بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ محلے کا کوئی تلنگا اپنی بدمعاشی کے بل بوتے پر اپنے آپ کو پورے محلے کا ہی مالک سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے کردار کبھی کسی کے معاملات میں گھستے ہیں کبھی کسی شریف آدمی پر انگلی اٹھاتے ہیں اور کبھی کسی پر ہاتھ اٹھا کر اپنی بدمعاشی کی دھاک بٹھاتے ہیں۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ہر غرور کا سر نیچا ہوتا ہے تو اسی طرح ایسے بدمعاشوں کا حل بھی عموماً محلے سے ہی دستیاب ہوتا ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ اس محلے کا کوئی شریف نوجوان، تلنگے کے بناوٹی رعب داب سے تنگ آکر ایک دن اس کا گریبان تھام لیتا ہے۔ دو چار رسید بھی کرتا ہے۔ چار چھ صلواتیں بھی سناتا ہے۔ بدمعاش کی ککری ہو جاتی ہے اور پھر یا تو وہ بدمعاشی سے تائب ہو جاتا ہے یا کسی اور بدمعاش سے صلح صفائی کے لیے ملتمس ہوتا ہے۔
اس روز مرہ کی کہانی کو پاک بھارت حالیہ مختصر جنگ کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت اس خطے کا وہ بدمعاش بن چکا تھا جس نے سارے خطے کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ کبھی نیپال سے جھگڑا، کبھی چین کو دھمکیاں، کبھی افغانستان میں در اندازی۔ کبھی بلوچستان میں دہشتگردی اور کبھی ایران سے اختلافات۔ خطے کو تو چھوڑیں بین الاقوامی طور پر دنیا بھارت کی بدمعاشی سے تنگ تھی۔ سنیں کینیڈا کیا الارم لگا رہا ہے؟ امریکا میں بھارت کیا کر رہا ہے؟ اور یمن میں کس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
اس عہد میں دنیا کا کوئی ملک جنگ کی خواہش نہیں رکھتا۔ دنیا اس وقت پسماندہ ممالک کی معیشت کی بہتری میں مصروف ہے کیونکہ دنیا کو آنے والے دنوں میں بے شمار مسائل کا سامنا ہو گا۔ خوراک کی قلت، پانی کی کمیابی، آبادی کا پھیلاؤ، موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کے ایجنڈے پر سر فہرست ہیں۔ اس وقت کوئی نہیں چاہتا کہ اپنی باقی ماندہ جمع پونجی جنگ کی آگ میں جھونک دے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے عوام کے ہاتھ میں روٹی کے بجائے بندوق ہو۔
بھارت اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ مدت بعد پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہی ہے۔ شرح سود میں آئے روز کمی ہو رہی ہے۔ ڈالر کی قدر کچھ عرصے سے مستحکم ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ دنیا پاکستان کے معاشی امور میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ سربراہان مملکت ہمارے مہمان بن رہے ہیں۔ یہ معیشت کے ٹیک آف کا ایسا مرحلہ ہے جہاں پاکستان کسی قسم کی جنگ کا رسک نہیں لے سکتا۔ کیونکہ طویل جنگ ترقی کی اس معمولی سی رمق کو چاٹ سکتی تھی۔
اسی خیال کو مدنظر رکھ کر بھارت نے پہلگام ڈرامہ رچایا۔ جس علاقے میں اپنی نو لاکھ فوج تھی وہیں دہشتگردی کروائی گئی۔ اور بنا کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام جڑ دیا۔ بھارتی سوشل میڈیا نے بنا کسی تحقیق کے ٹرینڈ بنانا شروع کر دیے۔ انڈین میڈیا گلے پھاڑ پھاڑ کر جنگ کی دھمکیاں دینے لگا۔ دنیا بھر نے پہلگام میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعے کی مزمت تو ضرور کی مگر کسی نے بھی پاکستان کو دوش نہیں دیا۔ اس سے مودی حکومت مزید جھنجھلا گئی۔ انہوں نے پاکستان پر بزدلانہ حملے شروع کیے۔ کہیں ڈرون بھیجے کہیں لائن آف کنٹرول پر بلاجواز فائرنگ کر کے پاکستان کو اشتعال دلایا تاکہ دنیا پاکستان کو در اندازی کا الزام دے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔
پاکستان نے پورے صبر و تحمل سے کام لیا۔ ساری دنیا کے سامنے ایک ایک ثبوت رکھا۔ بارہا پہلگام واقعے پر افسوس کا اظہار کیا مگر یہ شرافت کی باتیں مودی جی کو راس نہیں آئیں۔ بھارتی میڈیا نے ایک ہی رات میں خواب ہی خواب میں تو پورا پاکستان فتح کر لیا۔ خیال ہی خیال لاہور میں فتح کا جشن منالیا، کراچی کو افسانوی طریقے سے ملیا میٹ کر دیا، سیالکوٹ پر اپنا خیالی جھنڈا لگا دیا۔ یہ سب کچھ بھارتی ناظرین کی حوصلہ افزائی کے لیے تھا لیکن جھوٹ کا یہ بازار زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔
صبح ہوئی تو کراچی میں کاروبار زندگی ویسا ہی تھا جیسا ہمیشہ سے ہے۔ لاہوریے بیدار ہوئے تو کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ صرف انڈین میڈیا کا جھوٹ پکڑا گیا۔ ایک رات کے جھوٹ کی وجہ سے انڈین میڈیا پر اب خود بھارتی لوگوں کا اعتبار ہی ختم ہو گیا۔ اب بھارتیوں کو پتہ چل چکا ہے کہ انڈین میڈیا فلم تو بنا سکتا ہے، کہانی تو بنا سکتا ہے ، اے آئی کی مدد سے جنگ کی بساط تو بچھا سکتا ہے مگر سچ نہیں بول سکتا۔
مودی حکومت کی پوزیشن پہلے ہی خراب تھی۔ اس ڈرامے سے سوچا گیا تھا کہ اس حکومت کو سہارا ملے گا مگر بات الٹ پڑ گئی۔ اب پاکستان سے بدترین شکست کے بعد، ہوسکتا ہے کہ مودی حکومت بہار کے الیکشن تک کا انتظار نہ کر سکے۔ اب حکومت کی کرسی کی ٹانگیں لرز رہی ہیں اور چل چلاؤ کا دور ہے۔ اتحادی بھی اس ہزیمت سے جان چھڑانے کی بات کر رہے ہیں۔ اب مودی حکومت مٹھی میں ریت کی مانند ہے جو ہر لمحے ہاتھ سے پھسلستی جا رہی ہے۔
پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں دانش اور بردباری کا ثبوت دیا۔ نہ ہمارے میڈیا نے رپورٹنگ کے نام پر کہانیاں سنائیں نہ مودی حکومت کے بے سروپا الزامات کا جواب دیا۔ پاکستان نے بہت سوچ سمجھ کر صرف چند گھنٹے جنگ کی۔ اور ان چند گھنٹوں میں بھارت کے غرور کا بھرکس نکل گیا۔ مودی حکومت پہلے دنیا سے اپنے 6 طیاروں کی تباہی چھپانے میں مصروف تھی کہ اچانک اس کا سامنا عاصم منیر کی فوج سے ہو گیا۔ مودی حکومت کی بدمعاشی لمحوں میں خاک میں مل گئی۔ خطے کے بدمعاش کو وہ سبق ملا کہ وہ جان چھڑوانے کے لیے امریکا کے پاؤں پڑ گیا۔ چند گھنٹوں میں پاکستان کی بہادر سپاہ نے بھارت کو وہ سبق سکھایا کہ اب مدت تک خطے میں سکون ہے گا۔
جنگ کوئی اچھی چیز نہیں لیکن بعض اوقات امن کی خاطر جنگ کرنا لازم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی فوج کے ہاتھوں رسوا ہوئے بغیر بھارت کو چین نہیں پڑ رہا تھا۔ اب آپ دیکھ لیجیے گا کہ مودی حکومت بھی جائے گی، بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی زور پکڑیں گی اور ’ہند توا‘ کا ترانہ بھی اب انہیں بھول جائے گا۔ اب ان کے پاس اپنے زخم چاٹنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کے چند گھنٹوں کے ایکشن نے نہ صرف پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا بلکہ پورے خطے میں امن کو بحال کیا۔
بات محلے کے بدمعاش سے شروع ہوئی تھی۔ بعض اوقات محلے میں امن کی خاطر کسی شریف آدمی کو محلے کے بدمعاش کو ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ پاکستانی فوج نے بھارت کے ساتھ کیا ہے۔ اسی بات کو اس پیرائے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بسا اوقات امن کے حصول کے لیے جنگ لازم ہو جاتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم پاک بھارت جنگ عمار مسعود.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم پاک بھارت جنگ انڈین میڈیا پاکستان کو مودی حکومت سکتا ہے ہوتا ہے کے لیے جنگ کی رہی ہے
پڑھیں:
غزہ، انسانیت کا امتحان
غزہ میں حماس کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ غزہ پوری امت کا زندہ ضمیر اور آواز ہے جو قابض اسرائیل کے جارحانہ مظالم کے سامنے ثابت قدم ہے۔ دوسری جانب ترکیے نے غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب پر نیتن یاہو اور وزیر دفاع سمیت اسرائیل کے 37 عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کے یہودی آبادکاروں نے گزشتہ ماہ اکتوبر کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف کم از کم 264 حملے کیے، جو کہ 2006 سے اب تک ایک ماہ میں ہونے والے حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب بظاہر جنگ بندی ہوچکی ہے، لیکن اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے، یہ پوری انسانیت کی غیرت کا امتحان ہے۔ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے درست کہا کہ ’’غزہ پوری امت کا زندہ ضمیر ہے۔‘‘ درحقیقت یہ وہ زمین ہے جو کئی دہائیوں سے ظلم، بربریت اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں، عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے علمبردار سب دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک جدید ریاست اپنی عسکری قوت کے نشے میں بے گناہ انسانوں پر بم برسا رہی ہے، مگر ضمیر خاموش ہے۔
