بے اعتبار اور بے وقار بھارتی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
پہلگام ( مقبوضہ کشمیر) کے خونی واقعہ کو آج 38دن گزر چکے ہیں ۔اِس واقعہ کی بنیاد پر بھارت نے پاکستان پر جو الزامات عائد کیے تھے، پانچ ہفتے گزرنے کے باوجود بھارت دُنیا کے سامنے ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ اب خفت مٹانے کے لیے اپنے 7سفارتی وفود ( جو51ارکان پر مشتمل ہیں) دُنیا بھر میں بھیج رہا ہے۔ اِن گزرے38ایام میں کیا کچھ نہیں ہُوا ؟ جنوبی ایشیا کے دونوں بڑے ممالک، پاکستان اور بھارت ، میں جنگی تصادم ہو چکا ہے ۔
اِس جنگ میں بھارت نے پہل کی ۔ دو روزہ صبر اور اعراض کے بعد پاکستان نے اُصولی طور پر ، اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہُوئے، بھارت کو صف شکن جواب دیا۔ اِس جواب کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے ۔ بھارت ابھی تک شکست کی دُھول پھانک رہا ہے ۔ ’’پاکستان چائنہ انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے24مئی2025ء کو 16 Hours that reshaped South Asia کے زیر عنوان جو تہلکہ خیز رپورٹ شائع کی ہے، اِس نے بھی بتایا ہے کہ پاکستان نے کس طرح بھارت پر جنگی بالا دستی حاصل کی ۔
نریندر مودی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ پاکستان سے (غیر متوقع طور پر) شکست کھانے کے بعد اپنے عوام کا کیسے اور کیونکر سامنا کریں؟پاکستان سے شکست کا داغ لینے کے بعد مودی جی کے لیے بھارتی صوبے( بہار) کا ریاستی انتخاب جیتنا بھی تقریباً نا ممکن سا بن گیا ہے۔دوسری طرف پاکستان کے حکمران، عوام اور افواجِ پاکستان فتحیاب ہو کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں ۔
گزرے 38ایام کے دوران پاکستان کی شہباز حکومت اطمینان سے سرشار ہے ۔اِسی اطمینان اور فاتحانہ مسرت کا اعجاز ہے کہ شہباز حکومت نے اپنے فاتح جرنیل ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، کو فیلڈ مارشل کے بے مثل تمغے اور انعام سے نواز دیا ہے ۔ جنرل صاحب موصوف کے کاندھوں پر اب پانچ ستارے جگمگا رہے ہیں ۔ پاکستانی عوام کو مبارک ہو کہ پاکستان کی پہلی سویلین حکومت میں پاکستانی آرمی چیف کو پہلا بار فیلڈ مارشل کے عظیم عہدے سے سرفراز کیا گیا ہے ( اگرچہ تاریخی اعتبار سے جنرل عاصم منیر پاکستان کے دوسرے فیلڈ مارشل ہیں)بھارت کو شکستِ فاش دے کر جنرل عاصم منیر میرٹ پر فیلڈ مارشل بنائے گئے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم اُنہیں تہنیتیں دے رہی ہے۔
مبارک سلامت کے اِس ماحول میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ایوانِ صدر میں منعقدہ ایک پُر شکوہ تقریب میں جنرل عاصم منیر کو باقاعدہ ’’بیٹن آف فیلڈ مارشل ‘‘ بھی عطا کر چکے ہیں ۔مسرت کے اِس موقع پر فیلڈ مارشل صاحب نے صدرِ مملکت ، وزیر اعظم ، ارکانِ اسمبلی اور سینئر فوجی قیادت کے اعزا ز میں ایک عشائیہ بھی دیا ہے ۔
جب جنرل حافظ سید عاصم منیر صاحب کو’’بیٹن آف فیلڈ مارشل‘‘ عطا کی جارہی تھی، اُس وقت بھارت میں شکست کا احساس فزوں تر ہو گیا تھا ۔ افسوس کے ساتھ کہنا چاہیے کہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے بعض وِنگز نے جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر بین السطور تنقید کی ہے ۔ بانی پی ٹی آئی نے جیل میں بیٹھ کو اپنی ایک ٹویٹ میں( مبینہ طور پر) فیلڈ مارشل بنائے جانے کے فیصلے پر طعن آمیز لہجے میں بیان دیا ہے ۔ موصوف کی ہمشیرہ محترمہ، علیمہ خان، نے بھی جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملنے کے بعد کچھ ایسا ہی نامناسب اسلوب اختیار کیا ہے ۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے مذکورہ بہن بھائی کے مذکورہ ، مبینہ بیانات کو سخت ناپسند کیا ہے ۔
خصوصاً اِس ماحول میں جب کہ پاک بھارت کشیدگی کے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں ۔ ایسے میں تو ہمیں زیادہ قومی یکجہتی اور زیادہ یک زبانی کی ضرورت ہے۔ اور لندن میں ’’تشریف فرما‘‘ ایک پاکستانی خاتون دانشور ہیں ( جو چند سال قبل پاکستانی سیکیورٹی اداروں بارے ایک متنازع کتاب بھی لکھ چکی ہیں)موصوفہ نے ایک بھارتی اخبار ThePrintمیں(23مئی2025ء کو) آرٹیکل لکھ کر جنرل عاصم منیر کے خلاف اپنے دل کا غبار ہلکا کیا ہے : دہن پر ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے۔۔۔۔۔ ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے!
جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بنائے جانے پر بھارتی میڈیا کے پیٹ میں جو مروڑ اُٹھے ہیں، یہ شائد مستقل ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بنائے جانے ہی پر اپنے سر میں جھوٹ کی خاک نہیں ڈالی ہے بلکہ بھارتی میڈیا حالیہ چار روزہ پاک بھارت کے دوران بھی جھوٹ و افترا کی خاک اُڑا کر اپنے وقار اور اعتبار کا جنازہ نکالتا رہا ہے ۔
چار روزہ جنگ کے دوران تو جھوٹے بھارتی میڈیا نے لاہور میں ایک سمندر بھی دریافت کر لیا تھا (جس پر بھارتی بحریہ نے مبینہ طور پر قبضہ کر لیا تھا) اب جھوٹے بھارتی میڈیا سے لاہوریئے پوچھ رہے ہیں: لاہور میں ہمارا سمندر واپس کرو! بھارتی افترا کے نتائج بھی نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر معروف و معتبر برطانوی ہفت روزہ جریدے دی اکانومسٹ نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں ایک جھوٹے بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی دُنیا بھر میں قلعی کھول دی ہے ۔
ہم تو مشہور بھارتی صحافی و اینکر پرسن ، کرن تھاپڑ، کو خاصا شائستہ مزاج، لبرل اور سچ کا علمبردار سمجھتے رہے ہیں۔ مگر تازہ پاک بھارت جنگی کشیدگی کے دوران وہ بھی، دیگر بھارتی صحافیوں کی مانند، بی جے پی کی بھڑکائی گئی پاکستان دشمن آگ کی رَو میں بُری طرح بہہ گئے ۔ اِس کا مظاہرہ 24مئی2025 کو اُس وقت ہُوا جب کرن تھاپڑ The Wireپر پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ سیاسی دانشور اور مصنف، جناب حسین حقانی، کا انٹرویو کررہے تھے ۔ کرن تھاپڑ نے جب حقانی صاحب سے مروجہ بھارتی کذب و افترا کے تحت بیہودگی اور تہمت تراشی سے سوال کرنا شروع کیے تو بطورِ احتجاج ، شائستگی کے ساتھ ، حسین حقانی کرن تھاپڑ کے شو ہی سے نکل گئے۔
یہ انٹرویو 36منٹ جاری رہا۔ شو سے نکلنے کے بعد حسین حقانی صاحب نے خود اِس واقعہ بارے ٹویٹ بھی کیا۔ یہ انٹرویو اور احتجاج اب بھی یو ٹیوب پر پڑا ہے ۔ یہ منظر اِس امر کا ثبوت ہے کہ جھوٹ اور جعلسازی کی بنیاد پر بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کی پاکستان دشمن و اسلام دشمن بھڑکائی آگ سے کرن تھاپڑ ایسے سنجیدہ بھارتی صحافی بھی فکرِ ہندوتوا سے متاثر ہو گئے ہیں ۔
سچ یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے،خاص ایجنڈے کے تحت، پاکستان کے خلاف جھوٹ کے طومار باندھ کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑیاں ماری ہیں ۔یوں بھارتی میڈیا کا کثیر حصہ عالمی میڈیا کی منڈی میں اپنا وقار اور اعتبار کھو چکا ہے ۔ اور یہ کوئی معمولی نقصان اور خسارہ نہیں ہے ۔معروف بھارتی صحافی ، سوہاسنی حیدر، نے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں بھارتی خسارے کا ادراک و اعتراف کیا ہے ۔ سبھی بھارتی صحافیوں کو، رفتہ رفتہ، احساسِ زیاں ہو رہا ہے ۔ مشہور ہفت روزہ بھارتی جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے 23مئی 2025 کوایک آرٹیکل لکھ کر بین السطور اعتراف کیا ہے کہ بھارتی میڈیا میں جو ’’بے بنیاد حقائق‘‘ پیش کیے گئے ۔ پاکستان نے اِس خلا سے فائدہ اُٹھایا ۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ امریکی صحافی اور دانشورکرسٹائن فیئر نے بھی جھوٹے بھارتی میڈیا کی گوشمالی کی ہے۔ مذکورہ امریکی دانشور ، کرسٹائن فیئر، نے ابھی چند دن پہلے ہی بھارتی شعلہ فشاں اینکر اور پاکستان کے اندھے مخالف و معاند، ارنب گوسوامی ، کے ٹاک شو کا یہ کہہ کربائیکاٹ کر دیا تھا : ’’تم چیختے بہت ہو۔‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بنائے کہ بھارتی میڈیا جھوٹے بھارتی بھارتی صحافی کہ پاکستان کے دوران کے بعد رہا ہے نے بھی کیا ہے
پڑھیں:
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
ریاض احمدچودھری
انڈین اٹاامک انرجی ریگولیشن بورڈ نے براہموس میزائلوںکی سٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد وہاں سے جوہری مواد سے تابکاری کا الرٹ جاری کیا ہے۔بھارتی حکومت نے انڈین نیشنل ریڈیولاجیکل سیفٹی ڈویژن کے ذریعے، بیاس، پنجاب کے قریب 10مئی کو برہموس میزائل اسٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد 3سے 5کلومیٹر کے دائر ے میں مقیم لوگوں کو تابکاری کے اخراج کی وجہ سے فوری طورپر انخلاء کرنے گھرسے باہر نہ نکلنے ، کھڑکیاں بند کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال سے گریز کرنے اور باہر نکلنے کی صورت میں حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال سے واضح ہوتاہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے جس سے خطے میں ماحولیاتی خرابی پیداہونے کے ساتھ ساتھ تابکاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر بند کیاجانا چاہیے۔ پاکستان اب قانونی طور پر اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا سکتا ہے، آئی اے ای اے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھارت کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھیں اور پابندیوں پر غور کریں۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ، بشمول مارچ 2022میں پاکستان پر برہموس میزائل کی حادثاتی فائرنگ، لاپرواہی کے خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے۔
