قوم پرستی ایک ایسا شر اور فساد ہے جسے ہمیشہ حب الوطنی کے کپڑے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ (THE MEANING OF THINGS) انتھونی کلفورڈ گریلنگ کی کتاب ہے جو انسانی اقدار، روزمرہ معاملات، مشاہدات اور تجربات مثلاً دیانت داری، وفا شعاری، محبت، غم، خوشی، خوف اور پچھتاؤں جیسے حساس جذبات کو فلسفیانہ انداز میں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے معاونت فراہم کرتی ہے۔
گریلنگ سیکولر ہیومنسٹ نظریے کے حامی ہیں، اسی لیے مختلف عقائد کے احترام کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ روحانیت اور اخلاقیات کو مذہب کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ فردِ واحد کی فکری، شخصی آزادی اور سماجی ذمہ داریوں کے درمیان توازن پر بات کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ ذاتی آزادی کس طرح اخلاقی طرزِ عمل سے جڑی ہوئی ہے۔
اس چھوٹی سی کتاب میں نیشنلزم (قوم پرستی) کے موضوع کا آغاز ’ایرک فروم‘ کے شاندار جملے سے ہوتا ہے کہ ’قوم پرستی ایک قسم کی خاندانی بد اخلاقی (incest)، بت پرستی اور اجتماعی دیوانگی کا نام ہے اور حُب الوطنی اس جنون کا ایک مذہبی حوالہ ہے۔‘
فروم کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح بداخلاقی فطری اصول کی خلاف ورزی اور بت پرستی کو عقل و فہم کی کمی سمجھا جاتا ہے، اسی طرح قوم پرستی بھی انسانی شعور اور اخلاقیات سے بغاوت کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جو جنگوں کا سبب بنتی ہے۔ اس کی جڑیں غیروں سے نفرت (xenophobia) اور نسل پرستی میں پیوست ہیں۔ یہ ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جسے عوام کو بہکانے والے ڈیماگوگ قسم کے جابر اور بددیانت حکمران استعمال کرتے ہیں۔ حب الوطنی اور وطن سے محبت کے لبادوں میں چھپے یہ بھیڑیے اپنے عوام کی اجتماعی نفسیات اور اُن کے جذبات سے کھیل کر اپنے اقتدار کو طول دیتے ہیں۔
اگر کوئی آپ کو کہے کہ ’اپنے بیٹے کو کہو کہ وہ پڑوسی کے بیٹے کو جا کر قتل کردے۔‘ ظاہری سی بات ہے کہ آپ اس عمل پر شدید احتجاج کریں گے۔ اسی لیے وہ بڑی چالاکی سے آپ کو ملک، قومیت، مذہب اور فرقے کے جذباتی نعروں سے مشتعل کرکے آپ کی ذہن سازی کرے گا۔ ملک اور وطن کا حوالہ دے کر آپ کو اسیر کرے گا اور پھر آپ نہایت فخر سے اپنے بیٹے کو اجازت دیں گے کہ وہ پڑوسی کے بیٹے کا سر قلم کردیا جائے اور جس دن آپ کا بیٹا اس راستے پر چل نکلا پھر صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بموں اور گولیوں سے بھون ڈالے گا۔
عوام کو بہکانے والے ڈیماگوگ حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ وہ قوم پرستی کا پرچار کرکے سماج کو گمراہ کر رہے ہیں، مگر وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ اُن کے پاس اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہوتا۔
ہٹلر نے خوب کہا تھا کہ ’ایک سچے قومی لیڈر کی مؤثر ترین حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ وہ عوام کی توجہ اپنی شخصیت سے ہٹنے نہ دے (انہیں شخصیت پرستی کا اسیر بنائے رکھے) اور اپنی قوم کے سامنے کوئی دشمن تخلیق کرکے اُن کی طرف سے ایک قسم کا نجات دہندہ بن کر اُبھرے۔ پھر لوگوں کی سوچ پر قفل لگا کر انہیں دشمن کا خوف دلائے اور اپنے اقتدار کی ہوس پوری کرے۔
جرمن فلسفی گوئٹے نے بھی کہا تھا کہ ’قوم پرستی کے جذبات ان معاشروں میں سب سے زیادہ شدید اور پُر تشدد وہاں ہوتے ہیں جہاں تہذیب و تمدن، علم و آگہی اور شعور کی کمی ہو۔‘
انتھونی کلفورڈ کے نزدیک لفظ ’قوم‘ بذات خود مبہم اور مصنوعی تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ’قوم‘ خالص نہیں بلکہ ہر قوم مختلف نسلوں، ثقافتوں اور قوموں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا نسلی پاکیزگی ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے اور اگر کوئی قوم یہ دعویٰ کرتی ہے تو، یا تو وہ جگہ اتنی پسماندہ تھی کہ وہاں کوئی آیا نہیں، یا وہ لوگ مسلسل غلام رہے اور دوسروں سے علیحدہ رہے۔
دنیا جانتی ہے کہ جب حکمران اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں تو وہ قوم پرستی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ پھر مذہب اور فرقوں کے نام پر اقلیتوں کو دبایا جاتا ہے۔ ایک طرف چیختا چنگھاڑتا میڈیا ’قوم دشمن‘ کہہ کر اختلاف کرنے والوں کو خاموش کر دیتا ہے، دوسری طرف تاریخ کو مسخ کرکے صرف ایک مذہب کا بیانیہ پیش کیا جاتا ہے اور حب الوطنی صرف ایک مخصوص نظریے سے وفاداری کا نام بن کر رہ جاتی ہے۔
قوم پرستی کے موضوع پر انتھونی کلفورڈ کی لکھی تحریر پڑھنے کے بعد اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھیں تو امریکا، ہندوستان اور اسرائیل کے قوم پرست لیڈروں کی چالاکیاں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے بھی اس کھیل میں اپنے پتے استعمال کرکے دیکھ لیے ہیں اور ہر قسم کے مذہبی چونسے چوسنے کے بعد سبق سیکھ چکے ہیں، مگر ہمارا پڑوسی ہم سے ایک ہاتھ آگے نکل کر نفرت کا اچھوتا اتہاس لکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہندوستان میں قوم پرستی اپنے عروج پر ہے جو نریندر مودی کی قیادت میں بھیانک نسل پرستی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ انسانی عقیدوں سے نفرت ایک طرف، وہاں کی قیادت اب قدرتی نعمت کو ہتھیار بنا کر دشمن ملک کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ باندھ چکی ہے۔
جو قوم دریاؤں کا بہاؤ روکنے کی کوشش کرتی ہے وہ اپنے ہی نصیبوں کا پانی خشک کر لیتی ہے۔ دریا، سمندر، پہاڑ، ہوائیں، آسمان یہ سب ازل سے آزاد ہیں۔ انہیں کوئی قید نہیں کرسکتا۔ پہاڑوں کی پیشانیوں سے پھوٹتا شفاف پانی کسی کا غلام نہیں۔ کھلے میدانوں کی بانہوں میں مچلنا اور سمندر کی آغوش میں سما جانا اس کی فطرت ہے۔
بہتے دریا کسی انسانی فرمان کے تابع نہیں اور نہ ہی انہیں کسی سیاسی زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے۔ اساطیری قصے کہانیوں میں آپ سمندروں پر پُل باندھ سکتے ہیں۔ دریاؤں کو بھی تخلیق کر سکتے ہیں اور اُن کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں، لیکن حقیقی دنیا میں اگر کوئی دریا ؤں کو روکنے، ہوا ؤں کو قید کرنے، روشنی کو مٹھی میں بند کرنے، فضائے بسیط پر اڑتے پرندوں کی اڑانوں پر جال ڈالنے اور فطرت کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ گویا فطرت کے ساتھ دشمنی کی جسارت کا مرتکب قرار پائے گا۔
دریا، صرف پانی کا بہاؤ نہیں ہوتے، یہ فطرت کی شریانیں ہوتی ہیں۔ان کی لہریں اپنے روکنے والوں سے انتقام ضرور لیتی ہیں اور یہ اپنے راستے میں آنے والی بستیوں کی بستیاں بہا کر لے جاتے ہیں۔ فطرت کے ساتھ ضد کرنا اپنے ساتھ اعلان جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ فطرت اپنی توہین کبھی برداشت نہیں کرتی۔
قوم پرستی کی حقیقت
