مودی سرکار 2014 سے عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا جال بنتی آ رہی ہے، جو اب بے نقاب ہو گیا ہے ۔برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق امریکہ کے’’ فریمانٹ گوردوارے‘‘ نے ہندو امریکن فائونڈیشن کو مودی سرکار کا غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے امریکی محکمہ انصاف سے تحقیقات کا مطالبہ کیاہے۔ مودی کی دہشت گردی اب الٹی پڑتی دکھائی دے رہی ہے ، نا صرف بیرون ملک اس پر تھو تھو ہو رہی ہے ، بلکہ اندرون ملک بھی عرصے سے سوئی ہوئی ، دبائی گئی علیحدگی کی تحریکیں ،فعال ہو چکی ہیں ۔ دیکھا جائے تو اس وقت وہاں کل علیحدگی کی 20 تحریکیں چل رہی ہیں اگر یہ تحریکیں کامیاب ہوجائیں تو انڈیا 20 ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا، یعنی مغلوں سے پہلے والا ہزاروں راجواڑوں کا خطہ ۔
شمال میں سب سے زیادہ نمایاں اور پُرانا محاذ جموں و کشمیر کا ہے، جہاں سات دہائیوں پر پھیلا فوجی راج اور 2019 میں آئینِ ہند کی شق 370 کی منسوخی نے حریت کی چنگاریوں کو مستقل شعلہ بنا دیا ہے۔ اسی شمالی خم میں مغربی پنجاب کے سکھ حلقوں کی پرانی امنگ ’’خالصتان‘‘ بھی ہے، یہ تحریک 1984میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے سکھوں کی نسل کشی کے بعد اگرچہ دب گئی تھی، مگر مغربی ممالک میں مقیم سکھ ڈائسپورا اور حالیہ کسان تحریکوں نے اسے نئی جان بخشی ہے۔ اس کے واقع ہماچل اور اتراکھنڈ میں بھی مقامی لوگ انڈیا سے علیحدہ ریاستیں چاہتے ہیں ۔مرکزِ ہند میں جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڈیشہ اور مدھیہ پردیش کی معدنی پٹی جسے ’’ریڈ کوریڈور‘‘ کہا جاتا ہے آدی واسی قبائل کی محرومیوں اور ماؤ نواز مسلح جدوجہد کی علامت ہے۔ یہاں ریاستی تحویل میں آنے والی کانوں نے مقامی آبادی کو بےدخل کیا، اور بدلے میں ترقی کے وعدے بدعنوان مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں سمٹ گئے۔ نتیجہ یہ کہ نکسل گوریلوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان برسوں سے ایک ایسی آنچ سلگ رہی ہے جس میں سڑکیں، ریل کی پٹریاں اور انسانی زندگیاں پگھلتی رہتی ہیں۔ اسی خطے میں بہار اور اتر پردیش کی گنگا، جمنا تہذیب، غربت اور ذات پات کے گٹھ جوڑ میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں کبھی ’’پوروانچل‘‘ اور کبھی ’’بندیل کھنڈ‘‘ کے نام سے چھوٹی ریاستوں کے مطالبے سر اٹھاتے رہتے ہیں۔
بھارت کا شمال مشرق جسے بعض مقامی باشندے طنزیہ انداز میں ’’بالانگما‘‘ یعنی دور افتادہ گھر کہتے ہیں نسلی، مذہبی اور لسانی رنگا رنگی سے بھرپور ہے، اور یہی تنوع شورش کا ایندھن بھی بن گیا ہے۔ ناگا پہاڑیاں ایک علیحدہ ’’ناگالِم‘‘ کا خواب دیکھتی ہیں، آسام میں اولفا کی بندوقیں کبھی تیل کی رائلٹی پر گرجتی ہیں تو کبھی ’آسام صرف آسام والوں کا‘ کے نعرے پر۔ منی پور میں مِیتئی اور قبائلی برادریوں کی کشمکش کو پی ایل اے اور یو این ایل ایف کی متوازی حکومتیں تقویت دیتی ہیں، جبکہ میزورام، تریپورہ اور میگھالیہ میں مقامی قوم پرستی نئے وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر سوال اٹھاتی ہے۔ ان ریاستوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے بغاوت کو دبانے کے بجائے فوج اورعوام میں خلیج کو اور گہرا کر دیا ہے۔
اب رخ کرتے ہیں دکن کے میدانی اور ساحلی علاقوں کا۔ تامل ناڈو میں دراوِڑی تحریک بیسویں صدی میں علیحدگی کے مطالبے سے واپس تو ہوئی، مگر اس نے ’’میں پہلے تامل، پھر ہندوستانی‘‘ کا بیانیہ شہری ووٹ بینک کی صورت میں ہمیشہ کے لیے پختہ کر دیا۔ کیرالا کی ملّحت زدہ فضا میں، کرناٹک کے ساحلوں اور آندھرا کے رائل سیما خطے میں کبھی کوڈاگُو، کبھی تولو ناڈو اور کبھی الگ رائل سیما ریاست کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ سرگوشیاں شاید ابھی توپ کا گولہ نہ بنی ہوں، مگر تلنگانہ کی صورتِ حال بتاتی ہے کہ سرگوشی اگر دیر تک گونجے تو بالآخر آئین میں نئی ریاست کا نقشہ کھینچ دیتی ہے۔
انڈین حکومت کے پاس اس تمام اندرونی اُبال کا مقابلہ کرنے کے دو بڑے ہتھیار ہیں ایک ہاتھ میں ترقیاتی پیکج اور مخصوص مالی فنڈز، دوسرے ہاتھ میں سکیورٹی فورسز اور سخت گیر قوانین۔ جہاں میزورام اور ناگا لینڈ جیسے علاقوں میں طویل مذاکرات نے شورش کم کی، وہیں کشمیر یا ریڈ کوریڈور میں فوجی حل نے عارضی سکون کے بدلے محرومی کا احساس دوچند کر دیا۔ اسی کشمکش نے لداخ اور اروناچل میں سرحدی سڑکوں، سرنگوں اور ایئر بیسز کی تعمیر کی رفتار بڑھائی، لیکن ہر نئی سڑک کے ساتھ فوجی جوتوں کی چاپ بھی مقامی آبادی کے کانوں میں گونجتی ہے۔بیرونی محاذ پر حالات یوں ہیں کہ چین اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کہہ کر نقشوں اور ناموں کا کھیل کھیلتا ہے، پاکستان عالمی فورمز پر کشمیر کی متنازع حیثیت یاد دلاتا ہے، اور خالصتان کا جھنڈا لندن، ٹورنٹو اور میلبورن کی گلیوں میں لہرا کر بھارت کی سفارت کاری کو زچ کرتا رہتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رہی ہے
پڑھیں:
بھارت بیرون ملک اپنے واحد فوجی اڈے سے ہاتھ دھو بیٹھا‘ تاجکستان کا عینی ائربیس خالی کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-01-14
دوشنبے (صباح نیوز /مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور چین سے بارہا منہ کی کھانے کے بعد بھارت کو اب خطے کے دیگر ممالک بھی آنکھیں دکھانے شروع ہو گئے۔ خطے کا ٹھیکیدار بننے کا شوق رکھنے والے بھارت سے تاجکستان نے عینی فضائی اڈے کا مکمل کنٹرول واپس لے لیا ہے۔ یہ اقدام روسی اور چینی دبائوکے بعد عمل میں آیا، جس کے نتیجے میں بھارت اپنی واحد غیر ملکی فوجی تنصیب سے 2 دہائیوں بعد بے دخل کر دیا گیا۔ عالمی دفاعی جریدوں کے مطابق اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی پوزیشن کو شدید دھچکا پہنچایا۔ عینی ائربیس بھارت کے لیے پاکستان اور افغانستان پر فضائی نگرانی کا ایک اہم مرکز تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ماسکو اور بیجنگ نے تاجکستان پر دبا ئوڈال کر بھارت کے ساتھ لیز معاہدہ ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ روس کے7000 سے زاید فوجی پہلے ہی تاجکستان میں تعینات ہیں جبکہ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ملک میں بھاری سرمایہ کاری اور فوجی تعاون بڑھا رکھا ہے۔ تاجکستان کا بھارت سے یہ فاصلہ، ماہرین کے مطابق، وسطی ایشیا میں روس اور چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بڑھتے اثرورسوخ کی علامت ہے جبکہ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ واقعہ بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک ویک اپ کال ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت نے عینی ائربیس پر 2002ء میں70 سے100ملین ڈالر کی لاگت سے سرمایہ کاری کی تھی،بھارت نے عینی ائربیس پر رن وے کو بہتر بنایا، ایندھن کے ذخائر اور ائر ٹریفک کنٹرول سسٹم کو اپ گریڈ کیا اور ایک مرحلے پر یہاں بھارتی فضائیہ کے Su-30MKI لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تعینات تھے۔ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے عینی ائربیس سے بھارتی انخلا کو بھارت کی اسٹریٹجک سفارت کاری کے لیے ایک اور دھچکا قرار دیا۔