مودی حکومت جوہری مواد کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، جس کے باعث یورینیم چوری، اسمگلنگ اور ایٹمی مواد کی بدانتظامی بھارت کی تاریخ کی سنگین مثال بن چکی ہے۔یہ تمام صورتحال بھارتی سیکیورٹی کی ناکامی اور مودی کی نااہلی و غفلت کو بے نقاب کرتی ہے، بین الاقوامی میڈیا مشرقی جھارکھنڈ ریاست میں تین سرکاری کانوں سے نکلنے والے تابکاری فضلے کو صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دے چکا ہے۔ انتہا پسند مودی کا جوہری جنون عوام کی صحت اور زندگیوں کو تابکاری کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہا ہے، جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر کو جوہری ہتھیاروں سے جوڑنا مودی حکومت کے سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ذمہ داری کا واضح ثبوت ہے۔ مودی حکومت کا جوہری ایجنڈا خطے میں کشیدگی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے170ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلاؤ اور عدم پھیلاؤ پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان کا رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40 رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
بھارتی صحافی اور سماجی کارکن کاویہ کرناٹیک نے کہا ہے کہ بھارت کے جوہری طاقت ہونے کی اصل قیمت جھارکھنڈ کے بھولے بھالے لوگ اور تباہ شدہ دیہات ادا کررہے ہیں جہاں جوہری فضلہ پھینکنے کی وجہ سے لوگوں کو جلتی ہوئی زمین، زہر آلود پانی اور آہستہ آہستہ موت کا سامنا ہے۔ کاویہ نے انکشاف کیا کہ جھارکھنڈ جو بھارت کے یورینیم اور کوئلے کا سب سے بڑا حصہ پیدا کرتا ہے، بنجر زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ہم نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے معذوری دی ہے۔ جادو گورا نامی گائوں کی حالت المناک ہے کہ وہاں ہرپانچ میں سے ایک عورت اسقاط حمل سے گزرتی ہے کیونکہ ہم نے اپنا ایٹمی فضلہ وہاں پھینک دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر تیسرا آدمی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہے جبکہ لوگ اپنے پورے جسم پر دھبوں اور پگھلے ہوئے چہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ آدھے بچوں کو ذہنی کمزوری کا سامنا ہے۔ کوئلہ پیدا کرنے والے ایک علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کی وجہ سے مٹی خود بخودجل رہی ہے اور لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کاویہ نے حکومت کے ترقی کے دعوئوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت وشوا گرو بن گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممبئی میں بڑی فلک بوس عمارتیں ہیں لیکن اس میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی ہے جہاں تقریبا بیس لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں جو بارش میں پانی سے بھر جاتا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں لوگوں کو ایسا پانی پلایا جاتا ہے جو پیٹرول کی طرح دکھتا ہے۔آپ باقی بھارت کی صورتحال کا تصور اسی سے کر سکتے ہیں۔شہری خوشحالی کے سرکاری دعوئوںکی مذمت کرتے ہوئے کاویہ نے کہاکہ ہماری فلموں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممبئی اور دہلی رہنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بھارتی شہر دنیا میں سب سے بدترین ہیں ، چاہے وہ آلودگی کا معاملہ ہو یا قدرت سے ہم آہنگی کا۔کچی آبادیوں میں بھی وائٹنر جیسی منشیات پہنچ چکی ہیں۔جب ہم باہر نکلتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے طور پر، ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ صحافی ایسی چیزوں کو رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کرنا چاہتے۔کاویہ کے انکشافات بھارت کی نام نہاد اقتصادی ترقی کے دعوئوں اور ماحولیاتی تباہی کی قلعی کھول دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین علاقے کس طرح بھارت کے جوہری اور صنعتی طاقت کے حصول کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