قوم پرستی ایک ایسا شر اور فساد ہے جسے ہمیشہ حب الوطنی کے کپڑے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ (THE MEANING OF THINGS) انتھونی کلفورڈ گریلنگ کی کتاب ہے جو انسانی اقدار، روزمرہ معاملات، مشاہدات اور تجربات مثلاً دیانت داری، وفا شعاری، محبت، غم، خوشی، خوف اور پچھتاؤں جیسے حساس جذبات کو فلسفیانہ انداز میں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے معاونت فراہم کرتی ہے۔
گریلنگ سیکولر ہیومنسٹ نظریے کے حامی ہیں، اسی لیے مختلف عقائد کے احترام کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ روحانیت اور اخلاقیات کو مذہب کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ فردِ واحد کی فکری، شخصی آزادی اور سماجی ذمہ داریوں کے درمیان توازن پر بات کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ ذاتی آزادی کس طرح اخلاقی طرزِ عمل سے جڑی ہوئی ہے۔
اس چھوٹی سی کتاب میں نیشنلزم (قوم پرستی) کے موضوع کا آغاز ’ایرک فروم‘ کے شاندار جملے سے ہوتا ہے کہ ’قوم پرستی ایک قسم کی خاندانی بد اخلاقی (incest)، بت پرستی اور اجتماعی دیوانگی کا نام ہے اور حُب الوطنی اس جنون کا ایک مذہبی حوالہ ہے۔‘
فروم کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح بداخلاقی فطری اصول کی خلاف ورزی اور بت پرستی کو عقل و فہم کی کمی سمجھا جاتا ہے، اسی طرح قوم پرستی بھی انسانی شعور اور اخلاقیات سے بغاوت کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جو جنگوں کا سبب بنتی ہے۔ اس کی جڑیں غیروں سے نفرت (xenophobia) اور نسل پرستی میں پیوست ہیں۔ یہ ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جسے عوام کو بہکانے والے ڈیماگوگ قسم کے جابر اور بددیانت حکمران استعمال کرتے ہیں۔ حب الوطنی اور وطن سے محبت کے لبادوں میں چھپے یہ بھیڑیے اپنے عوام کی اجتماعی نفسیات اور اُن کے جذبات سے کھیل کر اپنے اقتدار کو طول دیتے ہیں۔
اگر کوئی آپ کو کہے کہ ’اپنے بیٹے کو کہو کہ وہ پڑوسی کے بیٹے کو جا کر قتل کردے۔‘ ظاہری سی بات ہے کہ آپ اس عمل پر شدید احتجاج کریں گے۔ اسی لیے وہ بڑی چالاکی سے آپ کو ملک، قومیت، مذہب اور فرقے کے جذباتی نعروں سے مشتعل کرکے آپ کی ذہن سازی کرے گا۔ ملک اور وطن کا حوالہ دے کر آپ کو اسیر کرے گا اور پھر آپ نہایت فخر سے اپنے بیٹے کو اجازت دیں گے کہ وہ پڑوسی کے بیٹے کا سر قلم کردیا جائے اور جس دن آپ کا بیٹا اس راستے پر چل نکلا پھر صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بموں اور گولیوں سے بھون ڈالے گا۔
عوام کو بہکانے والے ڈیماگوگ حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ وہ قوم پرستی کا پرچار کرکے سماج کو گمراہ کر رہے ہیں، مگر وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ اُن کے پاس اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہوتا۔
ہٹلر نے خوب کہا تھا کہ ’ایک سچے قومی لیڈر کی مؤثر ترین حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ وہ عوام کی توجہ اپنی شخصیت سے ہٹنے نہ دے (انہیں شخصیت پرستی کا اسیر بنائے رکھے) اور اپنی قوم کے سامنے کوئی دشمن تخلیق کرکے اُن کی طرف سے ایک قسم کا نجات دہندہ بن کر اُبھرے۔ پھر لوگوں کی سوچ پر قفل لگا کر انہیں دشمن کا خوف دلائے اور اپنے اقتدار کی ہوس پوری کرے۔
جرمن فلسفی گوئٹے نے بھی کہا تھا کہ ’قوم پرستی کے جذبات ان معاشروں میں سب سے زیادہ شدید اور پُر تشدد وہاں ہوتے ہیں جہاں تہذیب و تمدن، علم و آگہی اور شعور کی کمی ہو۔‘