غزہ کی گلیوں میں اب زندگی نہیں، بلکہ درد، خوف، اور ملبے کے نیچے دبے خواب ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر ان ملبوں کے بیچ سے جو آواز بلند ہوتی ہے، وہ شکست کی نہیں بلکہ امید اور مزاحمت کی ہوتی ہے۔ فلسطینی عوام، جو پچھلے پچھتر برس سے مسلسل کرب اور قید کا سامنا کر رہے ہیں، آج بھی اپنے حقِ آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ان کا یہ عزم، کہ ’’ ہم اپنی سرزمین اور خود مختاری کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے‘‘ دراصل انسانیت کے وقار کا استعارہ بن چکا ہے۔
گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے پر جو مظالم ڈھائے، وہ صرف انسانی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ اجتماعی سزا کا ایک کھلا مظاہرہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (OCHA) کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینے میں مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے خلاف 264 حملے کیے جو کہ 2006 کے بعد کسی ایک مہینے میں ہونے والے حملوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ان حملوں کا نشانہ صرف مزاحمت کار نہیں، بلکہ کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، اسکول جاتے بچے، اور عبادت کرنے والے نمازی بھی ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مظالم کی فہرست اتنی طویل ہو چکی ہے کہ شاید تاریخ بھی اس کے بوجھ تلے دب جائے۔ اسپتالوں پر بمباری، اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شہریوں پر حملے، بجلی، پانی، اور خوراک کی بندش، یہ سب کسی جنگی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ نسل کشی کے منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اپنی سفارتی طاقت، میڈیا کنٹرول اور لابنگ کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ وہ ’’ دفاعی جنگ‘‘ لڑ رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک محصور، غیر مسلح اور بھوکی آبادی پر آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے۔ اس حقیقت کو اسرائیلی اخبار ہاریٹز (Haaretz) نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل نے امریکی عوام اور سیاسی حلقوں میں اپنی حمایت برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔ یعنی سچائی کو چھپانے، جھوٹ کو پھیلانے، اور ظلم کو جواز دینے کے لیے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
ایسے میں ترکیہ کا اقدام ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ترک عدالتوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، وزیر دفاع اور دیگر 37 اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف اخلاقی جرات کی علامت ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ایک مضبوط پیغام بھی ہے کہ ظلم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، ایک دن انصاف ضرور بولے گا۔
یہ وارنٹ گرفتاری بظاہر علامتی معلوم ہو سکتا ہے، کیونکہ اسرائیلی قیادت کو فی الفور عدالت میں نہیں لایا جا سکتا، مگر اس کے اثرات گہرے ہیں۔ یہ ایک اخلاقی دباؤ ہے، ایک سفارتی چوٹ ہے اور ایک اصولی پیغام ہے کہ انسانیت کے مجرم کبھی امن و عزت سے نہیں رہ سکتے۔ ترکیہ نے دراصل وہ کردار ادا کیا ہے جو اقوامِ متحدہ اور عالمی فوجداری عدالت (ICC) کو ادا کرنا چاہیے تھا۔
یہ سوال اب پوری دنیا کے سامنے کھڑا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے کہاں ہیں؟ جب یوکرین میں جنگ ہوتی ہے تو دنیا بھر کی حکومتیں فوری قراردادیں منظور کرتی ہیں، پابندیاں لگاتی ہیں اور مظلوموں کی حمایت میں بیانات جاری کرتی ہیں، مگر جب غزہ میں بچے جلتے ہیں، عورتیں ملبے تلے دم توڑتی ہیں اور ہزاروں بے گھر لوگ صحرا میں بھٹکتے ہیں، تو وہی عالمی ضمیر گونگا، بہرا اور اندھا ہو جاتا ہے۔امریکا اور یورپ کی خاموشی دراصل ان کے دہرے معیار کا عکاس ہے۔
یہ ممالک آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے بڑے دعوے دار ہیں، مگر جب ظلم اسرائیل کی جانب سے ہو تو یہ اصول پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے مسلسل اسرائیل کو فوجی امداد، سیاسی پشت پناہی اور میڈیا سپورٹ فراہم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک انسانی جانوں کی قیمت نسل، مذہب اور مفاد کے حساب سے مختلف ہے۔غزہ کے نوجوان، عورتیں اور بچے جن حالات میں جی رہے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ تصور ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے چہروں پر جو حوصلہ ہے، وہ دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کے دعوؤں سے زیادہ مضبوط ہے۔ ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں، مگر ان کے دلوں میں وہ یقین ہے جو دنیا کی کسی فوج میں نہیں پایا جاتا۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟ صرف بیانات، اجلاس اور مذمتی قراردادیں کافی نہیں۔ مسلم ممالک کے پاس وسائل ہیں، سفارتی اثر ہے اور عوامی حمایت ہے، مگر بدقسمتی سے ان میں اتحاد کی کمی اور عملی فیصلوں کا فقدان ہے، اگر مسلم ممالک اجتماعی طور پر اسرائیل کے خلاف سفارتی بائیکاٹ، معاشی پابندیاں یا عالمی عدالتوں میں مشترکہ مقدمات دائر کریں، تو عالمی سیاست کا توازن بدل سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا اپنے اندر موجود سیاسی مفادات اور مسلکی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر فلسطین کے لیے ایک آواز بنے۔
ترکیہ کا قدم دیگر مسلم ممالک کے لیے ایک مثال ہے، اگر عرب دنیا، پاکستان، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر اسلامی ممالک متحد ہو جائیں تو کوئی طاقت اسرائیل کے ظلم کو روکنے سے قاصر نہیں رہے گی۔اس جنگ کا ایک اہم محاذ میڈیا بھی ہے۔ اسرائیل اور اس کے حمایتی عالمی میڈیا کے ذریعے بیانیہ (Narrative) پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغربی ذرایع ابلاغ اکثر اسرائیلی مظالم کو نظرانداز کرتے ہیں، اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو ’’ دہشت گردی‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے اب مسلم دنیا کو اپنا میڈیا بیانیہ مضبوط بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا، وڈیوز، اور آزاد صحافیوں کے ذریعے دنیا تک سچ پہنچانا ایک جہاد بن چکا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر رائے عامہ بدل رہی ہے۔ مغربی ممالک کے اندر بھی ہزاروں لوگ فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ طلبا، اساتذہ، مصنفین اور حتیٰ کہ یہودی سماجی کارکن بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف انسانی ضمیر ابھی مکمل طور پر مرا نہیں۔تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ ظلم ہمیشہ وقتی ہوتا ہے، اور مظلوم کی صدا دیر سے سہی مگر ضرور سنی جاتی ہے، آج اگر اسرائیل طاقت کے نشے میں غزہ کو مٹا دینا چاہتا ہے تو کل یہی طاقت اس کے زوال کا سبب بنے گی۔ نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ترکیہ کے وارنٹ گرفتاری محض ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ ایک علامت ہے، اس بات کی کہ مظلوم کے لیے دنیا میں ابھی بھی کچھ ضمیر زندہ ہیں۔
غزہ کی داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ آزادی کوئی خیرات نہیں، بلکہ قربانیوں سے حاصل ہونے والا حق ہے۔ فلسطینیوں نے اپنی جان، مال، نسل، اور خواب قربان کیے، مگر جھکے نہیں۔ یہ عزم، یہ استقامت، اور یہ ایمان دنیا کے لیے ایک آئینہ ہے۔
دنیا کے حکمرانوں، اداروں، اور عوام کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ تاریخ کے کس جانب کھڑے ہیں، مظلوموں کے ساتھ یا ظالموں کے ساتھ۔ خاموشی بھی جرم ہے، اور بے حسی بھی شریکِ ظلم۔یہ جدوجہد جاری رہے گی، کیونکہ حق دب سکتا ہے، مٹ نہیں سکتا۔ ظلم جیت سکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ ایک دن غزہ کے افق پر بھی سورجِ آزادی طلوع ہوگا اور اس دن دنیا دیکھے گی کہ مظلوم کی دعا ظالم کی تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