اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )احمر بلال صوفی نے کہا  ہےکہ بھارت کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں کہ وہ سندھ طاس کے عالمی معاہدے کو یکطرفہ ختم کردے۔

"جیو نیوز "سے گفتگو میں احمر بلال صوفی نے کہا کہ سندھ طاس کا عالمی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پرانا معاہدہ ہے، معاہدے میں ایک فریق کو اختیار ہی نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی کرے۔اگر بھارت ایسے معاہدہ معطل کرسکتا ہے تو پھر کوئی اور پڑوسی ملک بھی ایسا کرسکتا ہے۔اقوام متحدہ کا قانون ہے کہ تمام ممالک دہشتگردی ختم کرنے کے پابند ہیں۔

پہلی مورگن ریچ نیشنل جونیئر اوپن اسکواش چیمپئن شپ 24 اپریل سے شروع ہوگی

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

پاک امریکا معاہدہ، عالمی منظرنامے کی نئی حکایت

دنیا کے سیاسی اور اقتصادی منظرنامے میں جب بھی کوئی اہم معاہدہ ہوتا ہے، وہ صرف کاغذ پر دستخطوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ ایسے معاہدے نہ صرف متعلقہ ممالک بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان توازن کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان طے پانے والا حالیہ تجارتی معاہدہ بھی کچھ ایسی ہی تاریخی اہمیت رکھتا ہے، جسے دنیا کے بڑے میڈیا ادارے اپنے اپنے زاویے اور تناظر میں بیان کر رہے ہیں۔

رائٹرز: اقتصادی کامیابی کی نوید

رائٹرز کے مطابق، یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک اہم اقتصادی سنگِ میل ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی منڈی میں پاکستانی برآمدات کو درپیش ٹیرف جیسے چیلنجز شدید نوعیت اختیار کر چکے تھے۔ یہ معاہدہ نہ صرف ان ٹیرف کو کم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے بلکہ پاکستانی معیشت کے لیے استحکام اور ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس معاہدے میں پاکستان کے تیل کے ذخائر کی مشترکہ ترقی کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ شراکت داری محض تجارتی مفادات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں جغرافیائی سیاست کی گہرائی بھی شامل ہے۔

عرب نیوز: تکنیکی تعاون کی نئی جہت

عرب نیوز نے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کے بیانات کو نمایاں کرتے ہوئے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے سے صرف روایتی تجارت ہی نہیں بلکہ توانائی، معدنیات، آئی ٹی، اور کرپٹو کرنسی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں بھی دو طرفہ تعاون کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو اقتصادی کے ساتھ ساتھ تکنیکی و اسٹریٹجک محاذ پر بھی نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔

فاکس بزنس: طنز میں چھپی سیاسی حقیقتیں

فاکس بزنس کی رپورٹ میں صدر ٹرمپ کے طنزیہ انداز کو اجاگر کیا گیا، جہاں انہوں نے کہا کہ شاید اس شراکت داری کے نتیجے میں تیل بھارت کو بھی برآمد کیا جائے۔ اس ایک جملے میں جنوبی ایشیا کی پیچیدہ سیاسی حرکیات کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ امریکا، پاکستان، اور بھارت کے مابین موجود جغرافیائی سیاست کی گرہیں بعض اوقات ایسے ہی بیانات سے کھلتی یا مزید الجھتی ہیں۔

بلومبرگ: سرمایہ کاری کی نئی راہیں

بلومبرگ نے اس معاہدے کو امریکی سرمایہ کاری کے تناظر میں دیکھا ہے، جس کے تحت پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں براہِ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی رشتے کو مزید گہرا کرے گا، اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کے نئے امکانات پیدا کرے گا۔

سی این این اور بی بی سی: عالمی حکمت عملی کا تسلسل

سی این این اور بی بی سی جیسے عالمی ادارے اس معاہدے کو امریکا کی وسیع تر عالمی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ سی این این کے مطابق، یہ معاہدہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کا توازن قائم کرنے کے لیے امریکی کوششوں کا حصہ ہے۔ بی بی سی نے اس پہلو کو اجاگر کیا کہ یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے سیاسی و تجارتی توازن کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب بھارت کو ٹیرف جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

بھارتی میڈیا: متضاد زاویے

بھارتی ادارے جیسے دی اکنامک ٹائمز اور این ڈی ٹی وی اس معاہدے کی سیاسی نوعیت اور علاقائی اثرات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ دی اکنامک ٹائمز نے صدر ٹرمپ کے طنزیہ جملے کو نمایاں کرتے ہوئے معاہدے کی پوشیدہ سیاسی رمق کو اجاگر کیا، جبکہ این ڈی ٹی وی نے اسے علاقائی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے مثبت پیشرفت قرار دیا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیائی سیاست میں ہر معاہدہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ اسٹریٹجک اہمیت بھی رکھتا ہے۔

معاہدے سے بڑھ کر ایک حکمتِ عملی

یہ معاہدہ جہاں پاکستان کے لیے معاشی ترقی کی نوید ہے، وہیں امریکا کی جنوبی ایشیا میں موجودگی کو مستحکم کرنے اور چین کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے کی کوشش بھی ہے۔ پاکستان اور امریکا کی یہ نئی شراکت داری صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں بلکہ خطے کے پیچیدہ سیاسی تانے بانے میں ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتی ہے۔

لہٰذا، عالمی میڈیا جیسے اس معاہدے کے ہر پہلو کو گہرائی سے دیکھ رہا ہے، ہمیں بھی اسے صرف اقتصادی معاہدہ سمجھنے کے بجائے ایک وسیع تر بین الاقوامی حکمتِ عملی کے تناظر میں پرکھنا ہوگا کیونکہ اس کے اثرات سرحدوں سے کہیں آگے جا سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

امریکا بھارت پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاک امریکا معاہدہ پاکستان چین روس مشکورعلی

متعلقہ مضامین

  • امریکہ پاکستان سے تیل کا معاہدہ کیوں کر رہا ہے؟
  • اچھے کپڑوں اور گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی: حرا مانی
  • آپریشن مہادیو سے متعلق کسی بھی بھارتی دعوے کی ہمارے سامنے کوئی اہمیت نہیں: پاکستان
  • سندھ ہائی کورٹ نے سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ معطل کردیا
  • آپریشن مہا دیو کے بھارتی دعوے پاکستان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے: دفتر خارجہ
  • آپریشن مہادیو سے متعلق کوئی بھی بھارتی دعویٰ پاکستان کیلیے اہمیت نہیں رکھتا، دفتر خارجہ
  • آپریشن مہادیو سے متعلق کوئی بھی بھارتی دعویٰ پاکستان کیلیے اہمیت نہیں رکھتا، دفتر خارجہ
  • امریکا، پاکستان تجارتی معاہدہ
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9مئی کے مقدمات میں سزائیں،سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب کا اہم بیان
  • پاک امریکا معاہدہ، عالمی منظرنامے کی نئی حکایت