انتھونی کلفورڈ کے نزدیک لفظ ’قوم‘ بذات خود مبہم اور مصنوعی تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ’قوم‘ خالص نہیں بلکہ ہر قوم مختلف نسلوں، ثقافتوں اور قوموں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا نسلی پاکیزگی ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے اور اگر کوئی قوم یہ دعویٰ کرتی ہے تو، یا تو وہ جگہ اتنی پسماندہ تھی کہ وہاں کوئی آیا نہیں، یا وہ لوگ مسلسل غلام رہے اور دوسروں سے علیحدہ رہے۔
دنیا جانتی ہے کہ جب حکمران اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں تو وہ قوم پرستی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ پھر مذہب اور فرقوں کے نام پر اقلیتوں کو دبایا جاتا ہے۔ ایک طرف چیختا چنگھاڑتا میڈیا ’قوم دشمن‘ کہہ کر اختلاف کرنے والوں کو خاموش کر دیتا ہے، دوسری طرف تاریخ کو مسخ کرکے صرف ایک مذہب کا بیانیہ پیش کیا جاتا ہے اور حب الوطنی صرف ایک مخصوص نظریے سے وفاداری کا نام بن کر رہ جاتی ہے۔
قوم پرستی کے موضوع پر انتھونی کلفورڈ کی لکھی تحریر پڑھنے کے بعد اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھیں تو امریکا، ہندوستان اور اسرائیل کے قوم پرست لیڈروں کی چالاکیاں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے بھی اس کھیل میں اپنے پتے استعمال کرکے دیکھ لیے ہیں اور ہر قسم کے اُمتی چونسے چوسنے کے بعد سبق سیکھ چکے ہیں، مگر ہمارا پڑوسی ہم سے ایک ہاتھ آگے نکل کر نفرت کا اچھوتا اتہاس لکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہندوستان میں قوم پرستی اپنے عروج پر ہے جو نریندر مودی کی قیادت میں بھیانک نسل پرستی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ انسانی عقیدوں سے نفرت ایک طرف، وہاں کی قیادت اب قدرتی نعمت کو ہتھیار بنا کر دشمن ملک کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ باندھ چکی ہے۔
جو قوم دریاؤں کا بہاؤ روکنے کی کوشش کرتی ہے وہ اپنے ہی نصیبوں کا پانی خشک کر لیتی ہے۔ دریا، سمندر، پہاڑ، ہوائیں، آسمان یہ سب ازل سے آزاد ہیں۔ انہیں کوئی قید نہیں کرسکتا۔ پہاڑوں کی پیشانیوں سے پھوٹتا شفاف پانی کسی کا غلام نہیں۔ کھلے میدانوں کی بانہوں میں مچلنا اور سمندر کی آغوش میں سما جانا اس کی فطرت ہے۔
بہتے دریا کسی انسانی فرمان کے تابع نہیں اور نہ ہی انہیں کسی سیاسی زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے۔ اساطیری قصے کہانیوں میں آپ سمندروں پر پُل باندھ سکتے ہیں۔ دریاؤں کو بھی تخلیق کر سکتے ہیں اور اُن کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں، لیکن حقیقی دنیا میں اگر کوئی دریا ؤں کو روکنے، ہوا ؤں کو قید کرنے، روشنی کو مٹھی میں بند کرنے، فضائے بسیط پر اڑتے پرندوں کی اڑانوں پر جال ڈالنے اور فطرت کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ گویا فطرت کے ساتھ دشمنی کی جسارت کا مرتکب قرار پائے گا۔
دریا، صرف پانی کا بہاؤ نہیں ہوتے، یہ فطرت کی شریانیں ہوتی ہیں۔ان کی لہریں اپنے روکنے والوں سے انتقام ضرور لیتی ہیں اور یہ اپنے راستے میں آنے والی بستیوں کی بستیاں بہا کر لے جاتے ہیں۔ فطرت کے ساتھ ضد کرنا اپنے ساتھ اعلان جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ فطرت اپنی توہین کبھی برداشت نہیں کرتی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: قوم پرستی ایک اور اخلاقیات قوم پرستی کے قوم پرستی کی پیش کیا جاتا فطرت کے ساتھ اپنے بیٹے کو وہ قوم پرستی اپنے اقتدار کی کوشش کر کہا تھا کہ نسل پرستی حب الوطنی نہیں بلکہ کا نام ہے ایک مذہب پرستی کا تخلیق کر سکتے ہیں کی قیادت بت پرستی کرتے ہیں کے موضوع ایک ایسا اگر کوئی کے جذبات مذہب اور یہ ہے کہ جاتا ہے صرف ایک کرنے کے کرتی ہے کا بہاؤ عوام کی اور وطن ہیں اور اسی لیے ایک قسم ایک طرف چکے ہیں اور ا ن نے بھی رہا ہے اور بت ہے جسے کے بعد یہ بھی چکی ہے کرے گا ہے اور کی کمی قسم کے سے ایک یہ ایک
