لاہور:

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری سرحدوں پر غیر ارادی طور پر پھنس جانے والے ماہی گیروں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع علاقائی پالیسی فریم ورک جاری کر دیا ہے۔

اس فریم ورک میں دونوں ممالک کے مابین تنازعات کی بھینٹ چڑھنے والے غریب ماہی گیروں کی حالتِ زار، جیلوں میں ان کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک اور ان کے خاندانوں پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کو تفصیل سے اجاگر کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہر سال درجنوں پاکستانی اور بھارتی ماہی گیر بحیرہ عرب میں غیر ارادی طور پر سمندری حدود عبور کرنے کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں، جن میں اکثریت غریب ساحلی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہوتی ہے۔ ان ماہی گیروں کو اکثر طویل عرصے تک بغیر مقدمے کے قید رکھا جاتا ہے اور وہ اپنے خاندانوں سے مکمل طور پر کٹ کر رہ جاتے ہیں۔

ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ ماہی گیروں کی گرفتاری کو ایک انسانی مسئلہ سمجھا جائے، نہ کہ قومی سلامتی یا سیاسی تنازع کا معاملہ۔ کمیشن کی ڈائریکٹر طاہرہ حسن کے مطابق، یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی گرفتاری کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سمندری حدود کی غیر واضح تقسیم ہے۔ اکثر ماہی گیر جدید نیویگیشن کے آلات سے محروم ہوتے ہیں اور لاعلمی میں مخالف ملک کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک بار قید ہونے کے بعد، نہ صرف وہ برسوں جیل میں سڑتے ہیں بلکہ ان کے خاندان بھی شدید مالی اور جذباتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایچ آر سی پی کی دو سالہ تحقیق، 100 سے زائد متاثرہ خاندانوں کے انٹرویوز اور بین الاقوامی قوانین کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ میں متعدد ٹھوس تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان میں ماہی گیروں کی گرفتاری کی صورت میں 24 گھنٹوں کے اندر اہلِ خانہ اور قونصلر حکام کو اطلاع دینا، سمندری حدود کی واضح نشاندہی، سرحدی علاقوں میں مشترکہ نگرانی، جیلوں میں تشدد کی روک تھام، طبی سہولیات کی فراہمی، اور ماہی گیروں کو ان کے خاندانوں سے رابطے کی اجازت شامل ہیں۔

رپورٹ میں دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کے خاندانوں کی دردناک داستانیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ کراچی کی مچھر کالونی کی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کا بیٹا 2019 سے بھارتی جیل میں قید ہے اور چھ سال سے نہ کوئی خط ملا، نہ بیٹے کی کوئی خبر۔

دوسری جانب، بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر بھارت ماجیتھیا نے بیان دیا کہ پاکستانی کوسٹ گارڈز نے انہیں گولیوں سے دھمکا کر گرفتار کیا اور بعد میں 60 قیدیوں کو ایک ہی سیل میں بند کر دیا گیا۔

رپورٹ میں یکم جنوری 2025 تک کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، جن کے مطابق پاکستان میں 266 بھارتی قیدی موجود ہیں جن میں 217 ماہی گیر ہیں، جبکہ بھارت میں 462 پاکستانی قیدی قید ہیں جن میں 81 ماہی گیر شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہوں نے اپنی سزائیں مکمل کر لی ہیں، مگر دونوں ممالک کے مابین رسمی سفارتی تبادلوں کی سست رفتاری کے باعث ان کی رہائی عمل میں نہیں آ سکی۔

ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور سارک کے پلیٹ فارم پر مشترکہ اقدامات کرتے ہوئے ایک دوطرفہ ٹاسک فورس قائم کریں، جو ماہی گیروں کی گرفتاری، قانونی معاونت، اور جلد از جلد رہائی کے لیے عملی اقدامات کرے۔

رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ماہی گیروں کو جدید نیویگیشن آلات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی سے بچ سکیں۔

ماہی گیروں کی قید کا یہ مسئلہ سرکریک جیسے متنازعہ علاقے سے بھی جڑا ہوا ہے، جو سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کے پانی ماہی گیری کے لیے نہایت موزوں سمجھے جاتے ہیں، اور دونوں جانب کے غریب ماہی گیر ان پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، یہ علاقہ دونوں ممالک کی نیوی کے درمیان کشیدگی کا مستقل مرکز بھی رہا ہے۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ماہی گیروں کو مجرم سمجھنے کے بجائے ایک انسانی ہمدردی کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے۔ ان کی گرفتاری اور قید صرف قانونی یا سفارتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جس کے حل کے لیے ایک مستقل، شفاف اور انسان دوست فریم ورک تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اگر پاکستان اور بھارت واقعی خطے میں امن، معاشی ترقی اور انسانی حقوق کی پاسداری چاہتے ہیں تو انہیں ماہی گیروں کے مسئلے پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ قیدی محض خیرسگالی کے وقتی اقدامات کے نہیں، بلکہ مستقل اور منظم انسانی تحفظ کے مستحق ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماہی گیروں کو دونوں ممالک ایچ آر سی پی ایک انسانی اور بھارت کے درمیان رپورٹ میں جاتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

کشمیر حملے کے بعد بھارت نےحکومت پاکستان کے ایکس اکاؤنٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی

اسلام آباد(اوصاف نیوز) بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مہلک دہشت گردی کے حملے کے بعد سفارتی خرابی کو تیز کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر حکومت پاکستان کا سرکاری اکاؤنٹ بلاک کر دیا ہے۔

یہ اقدام دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کے درمیان نئی دہلی کی جانب سے اسلام آباد کے ساتھ سفارتی تعلقات کو باضابطہ طور پر گھٹانے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ پہلگام حملہ، جس میں سیکورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان سمیت دنیا بھر سے شدید مذمت کی گئی۔

X کے آفیشل ہیلپ سینٹر کے مطابق، پلیٹ فارم حکومتوں کے قانونی مطالبات کی بنیاد پر اکاؤنٹس یا مواد تک رسائی کو محدود کر سکتا ہے۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ “ہر روز لاکھوں پوسٹس کے ساتھ، ہمارا مقصد قابل اطلاق مقامی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرنا ہے۔” پابندیاں عام طور پر صرف اس ملک میں لاگو ہوتی ہیں جہاں سے قانونی درخواست شروع ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان بھارت کے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دے گا: خواجہ آصف
  • فیصل بینک نے 2025 کی پہلی سہ ماہی کیلئے مستحکم مالیاتی نتائج کا اعلان کردیا
  • بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
  • پاکستانی رینجرز سے ہاتھ مت ملاؤ؛ مودی سرکار کی بی ایس ایف جوانوں کو  احمقانہ ہدایت 
  • کشمیر حملے کے بعد بھارت نےحکومت پاکستان کے ایکس اکاؤنٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی
  • سندھ طاس معاہدہ کیا ہے ؟ مکمل تفصیل جانئے
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے، امریکی صدر
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • محمد علی درانی اور محمد علی سیف کی ایرانی سفیرسے ملاقات، 8پاکستانیوں کے قاتلوں کی گرفتاری کامطالبہ