Express News:
2025-11-05@01:52:08 GMT

حیا

اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT

اﷲ تعالیٰ سب کا خالق، مالک، مربی اور حاکم ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کی تخلیق، ملکیت، تربیت اور حاکمیت سے باہر نہیں۔ اسی نے انسانیت کی فوز و فلاح کے لیے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و التسلیمات کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النبیین بناکر رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مقتدا، پیشوا اور اسوۂ حسنہ بنایا۔

آپ ﷺ کی تعلیمات میں اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، ازدواجی، خانگی، عائلی اور دنیوی و اخروی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود و مسلَّم ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے زندگی گزارنے کے تمام اصول و آداب اور اخلاق و کردار امت کے سامنے پیش کردیا ہے، اس لیے قرآن کریم میں فرمایا گیا:

’’ تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اﷲ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو رسول اﷲ میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے۔‘‘ (الاحزاب)

’’اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز (کے لینے) سے تم کو روک دیں، تم رک جایا کرو اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ تعالیٰ (مخالفت کرنے پر) سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الحشر)

کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ کس کو اپنانا چاہیے اور کس سے اجتناب کرنا چاہیے؟ کن چیزوں کو اختیار کرنے سے ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اور کن چیزوں کو اپنانے کی وجہ سے معاشرہ داغ دار ہوتا ہے؟ یہ سب کچھ آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں واضح فرمایا۔ حضور ﷺ نے مردوں اور عورتوں کو عفت، عصمت، پاک دامنی اور شرم و حیا اختیار کرنے کا درس دیا، جس سے معاشرہ پاکیزہ اور صالح بنتا ہے۔ آپ ﷺ نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا، جس پر ملائکہ بھی رشک کرتے تھے، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اپنے دائرہ کار میں رہتے تھے اور اس دائرہ سے باہر جھانکنے کو گناہ، حیا کے خلاف اور حیا کی موت تصور کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ)

حیا کا لغوی معنی: تغیّْر و انکساری ہے، جو انسان کے قلوب و اذہان میں کسی عیب جوئی کے خوف سے جاگزیں ہوتا ہے۔

حیا کا اصطلاحی معنی: حیا ایسی صفت ہے جو منکرات و قبیح چیزوں سے اجتناب کرنے پر برانگیختہ کرتی ہے اور ادا حقوق میں کوتاہی اور تقصیر سے منع کرتی ہے۔ (عون المعبود شرح ابی داؤد)

گویا شریعت کی نظر میں حیا وہ صفت ہے، جس کے ذریعہ انسان بے ہودہ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ دینِ اسلام میں حیا اور پاک دامنی اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ انسان اسے اپنا کر معاشرہ کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کرے۔ اور منکرات و فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہے، تاکہ معاشرہ اَنارکی اور فساد سے بچ جائے۔ حیا انسان کو پاک باز، پرہیزگار، عفت مآب اور صالح انسان بناتی ہے۔

اگر بندے سے کوئی گناہ و معصیت اور لغزش سرزد ہوتی ہے، تو یہ حیا ہی ہے جو اس کو عار، شرمندگی اور ندامت کا احساس دلاتی ہے۔ باحیا انسان کسی غلط کام کے ارتکاب کے بعد لوگوں کا سامنا کرنے سے جھجھک محسوس کرتا ہے۔ حیا مومن کی صفت، ایمان کی شاخ، ایمان میں داخل ہے۔ صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا: ’’آپ ﷺ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ باحیا تھے۔‘‘ حیا اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ معاشرہ کی اَساس اور بنیاد ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے انسانوں کے دلوں میں حیا کے جذبات کو پروان چڑھایا، شرم و حیا والی کیفیات سے بہرہ وَر کیا۔ آپ ﷺ نے ایک اچھا معاشرہ بنانے اور اس معاشرہ کے ہر فرد کو اپنی عادات و اخلاق کو درست کرنے کے لیے نہایت اہم اور ضروری ہدایات اور تعلیمات دیں۔

قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، بے شک اﷲ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔‘‘ (النور)

’’ اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع کو ظاہر نہ کریں، مگر جس (موقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھا کریں۔‘‘ (النور)

’’اور نماز کی پابندی رکھیے، بے شک نماز (اپنی وضع کے اعتبار سے) بے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روک ٹوک کرتی رہتی ہے۔‘‘ (العنکبوت)

’’ اﷲ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے اور تم کو سمجھاتا ہے، تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘ (النحل)

’’ اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ، خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ ہوں۔‘‘ (الانعام)