پڑھیں:
آج کا دن کیسا رہے گا؟
حمل:
21 مارچ تا 21 اپریل
مثبت: جھاڑیوں کے گرد کوئی آہٹ نہیں ہے، آپ اس کا سامنا کر رہے ہیں، اس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور یقینی طور پر اس رٹ میں پھنسے ہوئے محسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو آپ نے پہلی جگہ شروع نہیں کی تھی۔ آپ سونے کی مرغی پر بیٹھے ہیں، اور آپ کے خیالات روشن ہیں۔ اب واحد چیز جو آپ کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ خود کو اس سے دور کرنا ہے جو آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ نہیں کرسکتے یا حاصل کرسکتے ہیں، اندرونی کشمکش سے خود کو الگ کریں اور ایک زائد از حد خاندانی چکر کو روکیں جو آپ کو پھنسا ہوا رکھتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے اگلے اقدامات کیا ہونے چاہئیں۔ اب اس کے بارے میں متجسس ہوجائیں، اسے آزمانے کےلیے اپنے آپ کو سب سے زیادہ ہمدردانہ طریقوں سے حوصلہ دیں، اور دوبارہ گرنے کے خوف سے بچنے کےلیے اسے دبلا رکھیں۔
منفی: غرور کی وجہ سے دوسروں کی مدد قبول کرنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
اہم خیال: آہستہ آہستہ تعمیر کریں، لیکن یقینی طور پر۔
ثور:
22 اپریل تا 20 مئی
مثبت: کچھ لوگ ایک موسم کےلیے ہیں، کچھ وجہ سے، اور دونوں کے درمیان فرق کرنے کا طریقہ جاننا آپ کے مسئلہ کا نصف حل ہے۔ اس پر قصور کیوں لگائیں جو آپ جانتے ہیں کہ آپ کو کرنا چاہیے، اس کے بجائے، اسے اپنے دل، اپنی زندگی اور اپنے معمول میں آسانی اور محبت کے ساتھ ضم کرنے کی کوشش کریں۔ جب آپ کو جگہ کی ضرورت ہو تو پیچھے ہٹ جائیں (یہ بھی چیک کریں کہ آیا پورا چاند آپ کو متاثر کررہا ہے) اور جب آپ ملنے کےلیے تیار ہوں، تو باہر نکلیں، لباس پہنیں اور ظاہر ہوں۔ اگر زندگی ایک پارٹی ہوتی۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ چند عظیم دوستوں اور واقفیت کے ایک ہجوم کے ساتھ باہر نکل رہے ہوں گے۔ تو اس طرح اس کا علاج کریں اور آگے بڑھیں۔
منفی: بہت زیادہ تنقیدی رویہ رکھتے ہیں اور خود کو اور دوسروں کو بہت زیادہ دباؤ میں ڈالتے ہیں۔
اہم خیال: جو چیز آپ کو متجسس کرتی ہے اسے اٹھائیں، اور اس میں گہرائی سے غوطہ لگائیں۔
جوزا:
21 مئی تا 21 جون
مثبت: بلند جذبات، غیر ضروری تناؤ اور پریشانیاں، بکھرے ہوئے خیالات اور بے خوابی کا ایک بے رحم احساس آپ کو رات کو جگا سکتا ہے، لیکن آپ کے فرشتے آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ ’آسانی سے سب سے بہتر ہے۔‘ اگر کوئی چیز آپ سے بہت زیادہ لے جاتی ہے، تو آپ شاید اسے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے بجائے کہ یہ آپ کو بہائے۔ مزاحمت کے احساس میں اضافہ کرنا، یہ آپ کے لیے اپنی طاقت دوبارہ حاصل کرنے کا وقت ہے، اپنی بات پر عمل کریں اور دوسروں کے جذبات سے اپنے جذبات کو نشان زد کرنا یاد رکھیں۔ ایک اوٹر کی طرح بنو۔ ہمیشہ اپنے قبیلے کے ساتھ دھوپ میں کھیلنے کےلیے ایک راستہ تلاش کرنا جبکہ ابھی بھی آزادی کے اپنے ذاتی احساس کو قدر دینا۔
