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم اوآئی سی جو کبھی مردہ گھوڑا ہوا کرتا تھا آج مردہ گدھا بن چکا ہے۔
کیونکہ اس میں روئے زمین پر مسلمانوں پر ہونے والے کسی ظلم کے آگے ڈھال بننا تو دور کی بات اب بات کرنے کی بھی ہمت نہیں۔ فلسطین اور غزہ میں ہر اینٹ، ہر گلی، اور ہر چہرہ ایک مجسم کہانی ہے مگر ظلم و بربریت کے اندھیروں کے باوجود یہاں حماس کے شیردل نوجوان پوری انسانیت کے لیے مزاحمت و حریت کی روشنی کا منبع اور استعارہ بن چکے ہیں۔
حماس کے یہ مجاہدین تن تنہا صیہونی دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں، مڑمڑ کر کبھی عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں، کبھی تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب دیکھتے ہیں تو کبھی خلافت کے خواب دیکھنے والے ترکی کی جانب دیکھتے ہیں جس نے آج تک ایک دن کے لیے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ کوئی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا، کسی نے اہل غزہ کے زخموں پر پھاہا نہیں رکھا۔
اس مایوسی کے ماحول میں علماء کرام غزہ کے مظلوموں کے حق میں جس جوانمردی کے ساتھ کھڑے ہیں یہ امت کے لیے نوید سحر کے مترادف ہے مگر اللہ کرے اس امت کو کوئی صلاح الدین ایوبی بھی ملے۔ پوری دنیا کے علماء کرام غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں اور اعلائے کلمۃ الحق بلند کیے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مسلم دنیا کے عوام ہیں جو اپنے حکمرانوں کے رویے اور پالیسیوں سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا فضل الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمٰن سمیت پاکستان کی تمام مذہبی قیادت موجود تھی۔ اہل غزہ کے حق میں پہلا فتویٰ ایک عرب عالم دین علی قرۃ داغی نے جاری کیا انھوں نے اپنے فتویٰ میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ"اہل غزہ کی مدد کے لیے مسلح جنگ شرعی تقاضا ہے"۔ اس فتویٰ کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی اس کے بعد قومی فلسطین کانفرنس میں مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے فتویٰ دیا کہ "تمام اسلامی ممالک پر جہاد فرض ہوچکا ہے"۔ اس کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی نے تاجروں پر زور دیا کہ وہ یہودی مصنوعات رکھنا چھوڑ دیں۔
جہاد ریاست کی ذمے داری ہے علماء نے فتویٰ دے کر اپنی ذمے داری پوری کردی جب تک مسلمان حکمرانوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی جیسا نہیں ملتا عوام یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس جہاد میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، بہت سے اداروں نے یہودی مصنوعات کی فہرستیں مرتب اور ان کا متبادل بھی بتا دیا ہے تاکہ بائیکاٹ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ رہے۔ ہمیں یہودی مصنوعات خریدتے وقت یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ ہم فلسطینیوں پر بمباری کے لیے یہودی کی مالی مدد کررہے ہیں۔
یاد رکھیں آج کے دور میں معاشی بائیکاٹ بہت بڑا ہتھیار ہے جس کے لیے ہمیں اپنے حکمرانوں کی جانب بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ جیل میں تھے تو جب بھی جمعہ کی اذان سنتے تو وضو کرتے اور جیل کے دروازے تک جاتے، جیل کے سپاہی انھیں روکتے اور واپس بھیج دیتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ سپاہی آپ کو نماز جمعہ کے لیے جانے نہیں دیں گے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ میرے اختیار میں اتنا ہی ہے کہ میں دروازے تک چلا جاؤں اور جو میرے اختیار میں ہے میں اسی کا مکلف ہوں لہٰذا میں ہر جمعہ کو ایسا کرتا رہوں گا۔
علماء نے فتویٰ دے دیا وہ اسی کے مکلف ہیں، اس پر عمل کرنا نہ کرنا حکومتوں کا کام ہے اور جوابدہ بھی حکمران ہوں گے۔ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اختیار ہم سب کے پاس ہے اور ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ اس لیے اسرائیلی و یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ بہت بڑا ہتھیار ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یہودی مصنوعات محمد شاہ میں کوئی رہے ہیں اہل غزہ نے فتوی کے ساتھ کی جانب کے لیے غزہ کے اور ان
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