بھارتی فوج میں مذہبی تعصب کا شکار ہونے والا لیفٹیننٹ سیموئیل کمالیسن
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
مودی دور حکومت میں دیگر شعبوں کی طرح فوج میں بھی مذہبی تعصب بڑھ چکا ہے، بھارتی فوج میں غیر ہندو کو بھی زبردستی ہندوانہ تقریبات یا رسومات میں شرکت کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔
بھارتی فوج میں مذہبی تعصب کا شکار ہونے والوں میں لیفٹیننٹ سیموئیل کمالیسن بھی شامل ہیں۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ سیموئیل کمالیسن نے 2017 میں بھارتی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔
لیفٹیننٹ سیموئیل کمالیسن عیسائی ہونے کی وجہ سے سکھ رجمنٹ کی ہندوانہ اور سکھوں کی تقریبات میں شرکت سے معذرت کرتا رہا۔
لیفٹیننٹ سمیوئیل کمالیسن کا کہنا ہے کہ ’’وہ اپنے مذہب کی توہین نہیں کرنا چاہتا اور دیگر سپاہیوں کے مذہبی جذبات کا بھی خیال رکھتا ہے۔‘‘
بھارتی فوج کے حکام نے لیفٹیننٹ سمیوئیل کے دیگر مذہبی تقریبات میں شرکت سے انکار کو فوجی نظم و ضبط سے متصادم قرار دے دیا۔ اسی بنا پر لیفٹیننٹ سیموئیل کمالیسن کو 2021میں آرمی ایکٹ کی دفعہ 41 کے تحت برطرف کر دیا گیا۔
لیفٹیننٹ سیموئیل کمالیسن نے انصاف ملنے کی امید پر اس برطرفی کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، مگر دہلی ہائیکورٹ کے جسٹس نوین چاؤلہ اور جسٹس شلندر پر مشتمل بینچ نے انصاف دینے کے بجائے لیفٹیننٹ سیموئیل کو ہی قصور وار قرار دے دیا۔
دہلی ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ’’یہ معاملہ مذہبی آزادی کا نہیں بلکہ آفیسر کے قانونی حکم کی تعمیل کا ہے، جو ہر فوجی پر لازم ہے۔‘‘
بھارتی عدالت کے مطابق سیموئیل کمالیسن نے اپنے مذہب کو فوجی ڈسپلن سے بالاتر سمجھا، جو نظم و ضبط کے خلاف تھا۔ عدالت نے فوج کے فیصلوں کو بلاوجہ چیلنج کرنے سے منع کیا۔
لیفٹیننٹ سیموئیل کی برطرفی اور عدالت سے بھی انصاف نہ ملنا موجودہ بھارتی نظام کی انتہا پسندی کا واضح ثبوت ہے۔ بھارت کا سیکولر ملک ہونے کے دعوے حقیقت سے متصادم ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارتی فوج میں
پڑھیں:
ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-06-20
کراچی(کامرس رپورٹر) پاکستان بزنس فورم نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران بار بار روپے کی قدر میں کمی کے باوجود ملک کی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ہے۔غیر جانب دار اور غیر منافع بخش تنظیم پی بی ایف کے مطابق روپے کی قدر میں کمی نے نہ تو پاکستان کی برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا ہے اور نہ ہی پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔1955 سے 1971 تک پاکستان کو معیشت کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے، جب روپے کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 4.75 روپے مستحکم رہی۔ اس عرصے میں صنعتی ترقی، معتدل افراطِ زر اور مضبوط برآمدی ماحول دیکھنے میں آیا۔ تاہم 1971 کے بعد مسلسل گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔1975 تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 9.99 روپے تک گر گئی اور 2025 میں یہ تقریباً 284 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس بڑی گراوٹ کے باوجود برآمدات میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو بنیادی معاشی مسائل کے حل کے بجائے ایک وقتی حل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے ایکسچینج ریٹس میں فرق مصنوعی ڈالر قلت پیدا کرتا ہے، جس سے کرنسی ذخیرہ کرنے والے اور ٹیکس چور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، تیل اور خوردنی تیل جیسی بڑی درآمدی اشیاء پر انحصار کی وجہ سے کمزور کرنسی کے فوائد زائل ہو جاتے ہیں، نتیجتاً افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، پاکستان کی معیشت کی زیادہ تر پیداواری لاگت ڈالر سے منسلک ہے ، خام مال، مشینری، توانائی اور ٹیکنالوجی کی درآمدات پر انحصار کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے نہ کہ مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔فورم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک بنیادی ڈھانچوں کی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاتا، روپے کی گراوٹ، افراطِ زر اور برآمدی زوال کا چکر جاری رہے گا۔ رپورٹ میں پالیسی سازوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی کی قدر میں ہیرا پھیری کے بجائے حقیقی اصلاحات، پیداواری صلاحیت میں اضافے، کم پیداواری اخراجات اور کاروباری مؤثریت پر توجہ دیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، برآمدی مسابقت صرف روپے کی قدر میں کمی سے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے پیداواری بہتری، شرحِ سود میں کمی، پالیسی استحکام، اختراعات اور کارکردگی میں اضافے کی ضرورت ہے۔فورم نے حکومت، صنعت اور مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود انحصاری، تکنیکی ترقی اور پائیدار معاشی نمو پر مبنی طویل المدتی حکمتِ عملی تشکیل دیں تاکہ پاکستان معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور برآمدی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