منفی: فیصلے کرنے میں دشواری کا سامنا کر سکتے ہیں۔
اہم خیال: آپ کی حساسیت کائنات سے آپ کا حیرت انگیز تحفہ ہے۔ اسے کس طرح استعمال کرنا ہے یہ دریافت کریں۔
سرطان:
مثبت: کائنات نے آپ کےلیے تحفے کے طور پر خوشی کے بنڈل تیار کیے ہیں۔ جب آپ کم سے کم توقع کرتے ہیں تو وہ آپ تک پہنچ جائیں گے۔ سانس لیں۔ اپنے پھیڑوں سے، اپنی گردن سے، اپنی پیٹھ سے اور کہیں بھی آپ اپنے جسم میں گرہیں محسوس کرتے ہیں، اس سے دباؤ کو آزاد کریں۔ جی ہاں آپ یہاں شفا دینے کےلیے ہیں، خاندانی چکروں کو توڑنے کے لیے، اور یہاں تک کہ اپنے فوری حلقوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی خوشحالی کا آغاز کرنے کےلیے۔ اور اندازہ لگائیں، آپ کے پاس ایک سپورٹ سسٹم اور نیٹ ورک ہے جو آپ کو اسے دیکھنے میں مدد کرے گا۔ ان لوگوں کےلیے جو تھوڑا سا مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ دیکھو اب کون آپ کے ساتھ کھڑا ہے، وہ وہی ہیں جو آپ کے مقصد تک پہنچنے پر آپ کے ساتھ بیٹھنے کے مستحق ہیں۔
منفی: جذباتی طور پر بہت شدت سے وابستہ ہوسکتے ہیں جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اہم خیال: دوسروں کا دباؤ ان کے ساتھ ہی رہنے دیں، آپ کے ساتھ نہیں۔
اسد:
24 جولائی تا 23 اگست
مثبت: کچھ آپ سے جدا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اور آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کے دل کے اندر سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے خلا میں تیر رہے ہیں۔ بے معنی اور لامتناہی طور پر، آپ انہیں ایک ناظر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کائنات کا اشارہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کو۔ سب سے چھوٹے حصے تک آسان بنائیں۔ شور سے دور ہٹ جائیں، ان دروازوں سے باہر نکلیں جو آپ کے امن کو پکڑتے ہیں، تھوڑی دیر کے لیے بینچ پر اکیلے بیٹھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کے بارے میں جرنل لکھیں، تاکہ آپ کو یقین دہانی، وضاحت اور بصارت کی ضرورت پڑنے پر واپس آنے کے لیے کچھ مل جائے۔ اپنے آپ سے دوبارہ جڑنے کے اس سادہ عمل میں، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی خواہش کے مطابق زندگی جینا کیسا محسوس ہوگا۔
منفی: ہت زیادہ بے پرواہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اہم خیال: اپنی محبت، اپنے وسائل کو ان لوگوں کے ساتھ بانٹیں جنہیں آپ واقعی چاہتے ہیں؛ اور خوشی اور مسرت پھیلائیں۔
سنبلہ:
24 اگست تا 23 ستمبر
مثبت: ہر صبح اپنے آپ کو خوشی دینے، اپنے اور اپنے پیاروں کی دیکھ بھال کرنے، ان مقاصد کو حاصل کرنے کےلیے اور شاید ان سب کے درمیان ایک پرسکون لمحہ پکڑنے کےلیے ایک ملین طریقوں کے منتظر ہونے کا موقع لاتی ہے۔ آج آپ کے لیے صرف وہی دن ہے۔ اپنے مقاصد کو بڑا لیکن سادہ رکھیں، بصیرت پر مرکوز لیکن موجودہ، کوشش بصیرت مند لیکن قابل عمل، اور ذہنی صحت ایک ایسا عمل ہے جو ناگزیر ہے۔ آپ کے خیالات اور منصوبے بالکل درست ہیں اور آپ کو واقعی خود کو اس دیوا کے علاوہ کوئی اور بننے کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو آپ پہلے سے ہی ہیں۔ یاد رکھیں، جس طرح روم ایک دن میں نہیں بنا تھا، آپ کی زندگی بھی آپ کی آخری سانس تک اور اس سے آگے تک ایک سفر ہے۔ آپ جہاں پہلے سے ہی ہیں وہاں کہیں اور ہونے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
منفی: بہت زیادہ سخت گیر اور خود کو دوسروں سے الگ تھلگ محسوس کر سکتے ہیں۔
اہم خیال: وہ بننے کا لطف اٹھائیں جو آپ پہلے سے ہی ہیں۔
میزان:
24 ستمبر تا 23 اکتوبر
مثبت: اس رنگین قوس پر چلیں، بہادری سے آگے بڑھیں۔ ان لوگوں کے ذریعے جو آپ کو نہیں سمجھتے، ان لوگوں کے ذریعے جو آپ کو نظر انداز کرتے ہیں، نشان زد کرتے ہیں، یا یہاں تک کہ ان کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا ہے، آپ کا خوف ریت کا ایک چھوٹا سا دانہ ہے جب اس محبت اور کرم کی سونامی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے جو آپ ان لوگوں کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ جو وصول کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ واقعی اپنے قیمتی وجود کو کسے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جو آپ کو اٹھاتے ہیں یا وہ جو آپ سے زندگی کی روشنی چوس لیتے ہیں؟ کسی دوست کو فون کریں، اپنے گہری ترین احساسات کا اشتراک کریں، اپنی خود سے محبت کو دوبارہ ابھرنے دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ اس سے بہتر ہیں جو ابھی آپ پر عائد کیا جارہا ہے۔ اپنے فرشتوں کو اندر آنے دیں اور اس سب کو کیک کے ایک ٹکڑے کی طرح سنبھال لیں۔
منفی: دوسروں کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
اہم خیال: انہیں منتخب کریں جو آپ کو منتخب کرتے ہیں۔
عقرب:
24 اکتوبر تا 22 نومبر
مثبت: آپ کے آس پاس کی دنیا آپ سے بات کر رہی ہے، چاہے وہ آپ کے پالتو جانور ہوں، آپ کے پودے ہوں یا یہاں تک کہ آپ کی پسندیدہ چیزیں۔ وہ آپ کے ارتعاش کو دوبارہ گونج دیتے ہیں، آپ کو شفا دیتے ہیں، حمایت فراہم کرتے ہیں۔ اسے آسان بنانے کے لیے، آپ ان کے لیے جو محبت محسوس کرتے ہیں، وہ بھی آپ کے لیے محسوس کرتے ہیں۔ ایک شوقین منصوبے، شخص یا خیال کے ساتھ ایک محبت کا معاملہ یہاں آپ کے لیے ہے کہ آپ مکمل طور پر گلے لگائیں اور بہترین ممکنہ نتیجے کا خواب دیکھیں۔ کیا آپ اسے لے لیں گے؟ کیا آپ اسے اپنا سب کچھ دینے کےلیے تیار ہیں؟ آپ کے گہرے ترین احساسات آپ کو کیا بتا رہے ہیں؟ اپنے دماغ کو خاموش کریں اور صرف سنیں۔ ہر چیز بالکل ویسی ہی ہے جیسی اسے ابھی ہونا چاہیے۔ لہٰذا زیادہ سوچنے ضروری نہیں۔ وقت آگیا ہے۔
منفی: بہت زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے دباؤ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔
اہم خیال: اپنے خوابوں کو سچے ہوتے دیکھنا کیسا ہوگا؟
قوس:
23 نومبر تا 22 دسمبر
مثبت: جب آپ اندرونی اندھیرے کو محسوس کرتے ہیں، تو سورج میں بیٹھیں اور اس سے کہیں کہ وہ آپ کے کپ کو روشنی سے دوبارہ بھردے۔ ہمارے آس پاس کی ہر چیز زندہ ہے، اور جب ہم فعال طور پر مدد طلب کرتے ہیں، تو یہ سب پراسرار انداز میں جمع ہوجاتا ہے، ہمیں تقویت دیتا ہے، ہمیں خوش اور مطمئن محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے۔ دلوں کو ایک ساتھ جوڑا جارہا ہے، پل بنائے جارہے ہیں اور آپ کی روشنی آپ کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ آپ کو صرف یہ معلوم ہوگا کہ اگر آپ چیزوں کو ایماندار کوشش دیتے ہیں۔ زندگی سے آپ کو کیا چاہیے اور کیا نہیں چاہیے اس پر واضح ارادے طے کریں، اور پھر کائنات کو اپنی طرف سے مدد کرنے دیں۔
منفی: بے صبری اور جلدی بازی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اہم خیال: حل تلاش کرنے کےلیے تخلیقی طور پر سوچیں۔
جدی:
23 دسمبر تا 20 جنوری
مثبت: یہ جلد نہیں ہوسکتا، لیکن یہ یقینی طور پر آپ کو جڑ تلاش کرنے اور اسے ایک بار اور سب کےلیے ٹھیک کرنے کےلیے گھاٹی میں گہرائی سے دیکھنے کےلیے کہہ رہا ہے۔ آپ کو بڑی تبدیلیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے، اور اگرچہ یہ پہلے تو غیر آرام دہ محسوس ہوسکتا ہے، آپ کی روشنی آپ کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ آپ ستاروں کے گرد سے بنے ہیں۔ اپنے آپ پر ایک موقع لیں، کچھ نیا شروع کریں، پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ کیا کام نہیں کیا، اور اپنی نئی منصوبہ بندی پر ان تمام چیزوں کو لاگو کریں جنہیں آپ نے پہلے ٹھیک کیا ہوگا۔ آپ جو بھی راستہ چنتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہم بات یہ ہے کہ آپ ہار نہ مانیں۔
منفی: تبدیلی سے ڈر سکتے ہیں اور روایتی طریقوں پر قائم رہ سکتے ہیں۔
اہم خیال: مستقبل میں آغاز حاصل کرنے کے لیے ماضی کے غلطیوں پر قابو پائیں۔
دلو:
21 جنوری تا 19 فروری
مثبت: بڑی چیزوں کی طرف بڑھنے کے لیے، آپ کو دیکھے جانے کے خوف سے خود کو ایک کمرے میں بند کرنے کے بجائے ان مہارتوں کی مشق کرنے اور تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی آنت آپ کو چھلانگ لگانے کےلیے کہہ رہی ہے، آپ کا دماغ آپ کو انتظار کرنے کے لیے کہہ رہا ہے، اور آپ کے فرشتے اس خیال کے لیے بلاشبہ ’’ہاں‘‘ کہہ رہے ہیں، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ آپ ٹریک پر ہیں۔ کون کہتا ہے کہ آپ کو شفا دینے کےلیے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے، کون کہتا ہے کہ آپ کو سنجیدگی سے لیا جانے کے لیے ایک خاص رویہ ہونا چاہیے، کون کہتا ہے کہ آپ فرق پیدا کرنے کے لیے جوش و خروش سے پھڑکنے نہیں دے سکتے۔ آپ کی متعدی جوش و خروش وہی ہے جو آپ اس دنیا میں لے آتے ہیں، اور دنیا کو اس کی یقینی طور پر زیادہ ضرورت ہے۔ لہٰذا ان خیالات کو نوٹ کریں، اور زندگی کے اس دلچسپ سفر پر قدم رکھیں، جہاں سب کچھ ایک ساتھ ممکن ہے۔
منفی: بہت زیادہ بے چین ہوسکتے ہیں اور توجہ برقرار رکھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔
اہم خیال: آپ کے آس پاس کی تبدیلیاں آپ کے بہترین مفاد میں ہیں۔
حوت:
20 فروری تا 20 مارچ
مثبت: اپنی بصیرت کو سننے کا سب سے یقینی طریقہ یہ ہے کہ باہر نکلیں، فطرت میں بیٹھیں، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا پودا بھی کافی ہے، اور اپنے آپ سے اپنے سب سے زیادہ دباؤ والے سوالات پوچھیں، پھر آپ کو ملنے والے آپ کے فطری جوابات پر توجہ دیں۔ آپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا، یہ سب آپ کےلیے سازش کی گئی ہے۔ اگر آپ کو چیلنجز نہ ہوتے، تو آپ ان مہارتوں کو نہیں سیکھ پاتے جو ان پر قابو پانے کےلیے ضروری ہیں، اگر آپ کو گھٹنے کا احساس نہ ہوتا، تو آپ نے یہ نہیں سیکھا ہوتا کہ کیسے لڑنا ہے؛ اگر دباؤ نہ ہوتا، تو آپ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ آپ واقعی کیا چاہتے ہیں۔ امن ہے۔ معاف کریں اور ماضی کو جانے دیں جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا تاکہ آپ آخرکار ایک ایسے مستقبل کو قبول کرسکیں جو دوبارہ لکھے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔
منفی: ماضی کے غم پریشان کریں گے۔
اہم خیال: آپ کا مشن خود کو، دوسروں کو اور کسی اور چیز کو بھی شفا دینا ہے جس کے ساتھ آپ راستے عبور کرتے ہیں اور آپ کی گرم دلی سے مسکراہٹ کسی اور چیز کے مقابلے میں اتنی ہی اچھی جادوئی چھڑی ہے۔
(نوٹ: یہ عام پیش گوئیاں ہیں اور ہر ایک پر لاگو نہیں ہوسکتی ہیں۔)