حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں خاص طور پر جنوبی بیروت پر حالیہ فضائی حملہ امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے پر انجام پایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سوموار 28 اپریل 2025ء کی شام اپنی تقریر میں کہا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ اسے اسرائیل کے اندر بھی ایک جنگ کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمت، لبنانی فوج اور عوام طاقتور ہیں اور طاقتور باقی رہیں گے اور ہم ہر گز اس زمانے میں واپس نہیں جائیں گے جب امریکہ اور اسرائیل ہم پر دھونس جمایا کرتے تھے۔ شیخ نعیم قاسم نے لبنانی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "مناسب انداز میں استقامت کا مظاہرہ کریں اور دشمن کو مراعات مت دیں تاکہ ہم ملک کو ترقی کی جانب گامزن کر سکیں۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم نے اپنی سرحدوں پر دشمن کی تمام سرگرمیاں روک دی ہیں جبکہ دوسری طرف ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مراعات دیں۔ ہم سے مزید مراعات مت مانگیں کیونکہ ہم لبنان کی طاقت پر کسی قسم کا سودا نہیں کریں گے اور اگر ہم صحیح موقف اختیار کریں گے تو امریکہ بھی سیدھا ہو جائے گا۔ ایسی ترجیحات پائی جاتی ہیں جو لبنان کی ترقی کے لیے ضروری ہیں تاکہ استحکام اور ترقی حاصل ہو سکے اور ماضی میں پیش آنے والی مشکلات حل کی جا سکیں۔"
 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا: "ہماری اہم ترین ترجیحات میں لبنان کی ترقی، اسرائیلی جارحیت کی روک تھام، جنوبی لبنان سے صیہونی رژیم کا انخلاء اور قیدیوں کی آزادی ہے کیونکہ لبنان ایسی حالت میں ترقی نہیں کر سکتا جب دشمن ہمارے مختلف علاقوں پر فضائی حملوں میں مصروف ہے۔" شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا: "جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے اور ہم نے مزاحمتی فورس کے طور پر اس پر عمل کیا ہے اور لبنان نے جنگ بندی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی لیکن صیہونی رژیم اب تک 3 ہزار سے زیادہ مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر چکی ہے۔" انہوں نے کہا: "ہم سمجھتے ہیں کہ لبنان حکومت پر امریکہ، فرانس، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پر دباو ڈالنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت ختم کی جا سکے۔ اب تک لبنان حکومت نے جو دباو ڈالا ہے وہ بہت کم تھا اور یہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فعال کردار ادا کرے اور مربوطہ پانچ ممالک سے رابطہ کرے اور سلامتی کونسل میں شکایت کرے، امریکی سفیر جو اسرائیل کا حامی ہے اسے وزارت خارجہ بلائے اور وسیع پیمانے پر سفارتی اقدامات انجام دے۔"
 
شیخ نعیم قاسم نے ایک دن پہلے صیہونی رژیم کی جانب سے جنوبی بیروت پر فضائی جارحیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جارحیت کا مقصد لبنان پر سیاسی دباو ڈالنا ہے لیکن اس کی خصوصیت یہ تھی کہ دشمن کے بقول امریکہ کی مرضی سے انجام پائی ہے۔ دشمن بدستور لبنانی شہریوں پر حملہ کر رہا ہے اور انہیں نشانہ بنانے میں مصروف ہے اور اس نے زراعتی زمینوں اور رہائشی عمارتوں پر بھی بمباری کی ہے۔ لہذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور زیادہ بہتر انداز میں اقدامات انجام دے۔ حکومت کی ذمہ داری مقابلہ کرنا ہے اور اسے امریکہ پر دباو ڈالنا چاہیے اور تمام سیاسی قوتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کریں جبکہ ہم نہ صرف دشمن کے خلاف کوئی آواز نہیں سن رہے بلکہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی مزاحمت کے خلاف موقف اپنایا جاتا ہے اور فتنہ انگیزی کی جاتی ہے۔" سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا: "اسرائیل لبنان پر قبضہ جمانے کے درپے ہے اور وہ ہماری سرزمین پر ہمارے قصبے تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی یہ مات ماننے پر تیار نہیں تو وہ جواب دے کہ کیوں اسرائیل نے 18 سال تک لبنان پر قبضہ برقرار رکھا تھا اور صرف مزاحمت کے بعد ہی لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوا تھا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حزب اللہ لبنان سیکرٹری جنرل صیہونی رژیم کی ذمہ داری کی جانب نے کہا ہے اور

پڑھیں:

نیتن یاہو حکومت کے خاتمے کی کوشش معمولی فرق سے ناکام

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) 120 نشستوں پر مشتمل اسرائیلی پارلیمان 'کنیسٹ‘ میں 61 ارکان نے اپوزیشن کی تحریک کے خلاف ووٹ دیا۔

نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد میں شامل الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں کا حکومت کے ساتھ اس قانون پر اختلاف ہے، جس کے تحت الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کو بھی اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے پر مجبور کیا جا سکے گا۔

میڈیا رپورٹس میں اشارہ دیا گیا تھا کہ یہ جماعتیں حکومت کے خاتمے کی کوشش میں اپوزیشن کے حق میں ووٹ دیں گے۔

وائی نیٹ نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں اور کنیسٹ کی خارجہ اور سلامتی امور سے متعلق پالیسی کی کمیٹی کے سربراہ جولی ایڈلسٹائن کے درمیان مصالحتی مذاکرات ووٹنگ سے پہلے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

غزہ میں امداد کی تقسیم کے مرکز کے باہر اسرائیلی فائرنگ، 17 فلسطینی ہلاک

فلسطینی ریاست ہماری زندگی میں ممکن نہیں، امریکی سفیر ہکابی

ایڈلسٹائن ایسی قانون سازی پر کام کر رہے ہیں، جو الٹرا آرتھوڈوکس اسرائیلی مردوں کو فوجی خدمات انجام دینے کا پابند بنائے گی۔

اسی وجہ سے الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں نے خبردار کیا تھا کہ وہ نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد سے نکل جائیں گی۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں نے ووٹنگ سے قبل ممکنہ بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے کام کیا تھا۔

اسرائیل کے الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کو کئی سالوں سے فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اسے مستقل بنانے کے لیے قانون سازی کرنے میں ناکام رہنے کے بعد یہ محدود استثنیٰ گزشتہ سال ختم ہو گیا تھا۔

گزشتہ موسم گرما میں ملکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ الٹرا آرتھوڈوکس مردوں کو فوجی خدمات انجام دینا ہوں گی۔

الٹرا آرتھوڈوکس اسرائیلی مرد فوجی خدمات کو اپنے مذہبی طرز زندگی کے منافی سمجھتے ہیں، جزوی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں مرد اور خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔

غزہ پٹی کی جنگ اب تک جاری رہنے کی وجہ سے اسرائیلی فوج کو جنگ کے لیے تیار فوجیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پر جنرل اسمبلی میں ووٹنگ

دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آج جمعرات 12 جون کو ایک قرارداد پر ووٹنگ متوقع ہے، جس میں غزہ پٹی میں فوری جنگ بندی، حماس کے زیر قبضہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور تمام اسرائیلی سرحدی گزرگاہوں کو خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی کے لیے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسپین کی جانب سے تیار کردہ اس قرارداد کے مسودے میں ''بھوک کو شہریوں کے خلاف بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی شدید مذمت‘‘ کی گئی ہے۔

ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی میں بڑے پیمانے پر بھوک پھیلی ہوئی ہے اور اگر اسرائیل نے اس فلسطینی علاقے کی ناکہ بندی کو مکمل طور پر ختم نہ کیا اور اپنی فوجی مہم کو نہ روکا، تو تقریباﹰ 20 لاکھ فلسطینیوں کو قحط کا شدید خطرہ ہے۔

اسرائیل نے حماس کے ساتھ مارچ کے اوائل میں عارضی جنگ بندی ختم کرنے کے بعد غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانے پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے اور اسرائیل سے امداد کی ترسیل پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرنے والی ایک قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی تھی۔

امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا کیونکہ اس قرارداد کا یرغمالیوں کی رہائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ امریکہ کے علاوہ سلامتی کونسل کے دیگر تمام 14 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

193 رکنی جنرل اسمبلی میں کوئی ویٹو نہیں ہے، جہاں قرارداد کثرت رائے سے منظور ہونے کی توقع ہے۔ لیکن سلامتی کونسل کے برعکس، جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔

بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرم، سویڈن

سویڈن کی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل کی اجازت دینے سے انکار اور امداد کی تقسیم کے مقامات کو نشانہ بنانے کی وجہ سے شہری بھوکے مر رہے ہیں، جو ایک جنگی جرم ہے۔

جون کے اوائل میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک نے کہا تھا کہ غزہ پٹی میں امداد کی تقسیم کے مقامات کے آس پاس شہریوں پر مہلک حملے 'جنگی جرم‘ ہیں جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اسرائیل پر 'نسل کشی‘ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

تاہم اسرائیل نے اس الزام اور اس اصطلاح کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

سویڈن کی وزیر خارجہ ماریا مالمر اسٹینرگارڈ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''شہریوں کے خلاف بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔ زندگی بچانے والی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کردہ امداد کو کبھی بھی سیاسی یا فوجی نہیں بنایا جانا چاہیے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''اس وقت مضبوط اشارے مل رہے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی ہیومینیٹیرین قانون کے تحت اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر رہا … یہ ضروری ہے کہ خوراک، پانی اور ادویات فوری طور پر شہری آبادی تک پہنچیں، جس میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، جو مکمل طور پر غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں۔‘‘

سویڈن نے دسمبر 2024 میں اعلان کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین 'یو این آر ڈبلیو اے‘ کی فنڈنگ روک رہا ہے کیونکہ اسرائیل نے اس ایجنسی پر حماس کے عسکریت پسندوں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

شام سے حماس کے ارکان کو حراست میں لیا ہے، اسرائیل

اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے شام کے جنوبی حصے میں حماس کے متعدد ارکان کو حراست میں لینے کے لیے ایک آپریشن کیا ہے۔ شام کے ایک مقامی ٹی وی نے خبر دی ہے کہ تقریباﹰ 100 اسرائیلی فوجی لبنان کی سرحد کے قریب جنوبی شام کے گاؤں بیت جن پہنچے اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے متعدد افراد کے نام پکارے، جنہیں حراست میں لے لیا گیا۔

شام کے اس ٹی وی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک بھی کر دیا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد حماس کے ارکان تھے، جو اسرائیل کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور جنہیں پوچھ گچھ کے لیے اسرائیل لے جایا گیا۔ حراست میں لیے گئے افراد کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی۔

دسمبر کے اوائل میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی افواج نے جنوبی شام کے کئی علاقوں میں کارروائیاں کی ہیں اور ملک بھر میں سینکڑوں فضائی حملے بھی کیے ہیں، جن سے شامی فوج کے بیشتر عسکری اثاثے تباہ ہو چکے ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • حکومت تعلیم، صحت، امن نہیں صرف ٹیکس کی گردان کر رہی ہے: حافظ نعیم
  • بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مرضی کا پیش کیاگیا،پیریاسرسائیں
  • نیتن یاہو حکومت کے خاتمے کی کوشش معمولی فرق سے ناکام
  • امریکہ کی اقوامِ متحدہ کے دو ریاستی حل کانفرنس سے دور رہنے کی اپیل
  • اسرائیلی فورسز کے زیر حراست ترک شہری کی رہائی کا امکان
  • بلی تھیلے سے باہر آگئی
  • برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردیں
  • غزہ پر اسرائیلی جارحیت جاری، شہداء کی تعداد 55 ہزار سے تجاوز کر گئی
  • غزہ میں امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی فائرنگ سے 10 فلسطینی شہید‘ 30 سے زاید زخمی
  • فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ انسانیت کے خلاف اعلان جنگ ہے‘حسن بلال ہاشمی