’’ آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے حرام کیا ہے تمام فحش باتوں کو، ان میں جو اعلانیہ ہیں وہ بھی اور ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ بھی اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو۔‘‘ (الاعراف)

’’ اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو، بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور بری راہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل)

’’ شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگ دستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا اور اﷲ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا۔‘‘ (البقرۃ)

اسی طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے۔ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ اور کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے۔‘‘ (مسلم، کتاب الحیض)

’’حضرت یعلیٰ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک شخص کو کھلی جگہ (میدان) میں ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے، اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: اﷲ تعالیٰ نہایت باحیا اور سترپوش (عیب پوش) ہے، وہ حیا اور پردہ کو پسند کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص نہائے تو پردہ کرے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

’’حضرت جرہدؓ اصحابِ صفہ میں سے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ ہمارے پاس تشریف فرما تھے اور میری ران ننگی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ران ستر (میں شامل) ہے؟!۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اپنی ران سے کپڑا مت اْٹھاؤ، کسی زندہ کی ران دیکھو، نہ مردہ کی۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت ابو مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے کلام میں سے جو حاصل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت ثابت بن قیسؓ سے روایت ہے کہ امِ خلد نامی عورت نقاب کیے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہ اپنے مقتول (شہید) بیٹے کے بارے میں دریافت کررہی تھی، نبی ﷺ کے بعض اصحاب نے کہا: آپ اپنے (شہید ہونے والے) بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی ہیں اور (اتنی مصیبت اور غم کے باوجود) آپ نقاب کیے ہوئے ہیں؟ اس (عظیم خاتون) نے کہا: اگرچہ میرا لختِ جگر فوت ہوگیا ہے، لیکن میری حیا تو فوت نہیں ہوئی۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت ابی ایوبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: چار چیزیں سب پیغمبروں کی سنت ہیں، شرم اور عطر لگانا اور مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔‘‘ (جامع ترمذی)

’’حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مرد جب جب بھی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

’’حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے فرمایا: اے علی! غیر محرم عورت پر ایک نظر پڑنے کے بعد دوسری نظر نہ دوڑاؤ، اس لیے کہ پہلی نظر تمہارے لیے معاف ہے اور دوسری نظر تمہارے اوپر وبال ہوگی۔‘‘ (ترمذی)

’’حضر ت بہز بن حکیمؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنی شرم گاہ کو بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی کے سامنے ظاہر نہ کرو، میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول! اگر کوئی آدمی تنہا ہو؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: تو اﷲ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم و حیا کی جائے۔‘‘ (ترمذی)

’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند گھر میں موجود نہیں ہوتے ان کے ہاں نہ جایا کرو، شیطان تم میں سے ہر آدمی کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتا ہے جیسے خون جسم میں جاری رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

’’حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے: ہمیشہ شراب پینے والا۔ والدین کا نافرمان۔ اور وہ بے غیرت جو اپنے گھر میں بے حیائی کو (دیکھنے کے باوجود اسے) برقرار رکھتا ہے۔‘‘ (احمد، نسائی)

’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: بری بات جہاں کہیں بھی ہو قابلِ ملامت ہے، اور شرم و حیاء جہاں کہیں بھی ہو باعثِ فخر ہے۔‘‘ (ترمذی)

یہ وہ چند احادیث تھیں، جن میں آپ ﷺ نے امت کو پاک دامنی اور شرم و حیا کے متعلق ہدایات اور تعلیمات عطا کی ہیں۔

شریعت نے شرم و حیا کی بقاء، توالد و تناسل کے سلسلہ کو آگے بڑھانے اور مرد و عورت کی جنسی تسکین کے لیے نکاح جیسے خوب صورت بندھن کا حکم دیا، جس کے نتیجہ میں مرد اور عورت کا آپس میں مودت و رحمت کا رشتہ قائم ہوتا ہے، پھر اس کے ذریعہ رشتہ داریاں، خاندان، معاشرہ اور سماج وجود میں آتا ہے۔ عورت کے چار درجات اور مقام ہیں اور چاروں کو اﷲ تعالیٰ نے عزت و عظمت عطا کی ہے:

عورت اگر ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔

عورت اگر بیٹی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت۔

عورت اگر بہن ہے تو اس کی پرورش، تربیت اور اچھی جگہ رشتہ کردینے پر جنت کی ضمانت۔

عورت اگر بیوی ہے تو مرد کا لباس اور دنیا کی بہترین متاع اس کو قرار دیا گیا۔

آج معاشرہ میں بے راہ روی، آوارگی اور حیا باختگی کے کئی عوامل ہیں:

اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں، آج کے معاشرہ کی اکثریت نے ان تعلیمات کو پڑھنے، سمجھنے، انہیں عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ہرگز ہرگز کوشش نہیں کی۔

اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیا، اس کو دلوں کی پاکیزگی کا ذریعہ اور شریف زادیوں کا شعار قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو عزت و عظمت دی، وقار اور سربلندی کا تاج اس کے سرپر رکھا، اس کو گھر کی ملکہ بنایا، جس سے گھر کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کی وجہ سے گھر میں آرام اور سکون ملتا ہے، مرد اور اولاد کے لیے گھر میں رہنا باعثِ راحت بنتا ہے، لیکن اسلام کے اس نظریہ کے برعکس مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ عورت کو گھر کی بجائے شمعِ محفل اور سامانِ عیش بناکر بازار میں گھسیٹ لے آئے۔ ایسے لوگوں نے عورت کی عزت و عظمت، وقار و شرافت، پردہ، چادر اور چار دیواری کے وقار کو نہ صرف یہ کہ بٹہ لگایا، بل کہ بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق کو بھی پامال کرایا، یوں مساوات کا سبز باغ دکھا کر مغربی تہذیب سے مرعوب طبقہ نے اس صنفِ نازک پر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔

مرد و زن کے اختلاط سے شریعت نے منع کیا، لیکن مغربی نقالی میں ہمارے معاشرے نے بھی مخلوط تعلیمی نظام کو رواج دیا، جس کے آج بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں اور آئے دن اخبارات میں یہ خبریں چھپتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور کلیاں ان آوارہ گردوں اور حیاباختہ درندوں کی بھینٹ چڑھ کر کچل اور مسل دی جاتی ہیں۔

مغربی تہذیب نے انسانیت کو حیوانیت کے قالب میں ڈھال کر مکمل درندہ صفت انسان بنادیا اور اسی تہذیب کے متوالے آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اور آج سماج میں اس کو شریف اور مہذب سمجھا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک مغربیت میں ڈھلا ہوا ہو، وضع قطع، عادات و اطوار، رہن سہن، غرض زندگی کے تمام نشیب و فراز میں جو جتنا مغربی تہذیب کا نقال ہوگا، وہ اتنا مہذب شمار ہوگا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج حیا باختگی کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بیوی شوہر کی ضرورت محسوس نہیں کررہی اور شوہر بیوی کی پروا نہیں کررہا۔ لڑکے اور لڑکیاں نکاح کو اپنے لیے قید اور بے حیائی کو اپنے لیے آسان اور سستا سمجھ رہے ہیں۔

آئے دن طلاقوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور آج ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ آج خاندان سے سکون و اطمینان رخصت ہوچکا ہے، انسانیت جیتے جی مر رہی ہے، گھر برباد ہورہے ہیں، نسلیں تباہ ہورہی ہیں، حیا لٹ رہی ہے، جوانیاں داغ دار ہورہی ہیں، بیٹیوں کی عفت نیلام ہورہی ہے۔ آج کے حیا باختہ معاشرے نے رشتوں کے احترام اور تقدس کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے، ہر شخص اپنے لذتِ تن بدن کی تکمیل میں لگا ہوا ہے، نہ ماں کا تقدس ہے، نہ باپ کا احترام، نہ بیوی کی قدر ہے اور نہ بیٹی کی پہچان۔ غلط، بے حدود اور بے لگام راہیں انسان کو اچھی لگنے لگی ہیں، جس سے سماج بکھرتا جارہا ہے۔

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں اُن کے لیے عذاب ہے درد ناک دنیا اور آخرت میں اور اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (النور)

’’ اور ایسی ہی ہے پکڑ تیرے رب کی جب پکڑتا ہے بستیوں کو اور وہ ظلم کرتے ہوتے ہیں، بے شک! اس کی پکڑ دردناک ہے شدت کی۔‘‘ (ھود)

قومِ لوط پر جو عذاب آیا، ان کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ قوم شرم و حیا سے عاری ہوچکی تھی، بے حیائی کے کام بھری محفلوں اور مجلسوں میں کرتی تھی، ان کی حرکات، سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازار سب کے سب عریانی، فحاشی، آوارگی اور حیاباختگی کا مرقع بن چکے تھے۔ آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کو اس تباہی و بربادی اور ہلاکت کے دَہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

آج کی عورت اگر اپنی زندگی صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اْن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کی تو دور کی بات ہے، اپنے تصور میں بھی نہیں لائے گی اور عورت اپنی تمام تر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوکر اپنے شوہر کے لیے نیک رفیقِ سفر، والدین کے لیے چشمۂ رحمت، بھائی کے لیے گل دستۂ محبت، اولاد کے لیے گہوارۂ الفت و چاہت اور سارے معاشرے کے لیے نیک بخت اور نیک سیرت کا مجموعہ بن کر ساری دنیا کو جنت نما بنا سکتی ہے اور دنیا میں پھیلنے والی تمام برائیوں کا سدِباب بن کر انسانیت کو بھولا ہوا سبق یاد دلا سکتی ہے اور انسانیت کو جہنم کے دہانے سے دور کرکے جنت کی لازوال نعمتوں کی طرف پھیر سکتی ہے۔ بہرحال مرد ہوں یا خواتین، حکم راں ہوں یا رعایا، علماء ہوں یا عوام، سب کو اس معاشرہ سے اس بے حیائی و بے شرمی کو ختم کرنے کی اپنی سی استطاعت اور کوشش ضرور کرنی چاہیے، جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ۔‘‘

’’اے ایمان والو! تم اﷲ کے آگے سچی توبہ کرو، (توبہ کا ثمرہ فرماتے ہیں کہ) امید (یعنی وعدہ) ہے کہ تمہارا رب (اس توبہ کی بدولت ) تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔‘‘ (التحریم)

’’ اور توبہ کرو اﷲ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو! تاکہ تم بھلائی پاؤ۔‘‘ (النور)

اﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری قوم کو سمجھ عطا فرمائے، ہم سب کے حال پر رحم فرمائے، اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کی توفیق سے نوازے، اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ رسول اﷲ ﷺ نے ﷺ نے فرمایا حضور اکرم ﷺ مغربی تہذیب انسانیت کو اکرم ﷺ نے اﷲ تعالی شرم و حیا بے حیائی عورت اگر کرتے ہیں ن کے لیے ہے اور ا گھر میں عورت کے ہوتا ہے کرتا ہے اور حیا کے ساتھ ہیں اور کیا ہے ہیں کہ کا اور سے اور اور ان اور اس کی بات

پڑھیں:

’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-4

 

