ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اسرائیل کی اعلانیہ پالیسی تھی کہ جب بھی ایران ایک خاص حد سے آگے اپنا نیوکلیئر پروگرام لے جائے گا تب اسرائیل اس پر اسٹرائک کرے گا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے جب یہ رپورٹ کیا کہ ایرانی پروگرام ریڈ لائین سے آگے چلا گیا ہے تو اس کے بعد حملہ ہونا دنوں کی بات تھی۔ حملے کے نتیجے میں اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسدران انقلاب سربراہ میجر جنرل حسین سلامی سمیت 6 جوہری سائنسدان بھی نشانہ بنے ہیں۔
درجنوں اسرائیلی طیاروں نے اس حملے میں حصہ لیا۔ یہ شام اور عراق کے راستے ایران پر حملہ آور ہوئے۔ دنیا نے اس حملے کی مذمت شروع کردی ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے اس حملے میں شامل نہیں ہیں۔ اگر ایران نے جوابی کارروائی کی تو ہم اس حملے کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم میزائل حملوں کو روکنے کے لیے خاصا موثر ہے۔
یہاں رک کر ہمیں دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ ایران پر حملوں کی نوبت آئی کیسے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملوں کا نتیجہ یہ نکلا کے حماس کی ساری ٹاپ قیادت ماری گئی۔ لبنان میں حزب اللہ کی قیادت بھی نشانہ بنی۔ شام میں ایران کی حمایتی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے ساتھ ایران کے پاکستان پر اسٹرائک اور پاکستانی جواب کو بھی جوڑ کر دیکھ لیں۔ ایران جو اپنی پراکسیوں کے ذریعے سب کو آگے لگائے پھر رہا تھا۔ اس کے باوجود ایران مخالف بلکہ دشمن بھی اس کے خلاف براہراست لڑائی سے گریز کر رہے تھے۔
پاکستان ایران کے خلاف کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنے گا، یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے۔ ہم برادر مسلمان ملکوں کے آپسی تنازعات سے دُور رہتے ہیں تو اس کے بعد سوال بنتا ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو افغانستان میں کیوں کود جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ہم ادھر کھڑے ہوتے ہیں جدھر دنیا کھڑی ہوتی ہے۔
اگر مرشد کے الفاظ سے مدد لی جائے تو اسرائیلی پاکستان کو پاکستانیوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ہم سے کبھی کوئی ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ پنگا نہیں لیں گے۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا جدھر کوئی پنگا ہوگا ادھر ہمارا کچھ چنگا ہی ہوگا۔ اگر آپ کو پنگا اور چنگا والی بات سمجھ نہیں آئی تو سرینڈر مودی جی کو دھیان میں لائیں اور دل میں ہی پوچھیں کہ مہاراج ہنڑ آرام اے؟
امریکی فوج کی 250 سالہ تقریبات 14 جون کو ہونی ہیں۔ اسی دن ڈونلڈ ٹرمپ کی سالگرہ بھی ہے۔ ان تقریبات میں صرف ایک مہمان خصوصی بلائے گئے ہیں، بھلا کون؟ فیلڈ مارشل عاصم منیر۔ پاکستان نے انڈیا کو جو چپیڑیں کرائی ہیں اس سے پہلے ہی ٹرمپ ہماری بلائیں لے رہا ہے۔ ہر ہفتے کشمیر پر ثالثی کرانا اور پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینا نہیں بھولتا۔
یہ جو کام شروع ہوگیا ہے، اس میں قطار وہاں لگے گی جہاں ہم کھڑے ہوں گے۔ ہمارا جواب یہی ہوگا کہ ہم مصروف ہیں، لڑائیوں جنگوں سے پک چکے ہیں۔ پاکستان میں موجود شدت پسندوں دہشتگردوں کا شافی علاج کرنے پر یکسو ہیں۔ حکومت ترقیاتی کاموں پر کٹ لگا کر 20 فیصد دفاعی بجٹ بڑھا چکی ہے۔ اب دہشتگردی اور رنگ برنگ مسلح گروپوں کا علاج ہوگا۔
ازبکستان سے ریلوے ٹریک خرلاچی کرم ایجنسی سے پاکستان آنا ہے۔ ریکوڈک سے ریلوے ٹریک کراچی گوادر جانا ہے۔ ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہے کہ کسی اور طرف دیکھیں۔ پاکستان 4 دہائیوں سے مسلسل جنگ کا عملی تجربہ رکھنے اور اس کے نتائج بھگتنے والا ملک ہے۔ اب ہماری بس ہے اور مودی کی بھی ہم نے بس کرا دی ہے۔ جس کا جنگ کو جتنا دل کرتا کرلے اپنا شوق پورا کرے۔
سر جی نے جب پاکستان ہمیشہ زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا تو آپ کیا سمجھے تھے؟ اس کا مطلب تھا اب ہم کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنیں گے، ترقی پر فوکس کریں گے پڑھ لکھ کر بڑا انسان (ملک) بنیں گے، خوشیوں میں اپنا حصہ بڑھائیں گے۔ آپ کچھ اور سمجھے تھے تو غلط سمجھے تھے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اس حملے
پڑھیں:
فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل افسر میجر جنرل یفات تومر یروشلمی نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب ان کے خلاف ایک ویڈیو لیک کی تحقیقات شروع ہوئیں جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر بدترین تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
تومر یروشلمی نے اپنے استعفے میں کہا کہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کے افشا کی اجازت دی تھی۔ اس ویڈیو سے متعلق تحقیقات کے نتیجے میں 5 فوجیوں پر مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے، جس پر ملک بھر میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مذمت کی اور مظاہرین نے دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
واقعے کے ایک ہفتے بعد، ایک سیکیورٹی کیمرے کی ویڈیو اسرائیلی چینل این12 نیوز پر لیک ہوئی جس میں فوجیوں کو ایک قیدی کو الگ لے جا کر اس کے اردگرد جمع ہوتے دکھایا گیا، جبکہ وہ ایک کتے کو قابو میں رکھے ہوئے اور اپنی ڈھالوں سے منظر کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔
وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کو تصدیق کی کہ ویڈیو لیک سے متعلق فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور تومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
تومر یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ انہوں نے یہ اقدام فوج کے قانونی محکمے کے خلاف پھیلنے والے پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا، جو قانون کی بالادستی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا مگر جنگ کے دوران شدید تنقید کی زد میں تھا۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والی خاتون پر پولیس کا تشدد
ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں شریک حماس کے جنگجوؤں سمیت بعد میں گرفتار کیے گئے فلسطینی قیدی رکھے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس دوران فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی سنگین رپورٹس دی ہیں۔
ان کے استعفے پر سیاسی ردِعمل فوری آیا۔ وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ جو لوگ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف جھوٹے الزامات گھڑتے ہیں وہ وردی کے اہل نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل تشدد غزہ فلسطین قیدی