WE News:
2025-08-11@11:00:51 GMT

امن کے لیے جنگ ضروری ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ محلے کا کوئی تلنگا اپنی بدمعاشی کے بل بوتے پر اپنے آپ کو پورے  محلے کا ہی  مالک سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے کردار کبھی کسی کے معاملات میں گھستے ہیں کبھی کسی شریف آدمی پر انگلی اٹھاتے ہیں اور کبھی کسی پر ہاتھ اٹھا کر اپنی بدمعاشی کی دھاک بٹھاتے ہیں۔ لیکن  وہ جو کہتے ہیں کہ ہر غرور کا سر نیچا ہوتا ہے تو اسی طرح ایسے بدمعاشوں کا حل بھی عموماً محلے سے ہی دستیاب ہوتا ہے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ اس محلے کا کوئی شریف نوجوان،  تلنگے کے بناوٹی رعب داب سے تنگ آکر ایک دن اس کا گریبان تھام لیتا ہے۔ دو چار رسید بھی کرتا ہے۔ چار چھ صلواتیں بھی سناتا ہے۔ بدمعاش کی  ککری ہو جاتی ہے اور پھر یا تو وہ بدمعاشی سے تائب ہو جاتا ہے یا کسی اور بدمعاش سے صلح صفائی کے لیے ملتمس ہوتا ہے۔

اس روز مرہ کی کہانی کو پاک بھارت حالیہ مختصر جنگ کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت اس خطے کا وہ بدمعاش بن چکا تھا جس نے سارے خطے کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ کبھی نیپال سے جھگڑا، کبھی چین کو دھمکیاں، کبھی افغانستان میں در اندازی۔ کبھی بلوچستان میں دہشتگردی اور کبھی ایران سے اختلافات۔ خطے کو تو چھوڑیں بین الاقوامی طور پر دنیا بھارت کی بدمعاشی سے تنگ تھی۔ سنیں کینیڈا کیا الارم لگا رہا ہے؟ امریکا میں بھارت کیا کر رہا ہے؟ اور یمن میں کس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

اس عہد میں دنیا کا کوئی ملک جنگ کی خواہش نہیں رکھتا۔ دنیا اس وقت پسماندہ ممالک کی معیشت کی بہتری میں مصروف ہے کیونکہ دنیا کو آنے والے دنوں میں بے شمار مسائل کا سامنا ہو گا۔ خوراک کی قلت، پانی کی کمیابی، آبادی کا پھیلاؤ، موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کے ایجنڈے پر سر فہرست ہیں۔ اس وقت کوئی نہیں چاہتا کہ اپنی باقی ماندہ جمع پونجی جنگ کی آگ میں جھونک دے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے عوام کے ہاتھ میں روٹی کے بجائے بندوق ہو۔

بھارت اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ مدت بعد پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہی ہے۔ شرح سود میں آئے روز کمی ہو رہی ہے۔ ڈالر کی قدر کچھ عرصے سے مستحکم ہے۔ سرمایہ کاروں  کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ دنیا پاکستان کے معاشی امور میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ سربراہان مملکت ہمارے مہمان بن رہے ہیں۔ یہ معیشت کے ٹیک آف کا ایسا مرحلہ ہے جہاں پاکستان کسی قسم کی جنگ کا رسک نہیں لے سکتا۔ کیونکہ طویل جنگ ترقی کی اس معمولی سی رمق کو چاٹ سکتی تھی۔

اسی خیال کو مدنظر رکھ کر بھارت نے  پہلگام ڈرامہ رچایا۔ جس علاقے میں اپنی نو لاکھ فوج تھی وہیں دہشتگردی کروائی گئی۔ اور بنا کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام جڑ دیا۔ بھارتی سوشل میڈیا نے بنا کسی تحقیق کے ٹرینڈ بنانا شروع کر دیے۔ انڈین میڈیا گلے پھاڑ پھاڑ کر جنگ کی دھمکیاں دینے لگا۔ دنیا بھر نے پہلگام میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعے کی مزمت تو ضرور کی مگر کسی نے بھی پاکستان کو دوش نہیں دیا۔ اس سے مودی حکومت مزید جھنجھلا گئی۔ انہوں نے پاکستان پر بزدلانہ حملے شروع کیے۔ کہیں ڈرون بھیجے کہیں لائن آف کنٹرول پر  بلاجواز فائرنگ کر کے پاکستان کو اشتعال دلایا تاکہ دنیا پاکستان کو در اندازی کا  الزام دے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔

پاکستان نے پورے صبر و تحمل سے کام لیا۔ ساری دنیا کے سامنے ایک ایک  ثبوت رکھا۔ بارہا پہلگام واقعے پر افسوس کا اظہار کیا مگر یہ شرافت کی باتیں مودی جی کو راس نہیں آئیں۔ بھارتی میڈیا نے ایک ہی رات میں خواب ہی خواب میں تو پورا پاکستان فتح کر لیا۔ خیال ہی خیال لاہور میں فتح کا جشن منالیا، کراچی کو افسانوی طریقے سے ملیا میٹ کر دیا، سیالکوٹ پر اپنا خیالی جھنڈا لگا دیا۔ یہ سب کچھ بھارتی ناظرین کی حوصلہ افزائی کے لیے تھا لیکن جھوٹ کا یہ بازار زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔

صبح ہوئی تو کراچی میں کاروبار زندگی ویسا ہی تھا جیسا ہمیشہ سے ہے۔ لاہوریے بیدار ہوئے تو کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ صرف انڈین میڈیا کا جھوٹ پکڑا گیا۔ ایک رات کے جھوٹ کی وجہ سے انڈین میڈیا پر اب خود بھارتی لوگوں کا اعتبار ہی ختم ہو گیا۔ اب بھارتیوں کو پتہ چل چکا ہے کہ انڈین میڈیا فلم تو بنا سکتا ہے، کہانی تو بنا سکتا ہے ، اے آئی کی مدد سے جنگ کی بساط تو بچھا سکتا ہے مگر سچ نہیں بول سکتا۔

مودی حکومت کی پوزیشن پہلے ہی خراب تھی۔ اس ڈرامے سے سوچا گیا تھا کہ اس حکومت کو سہارا ملے گا مگر بات الٹ پڑ گئی۔ اب پاکستان سے بدترین شکست کے بعد، ہوسکتا ہے کہ مودی حکومت بہار کے الیکشن تک کا انتظار نہ کر سکے۔ اب حکومت کی کرسی کی ٹانگیں لرز رہی ہیں اور چل چلاؤ کا دور ہے۔ اتحادی بھی اس ہزیمت سے جان چھڑانے کی بات کر رہے ہیں۔ اب مودی حکومت مٹھی میں ریت کی مانند ہے جو ہر لمحے ہاتھ سے  پھسلستی جا رہی ہے۔

پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں دانش اور بردباری کا ثبوت دیا۔ نہ ہمارے میڈیا نے رپورٹنگ کے نام پر کہانیاں سنائیں نہ مودی حکومت کے بے سروپا الزامات کا جواب دیا۔ پاکستان نے بہت سوچ سمجھ کر صرف چند گھنٹے جنگ کی۔ اور ان چند گھنٹوں میں بھارت کے غرور کا بھرکس نکل گیا۔ مودی حکومت پہلے دنیا سے اپنے 6 طیاروں کی تباہی چھپانے میں مصروف تھی کہ اچانک اس کا سامنا عاصم منیر کی فوج سے ہو گیا۔ مودی حکومت کی بدمعاشی لمحوں میں خاک میں مل گئی۔ خطے کے بدمعاش کو وہ سبق ملا کہ وہ جان چھڑوانے کے لیے امریکا کے پاؤں پڑ گیا۔ چند گھنٹوں میں پاکستان کی بہادر سپاہ نے بھارت کو وہ سبق سکھایا کہ اب مدت تک خطے میں سکون ہے گا۔

جنگ کوئی اچھی چیز نہیں لیکن بعض اوقات امن کی خاطر جنگ کرنا لازم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی فوج کے ہاتھوں رسوا ہوئے بغیر بھارت کو چین نہیں پڑ رہا تھا۔ اب آپ دیکھ لیجیے گا کہ مودی حکومت بھی جائے گی، بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی زور پکڑیں گی اور ’ہند توا‘  کا ترانہ بھی اب انہیں بھول جائے گا۔ اب ان کے پاس اپنے زخم چاٹنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کے چند گھنٹوں کے ایکشن نے نہ صرف پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا بلکہ پورے خطے میں امن کو بحال کیا۔

بات محلے کے بدمعاش سے شروع ہوئی تھی۔ بعض اوقات محلے میں امن کی خاطر کسی شریف آدمی کو محلے کے بدمعاش کو ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ پاکستانی فوج نے بھارت کے ساتھ کیا ہے۔ اسی بات کو اس پیرائے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بسا اوقات امن کے حصول کے لیے جنگ لازم ہو جاتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم پاک بھارت جنگ عمار مسعود.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم پاک بھارت جنگ انڈین میڈیا پاکستان کو مودی حکومت سکتا ہے ہوتا ہے کے لیے جنگ کی رہی ہے

پڑھیں:

دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست

اسلام ٹائمز: سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

دنیا کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صرف ماضی کا حصہ نہیں بنتے بلکہ آنے والے ہر دور میں ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ بوسنیا کی نسل کشی اور آج کا غزہ۔ یہ دونوں سانحات وقت اور جغرافیہ کے فاصلے کے باوجود ایک دوسرے کے آئینے ہیں۔ دونوں میں بے بس مظلوم، طاقت کے نشے میں چور جارح، اقوامِ متحدہ کی بے عملی، مغربی دنیا کی منافقت، اور مسلم دنیا کی خوابیدہ خاموشی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونی ریاست اسرائیل، جس کی بنیاد ہی فلسطینی زمین پر غاصبانہ قبضے پر رکھی گئی، گزشتہ پونے دو سال سے غزہ کے محصور عوام کو نہ صرف بمباری، بھوک اور بیماری کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب کھلے عام اس کی بقاء اور آزادی کو مکمل طور پر مٹانے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔

اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کے اُس منصوبے کو منظور کیا ہے جس کے مطابق غزہ شہر کا مکمل عسکری کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ محض "سلامتی" کا ڈھونگ نہیں بلکہ قبضے کو دائمی شکل دینے کا اعلان ہے۔ نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ یہ قبضہ نہیں بلکہ عسکری کنٹرول ہے، ایک ایسا لغوی فریب ہے جو حقیقت کی لاش کو الفاظ کے کفن میں لپیٹنے کے مترادف ہے۔ مغربی دنیا کے اخلاقی معیار کی دوغلی حقیقت اس وقت ننگی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ساحل پر بھٹکی ہوئی وہیل یا کسی سرکس میں ہاتھی پر ظلم پوری دنیا میں احتجاج اور آنسوؤں کا سیلاب لے آتا ہے، مگر جب غزہ میں معصوم بچوں کے جسم بارود سے بکھر جاتے ہیں، مائیں اپنے لختِ جگر کے کٹے پھٹے اعضا گود میں اٹھائے بین کرتی ہیں، اور پورے شہر ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں، تو یہ نام نہاد مہذب معاشرے اور انسانی حقوق کے علمبردار اچانک گونگے بہرے ہو جاتے ہیں۔

یہ چنیدہ ہمدردی اب کسی فرد کا ذاتی نقص نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ بوسنیا کی سرزمین پر 1992ء سے 1995ء تک برپا ہونے والا قیامت خیز دور آج بھی یورپ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ سریبرینیتسا میں 8,000 سے زائد مسلمان مرد اور لڑکے اُس وقت ذبح کر دیے گئے جب وہ اقوامِ متحدہ کی ’’تحفظ یافتہ‘‘ پناہ گاہ میں موجود تھے۔ پچاس ہزار سے زائد خواتین کو ریپ اور جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔ عالمی طاقتیں بیان بازی تک محدود رہیں، قراردادیں محض کاغذی ثابت ہوئیں، اور بالآخر ایک ایسا امن معاہدہ مسلط کیا گیا جس نے قاتل کو انعام اور مقتول کو مستقل زخم دے دیا۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی بمباری نے اب تک 38,000 سے زیادہ فلسطینی جانیں نگل لی ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔

اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا، اسکول اور مساجد خاکستر ہوئیں، رفح کراسنگ پر امدادی قافلے روک دیے گئے یا بمباری میں تباہ کر دیئے گئے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔

بوسنیا میں قاتلوں کو ’’نسلی تطہیر‘‘ کے نام پر وقتی امن کا تحفہ دیا گیا۔ غزہ میں بھی خطرہ یہی ہے کہ تعمیرِ نو کے نام پر اربوں ڈالر آئیں گے مگر اس کے بدلے میں فلسطینی عوام کی سیاسی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ دنیا اپنے راستے پر چل دے گی، یتیم بچے کھنڈرات میں کھیلیں گے، اور قاتل کسی خفیہ معاہدے کے سائے میں محفوظ رہیں گے۔ یہ المیے صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی جیتی جاگتی مہر ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کب رکے گا، بلکہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کب جاگے گی؟ جب آنے والی نسلیں یہ پڑھیں گی کہ بوسنیا اور غزہ میں انسانیت کو ذبح کیا گیا اور ہم خاموش تماشائی تھے، تو کیا ہم اس شرمندگی اور تاریخی ندامت کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟

متعلقہ مضامین

  • پتہ نہیں تھا پاکستان کا ردعمل اتنا تباہ کن ہو گا، بھارتی آرمی چیف: مودی ٹکے ٹوکری ہو گیا، خواجہ آصف
  • دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست
  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
  • ملک میں کوئی آوازایسی نہیں جو عوامی مسائل پر بات کرسکے: حافظ نعیم
  • ملک میں کوئی آواز ایسی نہیں جو عوامی مسائل پر بات کرسکے، حافظ نعیم
  • یومِ پاکستان: وہ داستان جس کا ہر لفظ لہو میں ڈوبا ہے
  • اقوال زریں!
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب