آج کا دن بھی ان سیاہ دنوں کی طرح ایک اور دن ہے، ندیم قریشی
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
رہنما تحریک انصاف ندیم قریشی کا کہنا ہے کہ بڑی واضح وجوہات ہیں حکومت ایک شخص کو پابند سلاسل کرنے کے باوجود تمام لیڈر شپ کے ساتھ ظلم و استبداد کی وہ داستانیں جن کی تاریخ میں مثالیں نہیں ملتیں وہ رقم کرنے کے باوجود ابھی بھی اس شخص کے خوف میں ہے جس کو عمران خان کہتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں سمجھتاہوں کہ آج کا دن بھی ان سیاہ دنوں کی طرح سے ایک اور دن ہے، ظلم جتنا بھی ہو، رات جتنی بھی سیاہ ہو، دن نے آنا ہوتا ہے، رات نے ڈھلنا ہوتا ہے۔
رہنما مسلم لیگ اختیار ولی خان نے کہا کہ ندیم قریشی صاحب نے خود ہی کہہ دیا کہ اختیار ولی صاحب اب بولیں کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا، میں نہیں کہتا آپ نے خود ہی کہہ دیا ظلم کے پہاڑ آپ نے توڑے ہیں، آپ نے ریکارڈبنائے ہیں، آپ کس کو خوش کر رہے تھے؟
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی خود ہی نہیں ملنا چاہتے اپنی بہن سے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اب تو سیاست ہی کر رہی ہیں، اتنا قیمتی چشمہ پہن کر ، اتنی بڑی لینڈ کروزر میں آ کر ، کروڑوں کی گاڑی میں بیٹھ کر جوتے اتار کر تصویر بناتی ہیں، وہ تصویر دیکھ کر مجھے اور تو کچھ نہیں حسن نواز اور حسین نواز کی تصویریں یاد آ گئیں۔
رہنما پیپلز پارٹی نادر گبول نے کہا کہ پیپلزپارٹی بالکل مفاہمت کی سیاست پر یقین کرتی ہے ، جمہوریت پر یقین کرتی ہے کبھی بھی انتقامی سیاست کو ترجیح نہیں دی اور اس کو پرسو نہیں کیا حالانکہ ہماری فریال تالپور صاحبہ کو چاند رات بارہ بجے اگلے دن عید تھی جیل منتقل کیا گیا اور ہمیں بہت شدید تکلیف ہوئی کہ ایک خاتون کے ساتھ آپ اس طرح کا رویہ رکھ سکتے ہو، ہم کبھی بھی نہیں بولیں گے کہ کسی کی بہن کے ساتھ کسی کی ماں یا بیٹی کے ساتھ اس طرح کی انتقامی سیاست کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
سابق رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب کھل کر سامنے آنا چاہیئے تاکہ عوام خود فیصلہ کریں کہ کون ملک کے استحکام کے لیے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور کون مزاحمت کے نام پر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور سینئر سیاستدان محمود مولوی نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں مفاہمت اور تعمیری سیاست کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد واضح ہے، ہم اس ملک میں مفاہمت، مکالمے اور تعمیری سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ مزاحمت اور تصادم کی سیاست نے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ محمود مولوی نے کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب کھل کر سامنے آنا چاہیئے تاکہ عوام خود فیصلہ کریں کہ کون ملک کے استحکام کے لیے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور کون مزاحمت کے نام پر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو عناصر تصادم چاہتے ہیں، وہ دراصل قوم کو تقسیم اور اداروں کو کمزور کرنے کے خواہاں ہیں، ان کے لیے ہمارا پیغام بالکل واضح ہے کہ اگر آپ واقعی پاکستان کے خیرخواہ ہیں، تو مفاہمت کے راستے پر آئیں، مکالمے میں شامل ہوں اور ایک پرامن اور مستحکم سیاسی ماحول کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ سینئر سیاستدان نے کہا کہ پاکستان آج عالمی سطح پر ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، امریکا، چین اور سعودی عرب جیسے ممالک ہمارے اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں، مگر افسوس کہ اندرونی سطح پر ہم اب بھی سیاسی طور پر کمزور ہیں۔