سید محمد علی

دنیا ایک ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں آوازیں بہت ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی بات کہنے کے لیے بے چین ہے، مگر دوسروں کی بات سننے کی طاقت کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس شور میں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ؛ اس کا احساس کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں بولنے والے لاکھوں ہیں، مگر سمجھنے والے مفقود۔ ہم ایک ایسی خاموش نسل بن چکے ہیں جو اپنے ہی شور میں دب کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کو ابتدا میں ایک انقلاب سمجھا گیا۔ اسے اظہارِ رائے، آزادی، اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ مگر آہستہ آہستہ یہی انقلاب ایک ایسی زنجیر بن گیا جس نے ہمیں اپنی اسکرین کے اندر قید کر دیا۔ اب ہر لفظ بولنے سے پہلے ہم یہ سوچتے ہیں کہ کتنے لوگ دیکھیں گے، لائک کریں گے یا کمنٹ کریں گے۔ ہماری تحریر اور تقریر سچائی کے بجائے تاثر کے تابع ہو گئی ہے۔ ہم اپنی حقیقی زندگی کے احساسات سے زیادہ مجازی دنیا کی واہ واہ میں الجھ گئے ہیں۔ انسان کے لیے کبھی گفتگو دلوں کا رابطہ تھی، مگر اب وہ پوسٹس، ریلز اور اسٹوریز میں بدل گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب چہرے پڑھنے، لہجے محسوس کرنے، اور آنکھوں سے بات کرنے کا فن عام تھا۔ اب سب کچھ اسکرین کے فریم میں قید ہو چکا ہے۔ ہم نے احساس کو تصویروں میں، جذبات کو ایموجیز میں، اور رشتوں کو نوٹیفکیشنز میں بدل دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں فالورز ہیں مگر ایک سچا سننے والا نہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں ظاہری طور پر جوڑ دیا، مگر حقیقت میں فاصلہ بڑھا دیا۔ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصویریں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں مگر ان لمحوں کو جیتے نہیں۔ ہم دوسروں کی تصویری خوشیوں کو دیکھ کر اپنی حقیقت سے دور ہو رہے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کی زندگی کو اپنے معیار سے بہتر سمجھنے لگا ہے، اور یہ احساسِ کمتری ہمارے اندر ایک خاموش اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ یہ وہ اضطراب ہے جو چیختا نہیں، بس اندر ہی اندر انسان کو کھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے دکھ، پریشانی یا کمزوریوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہاں کمزور ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سب کچھ ’’پرفیکٹ‘‘ دکھانا ایک دباؤ بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب مسکراتے چہروں کے پیچھے تھکے ہوئے، خالی دلوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہم نے مکالمے کو تبصرے سے بدل دیا ہے۔ اب اختلافِ رائے برداشت نہیں ہوتا، بلکہ ’’کینسل کلچر‘‘ نے سنجیدہ بات چیت کی جگہ لے لی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے رد کرنے لگے ہیں۔ کبھی اختلاف بات کو آگے بڑھاتا تھا، اب وہ تعلق ختم کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں رائے دینے کا حوصلہ تو دیا ہے مگر برداشت کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی یہ تبدیلی گہری ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل اب حقیقی تعلقات میں کم دلچسپی رکھتی ہے۔ دوستیاں، محبتیں، حتیٰ کہ خاندانی گفتگو بھی آن لائن میسجز تک محدود ہو گئی ہیں۔ ایک وقت تھا جب گھروں میں کھانے کی میز گفتگو سے روشن ہوتی تھی، اب ہر ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور ہر نگاہ ایک اسکرین پر جمی ہے۔ گھر وہ جگہ تھی جہاں دل آرام پاتے تھے، اب وہ وائی فائی کے سگنلز کے مرکز بن چکے ہیں۔ انسان نے مشینوں کو بنانے کے بعد سوچا تھا کہ یہ اس کی زندگی آسان کریں گی، مگر آہستہ آہستہ انہی مشینوں نے اس کے جذبات کو منجمد کر دیا۔ اب ہمارے احساسات ڈیجیٹل ردعمل کے تابع ہیں۔ کوئی ہمیں لائک نہ کرے تو ہم خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی دوسروں کے کلکس پر منحصر ہو گئی ہے۔ یہ وہ غلامی ہے جو زنجیروں سے نہیں، ذہن سے جکڑتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر نقصان دہ ہے۔ دراصل، یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیا بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت اسی وقت مثبت ثابت ہو سکتی ہے جب ہم اسے شعور کے ساتھ استعمال کریں۔ اگر ہم اسے اظہارِ احساس، آگاہی، اور فلاحِ انسانیت کے لیے استعمال کریں تو یہ معاشرتی ترقی کا زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر جب یہی پلیٹ فارم خودنمائی، حسد اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ انسانیت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ وہ انسان ہے جس نے اپنی انسانیت کو اس کے تابع کر دیا۔ ہم نے مشینوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے انہیں اپنے احساس پر حاوی کر دیا۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس شور میں اپنی آواز پہچانیں، اپنی خاموشی سنیں، اور اپنے دل کی زبان سے دوبارہ جڑیں۔ انسان کو دوبارہ ’’انسان‘‘ بننے کے لیے شاید صرف ایک لمحہ درکار ہے، وہ لمحہ جب وہ اپنی اسکرین بند کر کے کسی کے چہرے کو دیکھے، کسی کی بات سنے، یا کسی کی خاموشی کو محسوس کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں احساس کی طرف لوٹا سکتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی بات سننا شروع کریں گے، تبھی اپنی اندرونی خاموشی کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا کے ہجوم میں اگر کوئی چیز ہمیں دوبارہ انسان بنا سکتی ہے تو وہ احساس، مکالمہ اور سچائی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں واپس جانا ہوگا جہاں گفتگو لفظوں سے زیادہ دلوں کے درمیان ہوتی تھی، جہاں مسکراہٹ پیغام سے زیادہ مخلص تھی، اور جہاں ملاقات صرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھی۔ ہم اس زمانے کے مسافر ہیں جہاں آوازیں بہت ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ جہاں ہر روز لاکھوں پوسٹس اپلوڈ ہوتی ہیں مگر ایک سچا جذبہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہی ہماری خاموشی ہے۔ اور یہی ہمارے زوال کی سب سے اونچی چیخ۔ جب تک ہم سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت واپس نہیں لاتے، تب تک یہ شور ہمیں مزید گہری خاموشی میں دھکیلتا رہے گا۔

سید محمد علی

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ
  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • کارتک آریان نے اپنی فٹنس کا راز بتا دیا
  • مرزا رسول جوہؔر کی یاد میں
  • عاشقان رسولﷺ کو غازی علم دین کے راستے کو اپنانا ہوگا، مفتی طاہر مکی
  • تجدید وتجدّْ
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی