GAZA:

غزہ میں پرہجوم مارکیٹ اور ریسٹورنٹ کے قریب واقع اسکول پر اسرائیل کی بم باری کے نتیجے میں 48 فلسطینی شہید ہوگئے۔

غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت صحت کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل نے دو حملے کیے، جس غزہ سٹی کے مضافات تفاح میں واقع کراما اسکول کو نشانہ بنایا جہاں 15 فلسطینی شہید ہوئے۔

حکام نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے دوسرا حملہ قریب ہی واقع ایک ریسٹورنٹ اور مارکیٹ کے قریب کیا جہاں مزید 33 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کو عام گاڑیوں میں اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ علاقہ خون کی ندی کا منظر پیش کر رہا تھا۔

عینی شاہدد احمد السعودی نے بتایا کہ لوگ مارکیٹ میں اپنی ضرورت کی اشیا لینے آتے ہیں لیکن یہاں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں، انسان تو کیا جانور بھی محفوظ نہیں ہیں، نہ تو بچے اور نہ ہی بزرگ محفوظ ہیں۔

اسرائیل فوج نے جس اسکول کو نشانہ بنایا وہاں بے گھر فلسطینی موجود تھے جبکہ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے دہشت گردوں کا ٹھکانہ تباہ کیا ہے حالانکہ وہاں خواتین اور بچے بھی شہید ہوگئے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ بمباری سے اسکول کے کلاس رومز اور فرنیچر تباہ ہوگیا ہے زخمیوں کو طبی امداد کے لیے وہاں لے جایا گیا ہے اور ملبے تلے دبے افراد کی تلاش جاری ہے۔

فلسطینی شہری علی الشاکرہ نے بتایا کہ اسکول میں بمباری سے ایسا محسوس ہوا جیسے زلزلہ آیا ہو، قابض اسرائیل نے بچوں کے اسکول کو نشانہ بنایا ہے، وہاں بچے تھے اور اسکول میں 300 خاندان موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب عمارت ختم ہوچکی ہے، ہم وہاں موجود گیس سلنڈر، آٹے کے تھیلے، چاول اور دیگر کھانے کی اشیا تلاش نہیں کرسکتے ہیں، یہ تو شکر ہے ہم نے جو کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ رہ گئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینی شہید نے بتایا کہ کہ اسرائیل

پڑھیں:

مظلوم فلسطینی

مسلمان اپنے کردارکی وجہ سے شکست و ریخت سے دوچار ہیں، ان کے رعب و دبدبے کی جگہ بزدلی اور خوشامد نے لے لی ہے، حالانکہ بعض مسلم ممالک تو دولت، پیسے کے اعتبار سے امیر ترین ہیں، سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں اور بڑے ہو کر یہی چمچہ دوسرے کاموں کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔

آج فلسطین کی آبادی اور عمارات، کاروبار، سکون و اطمینان ختم ہو چکا ہے، بے شمار فلسطینی بھوک کے خوفناک عمل سے گزر رہے ہیں، شاذ و نادر ہی خوراک پہنچ پاتی ہے جوکہ پوری بھی نہیں پڑتی ہے، فلسطینی بچے، خواتین اور مرد خالی برتن خوراک کے لیے مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں، اس پر طرہ یہ کہ اسرائیل ان لاچار فلسطینیوں کی کھانے پینے کی اشیا پر بمباری کردیتا ہے، راستوں کو بلاک کردیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فلسطینی بے یار و مددگار، بھوکے پیاسے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ فلسطین میں قحط کا سماں ہے، ساتھ میں نہتے فلسطینیوں پر زمینی اور فضائی حملے بھی پابندی سے کیے جا رہے ہیں، امریکا ہر طرح سے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے، اسلحہ پہنچا رہا ہے، فلسطینیوں کی آبادی کو ختم کرنے کے لیے حوصلہ بڑھا رہا ہے اور اسلامی ممالک جن کی تعداد 57 ہے وہ سب تماشائی بنے ہوئے ہیں، مجال ہے کوئی اف بھی کرجائے، سپر طاقت سے ڈرنے کے بجائے دونوں جہانوں کے بادشاہ، قادرالمطلق، واحد و یکتا سے ذرہ برابر خوف زدہ نہیں ہیں کہ ہمارے سارے اعمال علین و سجین میں لکھے جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دوسری فلاحی جماعتیں بیانات کے علاوہ اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہیں، عالمی دباؤ کے تحت اسرائیل نے تین علاقوں میں ہر روز 10 گھنٹے حملے روکنے کا اعلان کیا ہے لیکن اپنی بات پر قائم رہنا اسرائیل کے لیے قطعی ممکن نہیں ہے، اس عہد کے چند گھنٹے گزارنے کے بعد ہی اسرائیلی فوج نے مختلف علاقوں پر بمباری شروع کردی۔

جھوٹ بولنا، وعدہ شکنی، آیات کو اپنے فائدے کے لیے تبدیل کرنا ان کا پیدائشی طریقہ کار ہے، جس کا ذکر بارہا قرآن پاک میں ملتا ہے۔ یہ نافرمان اور سرکش قوم ہے، بنی اسرائیل پر ان کی مقدس کتابوں میں بھی لعنت کی گئی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترنے والی کتاب میں ان کی سرکشی اور بغاوتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کی بنیاد پر انھیں تنبیہ کی تھی، اس لیے اللہ نے قسم ظاہرکرنے کے لیے ان کی مخالفت کی خاطر اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور انھیں صحراؤں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا تاکہ ان کی نسلوں کو دنیا کی دوسری قوموں میں ذلیل و خوار کرے اور انھیں ملک ملک میں تتربتر کر دے۔ (زیم1.4۔ آیات 26, 27)

لعنت ہے ان تمام افراد پر جو برائیوں کو نیکی اور نیکیوں کو برائیاں قرار دیتے ہیں، جو روشنی کی جگہ اندھیرا اور اندھیرے کی جگہ روشنی لاتے ہیں، جو مٹھاس کی جگہ کڑواہٹ اور کڑواہٹ کی جگہ مٹھاس لاتے ہیں، لعنت ہے ان لوگوں پر جو اپنی نظروں میں عقل مند اور چالاک ہیں، لعنت ہے ان آدمیوں پر جو شراب پینے میں بہت جرأت مند اور مشروبات میں ملاوٹ کرنے میں بہت تیز ہیں، جو پیسے کے عوض ظلم کو حلال کر لیتے ہیں اور مظلوم شخص کو انصاف فراہم نہیں کرتے۔ (ایسا باب 5، آیات 23,20)

یہ لوگ چاندی کے بدلے کھوٹ میں اس لیے ٹھہرو میں انھیں یروشلم کے بیچ جمع کروں گا، پھر جس طرح لوگ چاندی، کانسی، لوہا اور سکہ جمع کرتے ہیں اور انھیں بھٹی میں جھونک دیتے ہیں، اسی طرح میں تمہیں اس میں پگھلا کر رکھ دوں گا، پھر تمہیں پتا چلے گا کہ میں نے تم پر اپنا غضب نازل کر دیا ہے۔ (ایراخیل،22۔ آیات 22-7)

اپنی مقدس کتابوں کی تعلیم کو انھوں نے فراموش کر دیا ہے بس اس زعم میں مبتلا ہیں:
"The Chosen People of God"
دیوار گریہ پر جا کر معافی مانگتے ہیں مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور باہر آ کر اپنی پرانی عادتوں پر آجاتے ہیں اور مسلمانوں کا اجتماعی قتل کرتے ہیں۔ یہودیوں کے ظلم اور بربریت کا یہ عالم ہے کہ فلسطینیوں کی مدد کرنے والے غیر مسلموں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

مسلم ممالک کی خاموشی نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی امداد کرنے والے غیر مسلم سماجی کارکنوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے وہ کارکن جس کی وڈیو منظر عام پر آئی ہے، ایک برطانوی غیر مسلم سماجی کارکن مصری پولیس کی منت سماجت کر رہا ہے، اسلام کا واسطہ دے رہا ہے کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا انھیں غزہ کے بارڈر پر مسلمانوں کی مدد کے لیے جانے دیا جائے، وہاں بھوک سے بچے بلبلا رہے ہیں، لیکن مصری پولیس اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ حکمرانوں کی اسی بے حسی نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا ہے۔

معصوم بچے بھوکے ہیں، ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں، ان کے جسم سے گوشت ختم ہوگیا ہے، ان کے ابدان کا پنجر نظر آ رہا ہے، لیکن رحم جو مسلمانوں کی خاصیت ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات میں شامل ہے، اس سے غافل ہیں، دل سخت ہو گئے ہیں، ورنہ چند ممالک جہاد کا اعلان کر دیں، فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھائیں تو آگے آنے والے دنوں میں ہر دن شہادتیں اور بھوک ڈیرہ نہیں ڈالے گی۔

پوری دنیا میں مسلمان اسلامی تعلیمات سے بے گانہ ہو چکے ہیں، اگر کچھ مسلمان دین مبین پر عمل پیرا ہیں تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، پھر ان کے پاس اختیارات اور ذرایع نہیں ہیں کہ وہ فلسطین کے ریگزاروں، مسمارگھروں اور بے سہارا فلسطینیوں کی دامے، درمے، سخنے، قدمے مدد کریں، انھیں سہارا دیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔
علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے دور میں فلسطینیوں کی بڑھ چڑھ کر وکالت کی تھی۔ قائد اعظم نے تو مفتی امین الحسینی مرحوم کو ایک بار مسلم لیگ ہند کی جانب سے کئی ہزار پاؤنڈ کا عطیہ بھی دیا تھا۔

 ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھائی تھی، لاہور میں دوسری سربراہی کانفرنس کا مقصد بھی اسرائیل فلسطین قضیہ تھا۔ کانفرنس میں تمام مسلم سربراہوں کی موجودگی میں اسرائیل کو ایک جارحیت پسند اور قبضہ گیر ملک قرار دیا گیا تھا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا حکمران اور مقتدر حضرات لاپروا ہوتے چلے گئے جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ اس کی وجہ انسانیت اور اعمال صالحہ کا فقدان ہے، بس ہوس سلطنت اور مال و متاع کا حصول ہے۔ عزت اور زبان کا پاس، عہدکی پابندی دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔ پھر ظلمت نہ صرف یہ کہ پھیلے گی بلکہ روشنی کی کرنوں کو بھی ہڑپ کرنے میں طاقت کے بل اپنا کمال دکھائے گی۔
 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملے، امداد کے منتظر 36 افراد سمیت مزید 74 فلسطینی شہید
  • غزہ پر اسرائیلی درندگی جاری، امداد کے منتظر فلسطینیوں پر فائرنگ، مزید 36 افراد شہید
  • کراچی میں دہشتگردوں کی فائرنگ، مولانا رجب علی بنگش کے بیٹے سمیت 2 شہید
  • کراچی میں دہشتگردوں کی فائرنگ، مولانا رجب علی بنگش کے بیٹے سمیت 3 شہید
  • غزہ، صیہونی فورسز نے مزید 62 فلسطینیوں کو شہید کر دیا
  • اسرائیلی جارحیت جاری، غزہ میں امدادی مراکز پر حملے، 57 فلسطینی شہید
  • اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی بچوں کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر شہید کرنے کا انکشاف
  • غزہ: اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 62 فلسطینی شہید، زیادہ تر امداد کے متلاشی تھے
  • مظلوم فلسطینی
  • غزہ: بھوک نے مزید 12 افراد کی جان لے لی، اسرائیلی حملوں میں 100سے زائد فلسطینی شہید